Jasarat News:
2025-11-03@04:22:05 GMT

پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید

اشاعت کی تاریخ: 2nd, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں توانائی کا بحران ہمیشہ ایک بنیادی چیلنج رہا ہے۔ صنعتی ترقی، زرعی پیداوار، نقل و حمل، حتیٰ کہ روزمرہ زندگی کے معمولات تک، توانائی کی دستیابی پر منحصر ہیں۔ اس پس منظر میں یہ خبر کہ پاکستان کو دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف ملکی معیشت کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ یہ پاکستان کے توانائی خود کفالت کے خواب کی نئی تعبیر بھی ہے۔ پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کا آغاز 1950ء کی دہائی میں ہوا، جب سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ابتدائی ذخائر دریافت ہوئے۔ بعد ازاں سوئی گیس فیلڈ نے ملک کی صنعتی اور گھریلو ضروریات کو طویل عرصے تک سہارا دیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب میں اضافہ اور نئے ذخائر کی تلاش میں کمی نے بحران کی شدت کو بڑھایا۔ درآمدی تیل پر انحصار نے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو متاثر کیا بلکہ مالیاتی خسارے کو بھی بڑھایا۔ گزشتہ بیس برسوں میں توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہائیڈرو، سولر اور وِنڈ انرجی پر توجہ ضرور دی گئی، لیکن تیل و گیس کی مقامی دریافت میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ 2025ء میں موصول ہونے والی حالیہ بولیوں کو ایک تاریخی پیش رفت کہا جا رہا ہے۔

وزارتِ توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے مطابق، پاکستان نے اٹھارہ سال کے طویل وقفے کے بعد رواں برس جنوری میں آف شور تیل و گیس کی تلاش کے لیے لائسنسز جاری کرنے کا عمل شروع کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستانی سمندری حدود میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے۔ اب اس عمل کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، جس میں 23 آف شور بلاکس کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ یہ بلاکس تقریباً 53,510 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر مشتمل ہیں جو توانائی کے نئے دور کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق، لائسنس کے پہلے فیز میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جو بعد ازاں ڈرلنگ کے مراحل میں بڑھ کر ایک ارب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ مقامی صنعتوں کے لیے بھی روزگار اور تکنیکی تربیت کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک توانائی کے بڑھتے ہوئے درامدی بل، ڈالر کے دباؤ، اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس تناظر میں اگر سمندری حدود میں موجود ذخائر کی دریافت کامیاب رہتی ہے تو پاکستان کے لیے توانائی کی خود کفالت کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس بڈنگ رائونڈ میں حصہ لینے والی کمپنیوں میں پاکستان کی معروف توانائی کمپنیاں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، اور پرائم انرجی نمایاں ہیں۔ ان کے ساتھ بین الاقوامی اور نجی شعبے کی کئی بڑی کمپنیاں بطور شراکت دار شامل ہیں، جن میں تکنیکی مہارت، جدید آلات، اور عالمی تجربہ موجود ہے۔ یہ شراکت داری دراصل ایک ایسے معاشی ماڈل کی علامت ہے جس میں مقامی و غیر ملکی سرمایہ کار باہمی تعاون سے وسائل کی تلاش، پیداوار اور تقسیم کے عمل کو مستحکم کر سکتے ہیں۔

حکومت وقت کے وژن کے مطابق، پاکستان کی انرجی سیکورٹی پالیسی کا بنیادی مقصد بیرونی انحصار میں کمی اور مقامی وسائل کے بھرپور استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ اس وژن کے تحت حکومت نے انڈس اور مکران بیسن میں بیک وقت ایکسپلوریشن کی حکمت ِ عملی اپنائی، جو عملی طور پر کامیاب ثابت ہوئی۔ یہ اقدام نہ صرف معاشی لحاظ سے اہم ہے بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ مکران کوسٹ اور انڈس بیسن دونوں خطے عالمی توانائی نقشے پر نمایاں جغرافیائی امکانات رکھتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے برازیل، میکسیکو، ناروے، اور سعودی عرب نے اپنی توانائی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سمندری ذخائر سے استفادہ کیا۔ اب پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہونے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اگر ان دریافتوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں تو پاکستان نہ صرف توانائی کے بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی برآمد کرنے والا ملک بننے کی جانب بھی پیش رفت کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ پیش رفت غیر معمولی ہے، تاہم اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہیں۔ سمندری ڈرلنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ ماحولیاتی خطرات، جیسے آئل اسپِل یا سمندری آلودگی، ایک سنجیدہ معاملہ ہیں۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے شفاف پالیسی فریم ورک ضروری ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود، اگر حکومت نے پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا، صوبائی حکومتوں کو شراکت دار کے طور پر شامل رکھا، اور شفافیت کو یقینی بنایا تو پاکستان کی توانائی تاریخ میں یہ باب ایک انقلاب کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

