پاکستان کی میڈیکل یونیورسٹیز میں ایم بی بی ایس اور نرسنگ کے نصاب میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو شامل کرلیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایم بی بی ایس اور نرسنگ کے نصاب میں اے آئی کا پانچ سالہ کورس تیار کیا گیا ہے جس میں طلبا کو طبی تعلیم اور پریکٹس میں اے آئی کے اخلاقی اور عملی استعمال سے روشناس کرایا جائے گا اور یہ نصاب مصنوعی ذہانت سے لیس ہے۔

اے آئی کی مدد سے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف مستقبل میں مریضوں کا علاج کر سکیں گے جبکہ پہلے ہی تشخیص، سرجری اور مریضوں کی نگہداشت میں اے آئی پر مبنی ٹولز استعمال ہورہے ہیں۔

اس کے علاوہ فیملی میڈیسن ڈیپارٹمنٹ میں ہامی پروگرام اور ریٹینا امیجز کی تشریح کے پائلٹ منصوبے بھی جاری ہیں۔

اس کے ساتھ ہی طلبہ کے لیے ڈیٹا اینالٹکس ورکشاپس اور ٹیلی کنسلٹیشنز میں شمولیت کے مواقع بھی فراہم کیے گئے ہیں تاکہ وہ ڈیجیٹل ہیلتھ سے ہم آہنگ رہ سکیں۔

سرجری کے میدان میں بھی اے آئی اور روبوٹک سسٹمز بھی متعارف کروائے گئے ہیں جن کے ذریعے پیچیدہ پیٹ، شرونی، پروسٹیٹ، ریکٹل اور ہیپاٹو بلیری آپریشنز ممکن ہو رہے ہیں۔

اس حوالے سے آغا خان یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کے ڈین پروفیسر کریم دامجی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ مصنوعی ذہانت کو میڈیکل اور نرسنگ کی تعلیم میں مرحلہ وار شامل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اے آئی کا ایک جامع کورس تیار کرلیا گیا ہے جو مستقبل قریب میں پانچ سالہ ایم بی بی ایس پروگرام میں بطور مضمون پڑھایا جائے گا، اس کورس کا مقصد طلبہ کو طب میں مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال سے آگاہ کرنا اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔

پروفیسر دامجی کے مطابق اس نصاب کو وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کیا جاتا رہے گا تاکہ یہ نئی ایجادات اور پیش رفت سے ہم آہنگ رہے۔ اس مقصد کے لیے یونیورسٹی کے کوالٹی، ٹیچنگ اینڈ لرننگ نیٹ ورک نے فیکلٹی کے لیے رہنما اصول بھی وضع کیے ہیں تاکہ تدریس اور امتحانات میں اے آئی کے اخلاقی استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ایم بی بی ایس اور نرسنگ کا نصاب ہر دو سے تین سال بعد داخلی طور پر جبکہ ہر پانچ سال بعد بیرونی ماہرین کے ذریعے ریویو کیا جاتا ہے۔ نصاب میں چھوٹی تبدیلیوں کا فیصلہ ایسوسی ایٹ ڈین اور کریکولم کمیٹی کرتی ہے، جبکہ بڑے فیصلے اور نئے کورسز شامل کرنے کا معاملہ اکیڈمک کونسل دیکھتی ہے جس کی سربراہی پرووسٹ کرتے ہیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایم بی بی ایس مصنوعی ذہانت اور نرسنگ اے ا ئی اے آئی میں اے

پڑھیں:

کوکنگ آئل اور ہماری صحت

سائنسی نقطہ نگاہ سے ایک اسٹڈی کی گئی کہ سب سے بہتر کھانے کا تیل کون سا ہے۔ جس میں 30کے قریب آئل کے برانڈز کو ٹیسٹ کیا گیا کیونکہ بہت سی خطرناک بیماریاں یعنی کینسر اور دل کے امراض ناقص تیل کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں ۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون سے تیل استعمال کرنے چاہیں اور کون سے نہیں ۔اس وقت اولیو آئل ، پام آئل ، کینولا آئل ، سن فلاور وغیرہ پوری دنیا میں بہت زیادہ استعمال ہو رہے ہیں ۔ آئل میں دو قسم کے فیٹfat) (ہوتے ہیں ۔

