اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جون 2025ء) بھارت میں طیارے کے تباہ ہونے کی افسوس ناک خبر بجلی کی طرح پاکستان کے ہر نیوز چینل، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دوڑ گئی۔ لیکن اس المیے کی شدت صرف طیارے کے ملبے یا انسانی جانوں کے نقصان میں نہ تھی، اس کی سب سے گہری بازگشت ان پاکستانی دلوں میں تھی، جنہوں نے فوری طور پر دکھ، رنج، اور یکجہتی کے پیغامات کے ساتھ اس سانحے پر ردِعمل دیا۔
جمعرات کی دوپہر 1:38 منٹ پر ایئر انڈیا کا بوئنگ 787 طیارہ احمد آباد سے اُڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد ایک ہوسٹل کی چھت سے جا ٹکرایا اور تباہ ہو گیا۔ جہاز پر سوار 242 انسانی جانیں موقع پر ہی ضائع ہو گئیں، سوائے ایک ذی روح کے۔
سوشل میڈیا پر ہزاروں پاکستانی صارفین کی جانب سے کیے گئے دلی تبصروں کو دیکھ کر دل کو ایک عجیب سا اطمینان ہوا جیسے کسی بند کھڑکی کی درز سے روشنی کی ایک کرن اندر چمکی ہو۔
(جاری ہے)
مجھے اپنے ہم وطنوں کے احمد آباد سانحے پر دکھ بھرے پیغامات دیکھ کر تسلی ہوئی کہ دشمنی کے شور میں انسانیت کی آواز دب تو سکتی ہے، لیکن مٹ نہیں سکتی۔یہ تبصرے کسی نے حکومتی ہدایت پر نہیں کیے، نہ ہی کسی مصلحت کا نتیجہ ہیں۔ یہ دل سے نکلے ہوئے وہ جذبات تھے جو ہر ذی شعور انسان کو ایک دوسرے کے دکھ میں شریک کرتے ہیں۔
کہنے کو سرحدیں موجود ہیں، کہنے کو سیاست اور تاریخ نے ہمیں ایک دوسرے سے کاٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن احمد آباد کے اس المناک حادثے نے ثابت کیا کہ دلوں کے دروازے بند ضرور ہوئے تھے، مقفل ہرگز نہیں تھے۔
ہر دروازے کے پیچھے ایک دستک سننے کی خواہش ابھی بھی باقی ہے کہ بٹوارے سے لے کر اب تک کئی گھرانے لکیر کے دونوں جانب بٹے ہوئے ہیں۔ ہر دل میں کہیں نہ کہیں انسانیت کی ایک دھڑکن ابھی زندہ ہے۔آج اگر ہم اس دکھ کو بانٹ سکتے ہیں، تو کل امید بھی بانٹ سکتے ہیں۔ شاید یہی وہ لمحہ ہو جہاں سے ہم ایک نئے راستے کی طرف قدم بڑھائیں۔ ایک ایسا راستہ جہاں قومی تفاخر کی جگہ عالمی ہمدردی ہو، اور نفرت کی جگہ انسان دوستی۔
بھارت اور پاکستان کے مقتدرہ حلقوں کو اس موقع پر نفرت کے بجائے خیر سگالی اور ہمدردی کے جذبے کو فروغ دینا چاہیے تاکہ عوام کے دلوں میں بیٹھی کدورتیں بھی صاف ہوں۔شاید یہ ایک دیوانے کا خواب ہی ہو، پر پھر بھی "دروازے بند تھے، ہاں، مگر مقفل نہیں تھے۔" اور جب دروازے کھلتے ہیں تو ہوائیں صرف دشمنی کی نہیں چلا کرتیں، کبھی کبھی محبت کی خوشبو بھی ساتھ لاتی ہیں۔
گزشتہ ماہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی جنگی کیفیت نے نہ صرف دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عسکری اداروں کو لرزا کر رکھ دیا، بلکہ عوام کے دلوں میں بھی ایک ایسی سرد مہری اور نفرت بھر دی جس کے اثرات برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ دشمنی کے اس موسم میں اگر کوئی شے سب سے زیادہ زہرآلود ہوئی، تو وہ انسانیت اور سچائی تھی اور سچ کو مسخ کرنے میں سب سے نمایاں کردار بھارتی میڈیا نے ادا کیا۔
ایک ایسے ولن کی مانند، جو خبر نہیں، صرف نفرت بیچتا ہے۔لیکن اس نفرت کے شور میں بھی کچھ صدائیں ایسی تھیں جو محبت، ہوش مندی اور امن کی امید جگاتی رہیں۔ دونوں جانب کے امن اور خیر سگالی کے پرستاروں نے بنا کسی تعصب اور خوف کے جنگ کے خلاف اپنے خیالات کا پرچار کیا۔
