UrduPoint:
2025-07-29@09:57:06 GMT

راکھ میں دبی امید کی کرن

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

راکھ میں دبی امید کی کرن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جون 2025ء) بھارت میں طیارے کے تباہ ہونے کی افسوس ناک خبر بجلی کی طرح پاکستان کے ہر نیوز چینل، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دوڑ گئی۔ لیکن اس المیے کی شدت صرف طیارے کے ملبے یا انسانی جانوں کے نقصان میں نہ تھی، اس کی سب سے گہری بازگشت ان پاکستانی دلوں میں تھی، جنہوں نے فوری طور پر دکھ، رنج، اور یکجہتی کے پیغامات کے ساتھ اس سانحے پر ردِعمل دیا۔

جمعرات کی دوپہر 1:38 منٹ پر ایئر انڈیا کا بوئنگ 787 طیارہ احمد آباد سے اُڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد ایک ہوسٹل کی چھت سے جا ٹکرایا اور تباہ ہو گیا۔ جہاز پر سوار 242 انسانی جانیں موقع پر ہی ضائع ہو گئیں، سوائے ایک ذی روح کے۔

سوشل میڈیا پر ہزاروں پاکستانی صارفین کی جانب سے کیے گئے دلی تبصروں کو دیکھ کر دل کو ایک عجیب سا اطمینان ہوا جیسے کسی بند کھڑکی کی درز سے روشنی کی ایک کرن اندر چمکی ہو۔

(جاری ہے)

مجھے اپنے ہم وطنوں کے احمد آباد سانحے پر دکھ بھرے پیغامات دیکھ کر تسلی ہوئی کہ دشمنی کے شور میں انسانیت کی آواز دب تو سکتی ہے، لیکن مٹ نہیں سکتی۔

یہ تبصرے کسی نے حکومتی ہدایت پر نہیں کیے، نہ ہی کسی مصلحت کا نتیجہ ہیں۔ یہ دل سے نکلے ہوئے وہ جذبات تھے جو ہر ذی شعور انسان کو ایک دوسرے کے دکھ میں شریک کرتے ہیں۔

کہنے کو سرحدیں موجود ہیں، کہنے کو سیاست اور تاریخ نے ہمیں ایک دوسرے سے کاٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن احمد آباد کے اس المناک حادثے نے ثابت کیا کہ دلوں کے دروازے بند ضرور ہوئے تھے، مقفل ہرگز نہیں تھے۔

ہر دروازے کے پیچھے ایک دستک سننے کی خواہش ابھی بھی باقی ہے کہ بٹوارے سے لے کر اب تک کئی گھرانے لکیر کے دونوں جانب بٹے ہوئے ہیں۔ ہر دل میں کہیں نہ کہیں انسانیت کی ایک دھڑکن ابھی زندہ ہے۔

آج اگر ہم اس دکھ کو بانٹ سکتے ہیں، تو کل امید بھی بانٹ سکتے ہیں۔ شاید یہی وہ لمحہ ہو جہاں سے ہم ایک نئے راستے کی طرف قدم بڑھائیں۔ ایک ایسا راستہ جہاں قومی تفاخر کی جگہ عالمی ہمدردی ہو، اور نفرت کی جگہ انسان دوستی۔

بھارت اور پاکستان کے مقتدرہ حلقوں کو اس موقع پر نفرت کے بجائے خیر سگالی اور ہمدردی کے جذبے کو فروغ دینا چاہیے تاکہ عوام کے دلوں میں بیٹھی کدورتیں بھی صاف ہوں۔

شاید یہ ایک دیوانے کا خواب ہی ہو، پر پھر بھی "دروازے بند تھے، ہاں، مگر مقفل نہیں تھے۔" اور جب دروازے کھلتے ہیں تو ہوائیں صرف دشمنی کی نہیں چلا کرتیں، کبھی کبھی محبت کی خوشبو بھی ساتھ لاتی ہیں۔