دو دہائیوں بعد پاکستان کے لیے یہ ایک بڑی خوشخبری ہے کہ بحرِ عرب کی لہروں میں چھپے توانائی کے خزانوں کی تلاش کا عمل عملی طور پر شروع ہو چکا ہے۔ کامیاب بولیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اگر یہ منصوبے اپنے متوقع نتائج دیتے ہیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی معیشت میں استحکام، زرمبادلہ کی بچت، صنعتی ترقی، اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’یہ صرف سمندر میں تیل و گیس کی تلاش نہیں، بلکہ پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کی نئی صبح کی نوید ہے‘‘۔

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تیل و گیس کی توانائی کے توانائی کی پاکستان کی پاکستان کے پیش رفت سکتا ہے کی تلاش کے لیے

پڑھیں:

چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی وفد نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقات کی تاکہ امریکی صنعت کے لیے محفوظ اور شفاف معدنی سپلائی چینز قائم کرنے کے امکانات پر بات کی جاسکے، کیونکہ واشنگٹن کی عالمی نایاب معدنیات پر چین کی بالادستی کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی وفد کی سربراہی رابرٹ لوئس اسٹریئر دوم کر رہے تھے، جو امریکی حکومت کے تعاون سے قائم کردہ کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کے صدر ہیں۔

سرکاری بیان کے مطابق ملاقات میں معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں تعاون کے امکانات، سپلائی چین کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور پاکستان کے کریٹیکل منرلز کے شعبے میں ذمہ دار اور پائیدار سرمایہ کاری کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے جب امریکا اور بھارت نے دفاعی تعاون کے لیے 10 سالہ فریم ورک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔

کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کی توجہ اسٹریٹجک خطرے پر مرکوز ہے، جو بیجنگ کے ان وسائل پر کنٹرول سے پیدا ہوا ہے، اسٹریئر نے سی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپنے واحد مضمون میں لکھا کہ ’چین کا کریٹیکل منرل سپلائی چینز پر غلبہ امریکی قومی سلامتی، اقتصادی مسابقت اور طویل المدتی اسٹریٹجک مقاصد کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے‘۔

اسٹریئر نے پاکستان کو بتایا کہ سی ایم ایف دنیا بھر، خصوصاً ابھرتی ہوئی منڈیوں میں امریکی صنعت کے لیے قابلِ اعتماد سپلائی چینز کے قیام پر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فورم کی توجہ نایاب اور مخصوص دھاتوں پر مرکوز ہے جن میں تانبا اور اینٹیمونی شامل ہیں اور اس کا مقصد مالی اور سلامتی کے نقطہ نظر سے سرمایہ کاری کے خطرات کو کم کرنا ہے۔

انہوں نے ٹیکنالوجی کی منتقلی، دانشورانہ املاک کے تحفظ اور امریکی نجی سرمایہ کاروں کے اعتماد کے فروغ کے لیے تعاون کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

بیان کے مطابق اسٹریئر نے اعتراف کیا کہ امریکا، پاکستان کے سائنس، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں موجود ٹیلنٹ کو ایک مسابقتی برتری سمجھتا ہے اور پاکستان کو مستقبل میں کریٹیکل منرلز کی ترقی کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

وفد کے ہمراہ موجودہ اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ پاکستان میں امریکی تجارتی مصروفیات کی حمایت کرتا ہے اور معدنیات کے شعبے میں مضبوط سرمایہ کار اعتماد اور مؤثر ریگولیٹری فریم ورک کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

