IMF شرائط:حکومت کیلئے بڑے فیصلے،ریلیف دینا ناممکن
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ کی تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں جب کہ وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے اقتصادی سروے جاری کردیاہے جس میں دعویٰ کیاگیاہے کہ مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی گروتھ)دواعشاریہ سات فیصدتک پہنچ گئی ہے جب کہ 2023میں جی ڈی پی کی شرح منفی تھی ،اسی طرح درآمدات میں گیارہ اعشاریہ سترہ فیصداضافہ بتایاگیاہے اور افراط زرچاراعشاریہ چھ اور اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ بائیس سے گیارہ فیصدپرآگیاہے،فائلرزکی تعدادبڑھ کر سینتیس لاکھ تک پہنچ گئی اوررواں سال ترسیلات زر ریکارڈاضافے کے ساتھ اڑتالیس ارب ڈالرتک پہنچنے کاامکان ظاہرکیاگیا،فی کس آمدنی ،جو1824ڈالرہے،ا س میں گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ اعشاریہ چھ فیصداضافہ ظاہرکیاگیاہے،لائیوسٹاک میں چاراعشاریہ سات،پولٹری میں آٹھ اعشاریہ ایک فیصداضافہ دیکھنے میں آیاتاہم اہم فصلوں گندم اور کپاس میں ساڑھے چودہ فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے،وزیرخزانہ نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ صنعتی ترقی میں چاراعشاریہ 77فیصداضافہ ہوا،رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا،اگراسی رفتارسے آبادی بڑھتی رہی تو یہ 40کروڑتک پہنچ جائے گی پھرسوچئے ملکی معیشت کاکیاہوگا،جہاں تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کاتعلق ہے اس کاباضابطہ اعلان بجٹ تقریرمیں کیاجائے گااب تک کی معلومات کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصداور پنشن میں ساڑھے سات فیصداضافہ کیاجارہاہے،آئی ایم ایف پروگرام کے باعث پاکستان کی معیشت کواستحکام ملا،کڑی شرائط کے باعث عام آدمی کو مشکلات کاسامناکرناپڑا،مہنگائی ایک ریکارڈسطح تک گئی اوراب مہنگائی بڑھنے کی رفتارکم ہوکرچارفیصدتک ہونے کادعویٰ کیاگیاہے،آئی ایم ایف کے بغیرحکومت کوئی بھی بڑافیصلہ نہیں کرسکتی،کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کے باعث حکومت کی مجبوری ہوتی ہے، ،بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے سے پہلے کابینہ میں اس کی منظوری دی جائے گی،اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ معاشی مشکلات کومدنظررکھتے ہوئے بعض مشکل فیصلے لیناحکومت کی مجبوری ہیلیکن ٹیکسز کے معاملے میں حقائق کو مدنظررکھ کرایسے فیصلے کئے جانے چاہئیں جس سے غریب اور متوسط طبقے پر مزیدبوجھ نہ پڑے،نئے بجٹ میں تنخواہ دارطبقے کے لئے نمایاں ریلیف اور بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کرناوقت کاتقاضااوردیرینہ مطالبہ ہیجسے پورا کیاجاناچاہئے،ملک جب بھی معاشی بحران کاشکارہواتو سب سے زیادہ قربانی ہمیشہ تنخواہ دارطبقے نے ہی دی،جس پرہربجٹ میں ٹیکسوں کابوجھ ڈالاگیا،یہی وجہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ شدید مالی دباؤ اور معاشی چیلنجز کا شکار ہے، مہنگائی ، روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور بڑھتے ہوئے ٹیکس کے بوجھ نے عام تنخواہ دار افراد کی زندگی کو نہایت مشکل بنا دیا ہے، تنخواہ دار طبقے کے افرادکی خوشحالی براہِ راست ملکی ترقی سے جڑی ہے، اگر یہ طبقہ مالی پریشانیوں میں مبتلا رہے تو اس کا اثر ملکی پیداوار، سماجی استحکام اور معیشت کی مجموعی کارکردگی پر منفی پڑتا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکس نظام کو اس طرح ترتیب دے جو تنخواہ دارطبقے پر کم سے کم بوجھ ڈالے، اسی طرح بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے یانفاذ کی روش نہ صرف تک کی جانی چاہئے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو: روس میں ایک فیکٹری ملازم کو غلطی سے تمام ملازمین کی تنخواہ ایک ساتھ وصول ہوگئی۔ تاہم جب کمپنی نے اس سے واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے انکار کردیا۔
خانٹی مانسیسک میں ایک فیکٹری نے اپنے ورکر ولادیمیر ریچاگوف پر 7 ملین روبلز (87,000 ڈالرز) واپس کرنے سے انکار پر مقدمہ دائر کیا ہے۔ یہ رقم سافٹ ویئر کی خرابی کی وجہ سے غلطی سے ملازم کو وصول ہوگئی تھی۔ جب اسے اپنی بینکنگ ایپ سے رقم کی اطلاع موصول ہوئی تو ولادیمیر ریچاگوف کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے 7,112,254 روبل (87,000 ڈالرز) کی رقم کو بونس سمجھا۔
ملازم کے ساتھیوں کے درمیان اگرچہ یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ ان کی فیکٹری ان کے لیے ایک نفع بخش سال کے بعد 13ویں تنخواہ تیار کر رہی ہے، لیکن اس نے کبھی بھی اس طرح کی توقع نہیں کی تھی۔
لیکن یہ کروڑ پتی بننے کی اس کی خوشی کچھ ہی دیر کے لیے رہی کیونکہ اسے جلد ہی محکمہ اکاؤنٹنگ سے فون کالز موصول ہونے لگیں کہ اسے غلطی سے 7 ملین روبل منتقل کر دیے گئے ہیں اور اسے واپس کرنا پڑے گا۔
لیکن آن لائن کچھ تحقیق کرنے کے بعد ولادیمیر نے ایک تکنیکی error کی نشاندہی کی بنا پر رقم واپس کرنے سے انکار کردیا اور اب کیس سپریم کورٹ میں داخل کرادیا گیا ہے جہاں اس کا حتمی فیصلہ ہوگا۔