گزشتہ ماہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی جنگی کیفیت نے نہ صرف دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عسکری اداروں کو لرزا کر رکھ دیا، بلکہ عوام کے دلوں میں بھی ایک ایسی سرد مہری اور نفرت بھر دی جس کے اثرات برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ دشمنی کے اس موسم میں اگر کوئی شے سب سے زیادہ زہرآلود ہوئی، تو وہ انسانیت اور سچائی تھی اور سچ کو مسخ کرنے میں سب سے نمایاں کردار بھارتی میڈیا نے ادا کیا۔

ایک ایسے ولن کی مانند، جو خبر نہیں، صرف نفرت بیچتا ہے۔

لیکن اس نفرت کے شور میں بھی کچھ صدائیں ایسی تھیں جو محبت، ہوش مندی اور امن کی امید جگاتی رہیں۔ دونوں جانب کے امن اور خیر سگالی کے پرستاروں نے بنا کسی تعصب اور خوف کے جنگ کے خلاف اپنے خیالات کا پرچار کیا۔

نہ جانے ہم کب فیصلہ کرنے کے قابل ہوں گے کہ، ہم کون سی نسل کو جنم دینا چاہتے ہیں؟ وہ جو دشمنی میں پیدا ہو، یا وہ جو امن کی کوکھ سے جنم لے؟

شاید کچھ امن کے متوالے سوچ ہی رہے تھے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم لکیر کے دونوں جانب بیٹھ کر ایک دوسرے کو سنیں، سمجھیں، اور مانیں کیونکہ ہمیں یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ جنگ میں جیتنے والا کوئی نہیں ہوتا، صرف ہارنے والے بچتے ہیں۔

محبت ایک کمزور ہتھیار سہی، مگر وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہی واحد ہتھیار ہے جو وقت کو جیت سکتا ہے۔ ہمیں پھر سے اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ محبت مذہب سے بڑی، سرحد سے اونچی، اور سیاست سے بلند ہوتی ہے اور یہی ہمارا واحد نجات دہندہ ہے۔

اور پھر آج لکیر کر اس پار ہونے والا ایک ناگہانی انسانی المیہ صرف بھارت ہی نہیں پورے پاکستان کو بھی دکھی کر گیا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

بہادر مگر تنہا!

’’یہ تو بہادر ہے، سمجھ دار ہے، اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں‘‘

یہ جملہ بہ ظاہر تعریف لگتا ہے، لیکن دراصل یہ ایک تلخ حقیقت کی علامت ہے۔ ایک ایسی حقیقت، جو ہمارے معاشرے کی سوچ کو بے نقاب کرتی ہے، جہاں کسی عورت کا بہادر اور خودمختار ہونا اس کے لیے سزا بن جاتا ہے۔ اسے سراہنے کے بہ جائے اُسے سہارا دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے، جیسے بہادری کے ساتھ اس کا انسان ہونا ختم ہو جاتا ہو اور یہی بہادری کبھی کبھی ان کی موت کا پروانہ بن جاتی ہے۔

معاشرے کی وہ ’بہادر عورت‘ جو ہر دن ایک جنگ لڑتی ہے، کسی کی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی ہوتی ہے، مگر اس کی بہادری ہی اس کے لیے تنہائی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اسے تو کسی مدد کی ضرورت ہی نہیں۔ مگر کیا بہادری، درد کو مٹا دیتی ہے؟ کیا سمجھ داری، آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو روک لیتی ہے؟ کیا خودمختاری، دل کی تنہائی کو ختم کر دیتی ہے؟ نہیں! مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں یہ عورت صرف ایک ’کردار‘ بن جاتی ہے، جو ہر وقت مضبوط دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ کمزور ہونا اس کے کردار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