پہلا سیچوریٹڈ فیٹ اور دوسرا ان سیچوریٹڈ فیٹ ، دیسی گھی ،مکھن اور ڈالڈا میں بھی سیچوریٹڈ فیٹ ہوتے ہیں لیکن یہ کمرے کے درجہ حرارت پر پگھلتے نہیں اس لیے یہ نقصان دہ ہیں ۔ اگر ہمارے جسم میں مناسب مقدار میں فیٹ نہیں ہونگے تو ہماری باڈی وٹامن کو جذب نہیں کر سکے گی ۔اس کے علاوہ یہ فیٹ ہماری باڈی کے سیلزسٹریکچر کو بھی بناتے ہیں ۔ لیکن جب ہم دیسی گھی مکھن استعمال کرتے ہیں تو آہستہ آہستہ ہمارا کولیسٹرول لیول بڑھنا شروع ہو جاتا ہے ۔ ہمارے جسم کو اومیگا تھری اور اومیگا سکس چاہیے ہوتا ہے جو انسانی دماغ کے لیے بہت ضروری ہے ۔ جب کہ اومیگا تھری خون کی نالیوں کو کھولتا ہے ۔ اس طرح ہمیں دل کے اٹیک سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اگر اومیگا سکس کو بہت زیادہ استعمال کیا جائے جو سرسوں کے تیل میں ہوتا ہے تو ذیابیطس کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔

علاوہ اس کے الزائمر دل کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ دل کی نالیوں کو تنگ کرتا ہے ۔ اگر آپ ایک ایسے تیل کا استعمال کر رہے ہیں تو یہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے ۔ اس کے لیے ہمیں ایک ایسا کوکنگ آئل استعمال کرنا چاہیے جس میں اومیگا تھر ی اور اومیگا سکس کی مناسب مقدار ہو ۔ اومیگا تھری ہمارے جسم کے اندر نہیں بنتا ، چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مچھلی آئل اور خشک میوہ جات استعمال کرنے چاہیے ۔مچھلی آئل دماغ کے لیے بہت مفید ہے ۔ یہ حافظے کو طاقتور بناتا ہے ، مچھلی آئل دل کی صحت اور بلڈ پریشر کے لیے بہت مفید ہے۔ جسم کی اندرونی سوجن کو ٹھیک کرتا ہے ، دماغ کے لیے بہت اچھا ہے ، خاص طور پر طالبعلموں کی دماغی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے ۔

جب آپ کسی کوکنگ آئل کو انتہائی درجہ حرارت پر گرم کرتے ہیں تو سرسوں کا تیل کسی اور کیمیکل میں بدل جاتا ہے ۔ کیونکہ اس تیل کو بار بار اور بہت زیادہ پکانے سے ان ہوٹلوں یا ان جگہوں پر جہاں اس تیل کو بار بار استعمال کیا جائے یعنی ایک ہی تیل کو تو اس جگہ پر ایک خاص قسم کی بدبو پیدا ہو جاتی ہے ۔ ایسے تیل کے استعمال کی وجہ سے ذیابیطس ٹائپ ٹو ہونے کا شدید خطرہ ہوتا ہے ۔ ایسے زہریلے آئل کی وجہ سے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، ذہانت کم ہو سکتی ہے اور مزید یہ کہ دل کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں ۔

ایکسٹرا ورجن آئل کا استعمال سائنسی نقطہ نگاہ سے انسانی جسم کے لیے بہت مفید اور محفوظ ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ اولیو آئل صرف اس صورت میں فائدہ مند ہے جب ہم چائے کے چھوٹے چار چمچ سلاد پر ڈال کر کھائیں لیکن اگر ہم اسکو انتہائی درجہ حرارت پر پکائیں گے یا اس میں کھانا پکائیں گئے تو یہ اپنی شکل تبدیل کرکے ایک ایسے کیمیکل میں بدل جائے گا جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ اولیو آئل کو پکانے کے لیے صرف فرائی پین میں استعمال کرسکتے ہیں یعنی انڈہ ، شامی کباب وغیرہ یعنی وہ تمام اشیاء جو کم درجہ حرارت پر پک سکتی ہیں ۔ جب کہ اولیو آئل تمام کوکنگ آئل میں ایک مہنگا آئل ہے ۔