جواب میں وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان اہم قانونی و ضابطہ جاتی اصلاحات پر کام کر رہا ہے اور منظم تجاویز کا خیرمقدم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ تعاون کے لیے ایک تفصیلی فریم ورک کے ساتھ واپس آئیں، پاکستان اسے ذمہ دار سرمایہ کاری اور باہمی مفاد کو یقینی بنانے کے تناظر میں جانچے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں توازن قائم کر رہا ہے اور اپنی مضبوط شراکت داریوں کو اجاگر کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آج عالمی تعلقات کے ایک تعمیری موڑ پر کھڑا ہے، پاکستان۔امریکا تعلقات میں نئی جان، چین کے ساتھ آزمودہ تعلقات اور سعودی عرب کے ساتھ تعاون اس کی مثال ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کا معدنی شعبہ ایک انقلابی موقع فراہم کرتا ہے، جو معیشت کو ’کھپت پر مبنی چکروں سے برآمدات پر مبنی ترقی‘ کی طرف منتقل کر سکتا ہے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ایک مضبوط معدنیات پالیسی فریم ورک پاکستان کو بار بار آنے والے مالیاتی خسارے کے دباؤ سے نکالنے اور مستقبل میں کثیرالجہتی اداروں پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا۔

وفاقی وزیر نے وفد کو بتایا کہ انہوں نے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران کئی عالمی مالیاتی اداروں، بشمول دیولپمنٹ فنانس کارپوریشن (ڈی ایف سی) اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) سے ملاقات کی، جنہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

امریکی فریق نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ چین عالمی کریٹیکل منرلز پر اپنا کنٹرول تیزی سے بڑھا رہا ہے۔

رابرٹ لوئس اسٹریئر نے کہا کہ چین کی بالادستی، خاص طور پر معدنیات کی پراسیسنگ میں سرکاری سبسڈی، عمودی انضمام اور کمزور ماحولیاتی ضوابط کی بدولت ہے، جو توانائی اور تعمیل پر مبنی شعبہ ہے، اس کے برعکس امریکا نے اس میدان میں کم سرمایہ کاری کی ہے۔

امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ کے مطابق، کریٹیکل منرلز جدید معیشت اور ریاستی طاقت کی بنیاد ہیں، توانائی، دفاع اور تجارتی ٹیکنالوجیز کے لیے ناگزیر ہیں، یہ مواد لڑاکا طیاروں کے لیے مقناطیسی پرزوں سے لے کر برقی گاڑیوں کی بیٹریوں تک استعمال ہوتے ہیں۔

کونسل نے خبردار کیا کہ ان سپلائی چینز میں ’نہایت نازکیت‘ پیدا ہو چکی ہے، جو چند ممالک تک محدود ہیں، زیادہ تر چین میں ریفائن ہوتی ہیں اور شدید موسمیاتی خطرات سے دوچار ہیں۔

مزید کہا گیا کہ چین نے اپنی بالادستی کو ’ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی آمادگی‘ دکھائی ہے، جیسا کہ اس نے امریکا کے تجارتی کنٹرول کے جواب میں گریفائٹ اور اینٹیمونی جیسے مواد پر برآمدی پابندیاں سخت کر دی ہیں۔

تاہم رابرٹ لوئس اسٹریئر نے تسلیم کیا کہ امریکی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پیداواری لاگت اور معدنی قیمتوں میں غیر معمولی و غیر یقینی صورتحال ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ غیر یقینی صورتحال ’منفعت کے خواہشمند سرمایہ کاروں کے لیے ایک سرد اثر ‘ رکھتی ہے، کیونکہ سرمایہ کار ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں جن میں خطرے کے مقابلے میں متوقع منافع زیادہ ہو۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ
  • چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • پاکستان کی 20 سال بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے حوالے سے بڑی کامیابی
  • پاکستان کو سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے کامیاب بولیاں موصول ،ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری متوقع
  • پاکستان میں 20 سال بعد سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش کیلئے کامیاب بولیاں
  • پاکستان میں 20 سال بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کیلئے کامیاب بولیاں منظور
  • پاکستان کو سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کیلئے کامیاب بولیاں موصول، ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری متوقع
  • پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کا نیا باب، 80 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع