کابل جدید دنیا کا پہلا شہر بننے والا ہے جہاں پانی ختم ہو جائے گا، حیرت انگیز انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
افغان دارالحکومت کابل اس وقت تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔
ایک حالیہ بین الاقوامی تحقیق میں حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ یہ شہر آنے والے چند برسوں میں مکمل طور پر پانی سے محروم ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا، تو کابل جدید دنیا کا پہلا بڑا شہر ہوگا جو پانی کی قلت کے باعث زندگی کے لیے ناموزوں بن جائے گا۔
یہ انکشاف معروف عالمی فلاحی ادارے مرکری کور کی ایک تفصیلی تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کابل میں پانی کی کمی اب محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ بن چکی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلی اور بارشوں کی کمی نے شہر کے قدرتی آبی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو صرف 5 سال بعد کابل کے زیرزمین پانی کے ذخائر مکمل طور پر ختم ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں شہر کے تقریباً 70 لاکھ باشندے شدید انسانی بحران کا سامنا کریں گے۔ پانی کی دستیابی ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے اور جب وہی ختم ہو جائے تو زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں رہتا۔
2001 میں کابل کی کل آبادی محض 10 لاکھ تھی، مگر اب یہ تعداد 7 گنا بڑھ چکی ہے۔ یہ تیز تر اضافہ شہر کے آبی ذخائر پر ناقابل برداشت دباؤ ڈال رہا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ نصف سے زیادہ کنویں مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں جب کہ باقی بچنے والے ذخائر میں پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔
شہریوں کے لیے صاف پانی کا حصول اب مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کابل میں پانی اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ عام شہری اپنی آمدن کا 30 فیصد صرف پینے کے پانی پر خرچ کر رہے ہیں، جو کہ ایک تشویشناک اور غیر متوازن اقتصادی بوجھ ہے۔
مزید سنگین مسئلہ یہ ہے کہ بچ جانے والے زیرزمین ذخائر میں سیوریج کے آلودہ پانی کی آمیزش پائی گئی ہے، جس سے نہ صرف پانی پینے کے قابل نہیں رہا بلکہ خطرناک وبائی امراض پھوٹنے کا بھی خدشہ ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو کابل میں جلد ہی ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور دیگر مہلک بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔
یہ بحران صرف کابل تک محدود نہیں، بلکہ اس میں پورے خطے کے لیے ایک وارننگ چھپی ہے۔ پاکستان جہاں پہلے ہی پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے، کابل کی صورتحال سے سبق سیکھ کر اپنے آبی وسائل کے تحفظ کی طرف سنجیدگی سے توجہ دے۔ ہمیں پانی کے ضیاع کو روکنے، بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور شہری و دیہی سطح پر آبی نظام کی بحالی پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پی سی ایس آئی آر لیبارٹری کی رپورٹس میں ٹیمپرنگ کا انکشاف
اسلام آباد:ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے تشکیل کردہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے پی سی ایس آئی آر لاہور کی لیبارٹری میں ٹیسٹ رپورٹس میں ٹیمپرنگ اور بدانتظامی کی تصدیق کر دی.
کمیٹی نے متعلقہ افسران کے خلاف فوری محکمانہ کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے چھالیہ کے معطل شدہ ٹیسٹنگ یونٹ کو سخت کوالٹی کنٹرول پروٹوکولز کے بعد بحال کرنے کی تجویز دی ہے۔
پی سی ایس آئی آر لیبارٹریوں کی کارکردگی کا آڈٹ کرانے کی بھی سفارش کی گئی ،ذرائع کے مطابق، افلاٹوکسن ٹیسٹنگ میں سنگین بے ضابطگیاں پائی گئیں جن میں ٹیسٹ رپورٹس میں رد و بدل اور دستاویزات میں تضادات شامل ہیں.
کمیٹی نے ڈی جی پی سی ایس آئی آر لاہور ڈاکٹر قرۃ العین سید، پرنسپل سائنسی افسر ڈاکٹر یاسر سلیم اور ریسرچ آفیسر ڈاکٹر عشرت پروین کے خلاف انضباطی کارروائی کی سفارش کی ہے.
ذرائع کے مطابق کمیٹی سربراہ جوائنٹ سیکرٹری بلال بٹ کے آفس میں پی سی ایس آئی آر کے آٹھ افسران پیش ہوئے،کمیٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر رپورٹ کی گئی ویلیو تجزیاتی رپورٹ سے مطابقت رکھتی جسے بدنیتی پر مبنی طور پر منسوخ کر دیا گیا ،اسکی معقول وجہ بیان نہیں کی گئی.
ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر قرۃ العین سید نے پرنسپل سائنسی افسر ڈاکٹر یاسر سلیم اور ریسرچ آفیسر ڈاکٹر عشرت پروین کی ملی بھگت سے حقائق کو مسخ کیا۔