نہ جانے ہم کب فیصلہ کرنے کے قابل ہوں گے کہ، ہم کون سی نسل کو جنم دینا چاہتے ہیں؟ وہ جو دشمنی میں پیدا ہو، یا وہ جو امن کی کوکھ سے جنم لے؟
شاید کچھ امن کے متوالے سوچ ہی رہے تھے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم لکیر کے دونوں جانب بیٹھ کر ایک دوسرے کو سنیں، سمجھیں، اور مانیں کیونکہ ہمیں یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ جنگ میں جیتنے والا کوئی نہیں ہوتا، صرف ہارنے والے بچتے ہیں۔
محبت ایک کمزور ہتھیار سہی، مگر وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہی واحد ہتھیار ہے جو وقت کو جیت سکتا ہے۔ ہمیں پھر سے اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ محبت مذہب سے بڑی، سرحد سے اونچی، اور سیاست سے بلند ہوتی ہے اور یہی ہمارا واحد نجات دہندہ ہے۔
اور پھر آج لکیر کر اس پار ہونے والا ایک ناگہانی انسانی المیہ صرف بھارت ہی نہیں پورے پاکستان کو بھی دکھی کر گیا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق استنبول اجلاس کے دوران پاکستان جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد، مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بالخصوص غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، فلسطینی عوام کو بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت پر زور دے گا۔ پاکستان اس بات کو بھی دہرائے گا کہ تمام فریقوں کو مل کر ایک آزاد، قابلِ عمل اور جغرافیائی طور پر متصل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیزکرنی چاہئیں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال میں جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کا مرحلہ نہایت نازک اور پیچیدہ صورت اختیارکرچکا ہے۔ یہ معاہدہ جسے عالمی برادری نے ایک بڑی سفارتی پیش رفت قرار دیا تھا، عملاً ایک ایسی آزمائش بن گیا ہے جس پر فلسطین کے مستقبل، خطے کے استحکام اور عالمی طاقتوں کی نیتوں کا دار و مدار ہے۔
جنگ بندی بظاہر ایک سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے، مگر غزہ کے عوام کے لیے یہ اب تک مکمل راحت کا باعث نہیں بن سکی۔ ملبے میں دبے انسان، اجڑی بستیاں، برباد اسپتال اور امدادی قافلوں پر عائد پابندیاں اس حقیقت کا پتہ دیتی ہیں کہ امن کے وعدے اب بھی زمین پر اترنے سے قاصر ہیں۔ اس معاہدے کے تحت فریقین نے تین بنیادی مراحل میں امن کی جانب بڑھنے پر اتفاق کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں مکمل فائر بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی شامل تھی۔
دوسرے مرحلے میں اسرائیلی افواج کا تدریجی انخلا، شہریوں کی واپسی اور جنگ زدہ علاقوں کی بحالی طے پائی تھی۔ تیسرے مرحلے میں مستقل امن، تعمیر نو اور غزہ کے مستقبل کے سیاسی ڈھانچے پر اتفاق ہونا تھا۔ معاہدے کی ضمانت کے لیے قطر، مصر اور امریکا ثالث بنے اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں بین الاقوامی نگرانی کی جائے گی، لیکن زمینی حقائق نے جلد ہی ظاہر کر دیا کہ یہ معاہدہ صرف کاغذی نہیں بلکہ عملی لحاظ سے کئی رکاوٹوں میں گھرا ہوا ہے۔