یہی بہادر عورت جب اندر سے ٹوٹنے لگتی ہے، تو کوئی اس کے اَشک نہیں دیکھتا، نہ ہی اس کی سسکیوں کو سنتا ہے۔ کیوں کہ وہ تو ’بہادر‘ ہے۔ وہ دن رات کام کرتی ہے، گھر بھی سنبھالتی ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت بھی، اور اگر نوکری کرتی ہے، تو سوسائٹی کی طنزیہ نظروں کا بھی سامنا کرتی ہے۔ اس کی ہر کام یابی پر سوال اٹھتا ہے ’اس نے کیا کیا ہوگا؟ اس کے پاس کس کا سہارا ہے؟ اس نے اتنی ترقی کیسے کر لی؟‘ مگر کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ وہ اپنی نیند، اپنی خوشیاں، اپنے خواب اور اپنا سکون قربان کر کے وہاں تک پہنچی ہے اور پھر ایک دن، وہ تھک جاتی ہے!

یہ تھکن صرف جسمانی نہیں ہوتی، یہ ذہنی، جذباتی اور روحانی تھکن ہوتی ہے۔ وہ تھکن جو اس کی ہڈیوں تک میں بس جاتی ہے، اس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے، مگر سامنے والوں کو شاید نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ وہ سب کے لیے ’مضبوط عورت‘ ہے، ’بہادر عورت‘ ہے، ’پراعتماد عورت‘ ہے۔

اس ’بہادر عورت‘ کی مثالیں ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ہیں، اور حالیہ دنوں میں ’سوشل میڈیا‘ پر جو خواتین کے خلاف دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے ہیں، وہ اسی تنہا بہادری کا نوحہ ہیں۔

گذشتہ دنوں کراچی میں ماڈل حمیرا اصغر کی موت ہوئی، وہ ایک خودمختارعورت تھیں۔ اپنے خواب پورے کرنے کے لیے نہ صرف تنہائی کو گلے لگایا، بلکہ گھروالوں کی طرف سے اپنے بائیکاٹ بھی برداشت کیا۔ اور یہ ہی اکیلا پن اور تنہائی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ وہ لڑکی جو سالوں سے تنِ تنہا زندگی کی تلخیوں کا سامنا کر رہی تھی، ایک دن خاموشی سے چلی گئی۔ نہ کوئی شور، نہ کوئی فریاد بس ایک اور خودمختار عورت، خاموشی سے معاشرتی بے حسی اور سرد مہری کا شکار ہو گئی۔

ایک اور واقعہ بلوچستان میں پیش آیا جہاں بانو بی بی غیرت کے نام پر مار دی گئی۔ غیرت، جس کا مفہوم ہمارے مردوں نے اپنی مرضی کے مطابق متعین کر لیا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے میں ہونے والا پہلا واقعہ نہیں اور بدقسمتی یہ ے کہ نہ ہی یہ آخری ہوگا۔

 ہم سب جانتے ہیں پاکستان میں ہر سال سینکڑوں لڑکیاں اس نام نہاد ’ناموسی قتل‘ کے بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ایک پرانی اور جاہلانہ روایت ہے، جو بدقسمتی سے آج بھی نہ صرف قبائل میں بلکہ پاکستان کے کئی علاقوں میں زندہ ہے۔ اس عمل کو مختلف ثقافتی و علاقائی نام دیے گئے ہیں۔ سندھ میں اسے ’کاروکاری‘، پنجاب میں ’کالا کالی‘، خیبر پختونخوا میں ’طور طورہ‘ اور بلوچستان میں ’سیاہ کاری‘ کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی عورت پر بے وفائی یا بدچلنی کا شبہ ہو، تو اسے اور اس کے ساتھ مبیّنہ طور پر ملوث مرد کو قتل کر دینا ’غیرت‘ کے نام پر جائز سمجھا جاتا ہے۔

یہ افسوس ناک روایت صرف شک یا الزام کی بنیاد پر انسانی جانیں لینے کا بہانہ بن چکی ہے۔ اکثر اوقات، یہ ’غیرت‘ محض ایک آڑ ہوتا ہے، جس کے پیچھے ذاتی دشمنیاں، جائیداد کے جھگڑے یا خاندان کی مرضی کے خلاف شادی جیسے عوامل چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ بہت سے واقعات میں دشمنی نبھانے کے لیے مخالف شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے، اور پھر الزام سے بچنے کے لیے خاندان کی کسی عورت کو، چاہے وہ معمر ہو یا کم عمر بچی ہو ، اُسے بھی قتل کر کے دونوں لاشوں کو ایک جگہ پھینک دیتے ہیں۔ ان مقتولین پر جو جی میں آتا ہے الزام لگا دیا جاتا ہیِ، خود ہی مدعیِ، خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بن جاتے ہیں۔