کیتھرائنا ریڈل ایک ریسرچ میں بتاتی ہیں کہ جن کا تعلق کوئین مارگریٹ یونیورسٹی ہے انھوں نے پام آئل پر ریسرچ کی جس کا پوری دنیا میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ اس آئل کا استعمال ہوٹلوں اور بیکریوں میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ خاص طور پر اس تیل سے کیک اور بسکٹ بنائے جاتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سیچوریٹڈ فیٹس بہت زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں جوانسانی صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ چنانچہ ان خاتون نے پام آئل کی ایک نئی قسم ایجاد کی ۔اس میں سیچوریٹڈ فیٹ عام پام آئل کے مقابلے میں 88فیصد کم ہوتے ہیں لیکن اس پام آئل کی قسم ہمارے ملک میں ابھی دستیاب نہیں ہے۔

اب آتے ہیں سرسوں کے آئل کی طرف جو ایشیاء میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتاہے لیکن اس پر بہت زیادہ ریسرچ نہیں ہوئی ہے ۔ اس میں بھی اومیگا سکس اور اومیگا تھری کی بڑی اچھی مقدار پائی جاتی ہے  لیکن سرسوں کے تیل میں اومیگا سکس کی کچھ زیادہ مقدار ہی پائی جاتی ہے ۔ اس لیے سرسوں کے تیل کا زیادہ استعمال بھی انسانی صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ کیونکہ اس کا زیادہ استعمال یورک ایسڈ بڑھا سکتا ہے ۔سن فلاور بھی ایک اچھا تیل ہے اور اس کے علاوہ کینولا آئل کا استعمال بھی بہتر ہے ، لیکن یاد رہے مکھن کا استعمال نقصان دہ ہے لیکن دیسی گھی اگر آپ کم مقدار میں استعمال کریں تو ٹھیک ہے ۔

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو حالیہ اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پنجاب فوڈز اتھارٹی نے تقریباً 10ہزار لیٹر ناقص کوکنگ آئل ضبط اور2000کلو سے زائد مردہ مرغیاں تلف کردی ہیں ۔ جسے فائیو اسٹار ریسٹورنٹس میں بھی سپلائی ہونا تھا۔ اس کے علاوہ ہزاروں لیٹر کیمیکل دودھ ہر ہفتے کئی مرتبہ تلف کیا جارہا ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں  یہ جرم قتل آمد کے زمرے میں آتا ہے جس کی سزا کم از کم عمر قید یا سزائے موت ہونی چاہیے ۔ علاوہ ازیں ان جرائم پیشہ افراد کی تمام دولت ، جائیداد بحق سرکار ضبط کرنی چاہیے خالی خولی معمولی جرمانوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ خطرناک بیماریوں میں مبتلا افراد ان بیماریوں کا علاج کرواتے کرواتے مالی طور پر تباہ وبرباد ہو جاتے ہیں ۔ اعلی عدلیہ سے گزارش ہے کہ اس انتہائی اہم عوامی مسئلہ پر فوری طور پر سو موٹو نوٹس لیا جائے ۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: وفاقی وزیر ماحولیاتی مصدق ملک پاکستان ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج میں مینجمنٹ کورس کی گریجویشن تقریب میں سرٹیفکیٹ تقسیم کررہے ہیں
  • کوکنگ آئل اور ہماری صحت
  • ٹھٹھہ: بریگیڈیئر (ر)خادم جتوئی ، سابق سیکرٹری صحت ڈاکٹر نسیم غنی ودیگر فری میڈیکل کیمپ کا دورہ کررہے ہیں
  • پاکستان میں ہیلتھ کا بجٹ گیارہ سو 56 بلین روپے ہے، سید مصطفی کمال
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  • مصنوعی ذہانت
  • دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت والی نیوز اینکر متعارف، ویڈیو وائرل
  • پاکستان سے متعلق بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹا پروپیگنڈا سامنے آگیا
  • اے آئی کا خوف بڑھنے لگا: ٹیکنالوجی کمپنیوں کی زیرزمین پناہ گاہوں پر سرمایہ کاری
  • ایف سی بلوچستان (نارتھ) کے زیر اہتمام نوشکی میں ای کامرس تربیتی کورس کامیابی سے مکمل