کہیں بیٹے کی پیدائش نہ ہونے پر بنت حوّا زندگی سے محروم کردی جاتی ہے، مگر معاشرہ خاموش بہادری کو نہیں سمجھتا۔ وہ عورت جو چیخ کر مدد مانگے، جو آنسو بہائے، جو کمزور دکھائی دے، اسے تو سب دلاسا دیتے ہیں، مگر جو اپنے آنسو چھپا لے، جو ہنستے چہرے کے پیچھے اپنے درد چھپائے، اس کے لیے سب سمجھتے ہیں کہ ’یہ تو سنبھال لے گی خود ہی!‘ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جب وہ عورت خود کو اندر سے کھو دیتی ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان ’خاموش بہادر عورتوں‘ کو پہچانیں، ان کا ہاتھ تھامیں، انھیں احساس دلائیں کہ وہ اکیلی نہیں ہیں۔ معاشرتی کرداروں سے ہٹ کر انھیں بھی جینے کا حق ہے۔ وہ بھی محبت، عزت، اور تحفظ کی مستحق ہیں۔ اب ہمیں خود سے بھی یہ سوال کرنا ہو گا کہ آخر کیوں ہر خودمختار عورت کو ’مشکوک‘ نظروں سے دیکھا جاتا ہے؟ کیوں کسی تنہا عورت کی کام یابی ہمیں تکلیف دیتی ہے؟ کیوں بہادری کو سزا دی جاتی ہے؟ کیوں عورت کی خودمختاری مردوں کے لیے ’خطرہ‘ بن جاتی ہے؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان سوالوں کے جواب تلاش کریں، اور معاشرتی سوچ کو بدلیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی بہادر عورتوں کا سہارا بنیں، ان کے ساتھ کھڑے ہوں، بغیر ان سے یہ کہے کہ ’تم تو سب کچھ خود کر لیتی ہو!‘

شاید انھیں بھی کسی مددگار کندھے کی ضرورت ہو، ایک ایسا کندھا جس پر وہ بھی کبھی سر رکھ کر تھوڑا سا سکون حاصل کر سکیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہر بہادر عورت تھک جائے گی، ٹوٹ جائے گی، اور ہم سب صرف ایک اور ’خبری شہ سرخی‘ پڑھ کر آگے بڑھ جائیں گے۔ یاد رکھیں ہر کام یاب اور بہادر عورت کے پیچھے ایک ادھوری کہانی ہوتی ہے، جسے وہ دنیا سے چھپاتی ہے۔ آئیے، ہم اس کہانی کو مکمل ہونے دیں، بغیر کسی المیے کے!

متعلقہ مضامین

  • ’’آپ کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘
  • بہادر مگر تنہا!
  • کچھ اور عامل کامل
  • جماعت اسلامی کا وطیرہ ہی الزام تراشی، نفرت، جھوٹ اور منافقت ہے، ترجمان سندھ حکومت
  • نفرت انگیز بیانیہ معاشرے کیلئے زہر قاتل ہے، راغب نعیمی
  • چین کمبوڈیا-تھائی لینڈ تنازعہ میں جنگ بندی کیلئے پرُ امید ہے، وزارت خارجہ
  • نفرت انگیز بیانات دینے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے: علامہ راغب نعیمی
  • نوازشریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر پاکستان کے مریضوں کیلئے امید کی کرن بنے گا: مریم نواز
  • نام ماں کا بھی
  • سندھ حکومت کی جدید سہولیات "کینسر مریضوں کیلئے امید کی کرن" قرار