معاہدے پر دستخط کے چندگھنٹوں بعد ہی فائر بندی کی خلاف ورزیاں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ اسرائیلی افواج نے کئی علاقوں میں چھاپے مارے، بمباری کی اطلاعات آئیں اور امدادی قافلوں کو روکا گیا۔ دوسری طرف حماس نے الزام لگایا کہ اسرائیل انسانی امداد کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ جواز پیش کیا گیا کہ وہ حماس کی فوجی سرگرمیوں کے مکمل خاتمے تک پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ یوں ایک بار پھر’’ سلامتی‘‘ اور ’’سیاست‘‘ کے درمیان وہی قدیم تضاد ابھرا جس نے ہمیشہ اس خطے کے امن کو برباد کیا ہے۔
شمالی غزہ کے ہزاروں مہاجرین اب بھی بے گھر ہیں۔ ان میں وہ خاندان شامل ہیں جو پچھلے برس کے فضائی حملوں میں اپنے گھروں سے محروم ہو گئے تھے۔ معاہدے کے تحت انھیں اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت ملنی تھی، مگر اسرائیلی فوج نے متعدد راستے بند کر رکھے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امدادی رسائی بحال نہ ہوئی تو انسانی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیل کا مؤقف یہ ہے کہ حماس کے عسکری ڈھانچے کی موجودگی واپسی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے سیکیورٹی کلیئرنس کے بغیر شہریوں کو داخل نہیں ہونے دیا جا سکتا۔
حماس نے ابتدائی طور پر قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے میں تعاون کیا۔ درجنوں اسرائیلی یرغمالی رہا ہوئے اور اس کے بدلے میں کئی فلسطینی قیدیوں کو آزادی ملی۔ مگر جب یہ عمل سست پڑا تو بداعتمادی نے جنم لیا۔ بین الاقوامی برادری، خصوصاً امریکا اور یورپی یونین، نے ابتدا میں اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ قطر اور مصر اب بھی ثالثی میں متحرک ہیں، مگر وہ بھی دونوں فریقوں کے دباؤ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندے نے حالیہ بیان میں کہا کہ ’’امن کی بنیاد اعتماد ہے، اور اعتماد اس وقت مفقود ہے۔‘‘ یہی وہ نکتہ ہے جو غزہ کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔
عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی ارادے کی کمی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے اندر مختلف دھڑے ہیں، ایک طرف وہ گروہ جو فوجی تسلط کو کم کرنے کے حق میں نہیں، اور دوسری جانب وہ عناصر جو عالمی دباؤ کے تحت کسی حد تک نرمی چاہتے ہیں۔ اسی طرح حماس کے اندر بھی یہ بحث جاری ہے کہ آیا جنگ بندی کو عارضی حکمت عملی سمجھا جائے یا ایک مستقل سیاسی پیش رفت کے طور پر قبول کیا جائے۔ ان باہمی تضادات نے فضا کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ وہاں کے بے قصور شہریوں پر مسلط جنگ نے صرف عمارتوں اور بستیوں کو نہیں بلکہ امید اور زندگی کے احساس کو بھی تباہ کر دیا ہے۔
ایسے حالات میں جنگ بندی معاہدہ امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس معاہدے پر حقیقی اور پائیدار عملدرآمد اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عالمی طاقتیں اور مسلم ممالک اپنا کردار سنجیدگی سے ادا نہیں کرتے۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جب بھی اس خطے میں کوئی جنگ بندی ہوئی، وہ زیادہ دیرپا ثابت نہ ہو سکی کیونکہ طاقتور فریقوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور عالمی برادری نے بھی محض بیانات پر اکتفا کیا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ اس غلطی کو دوبارہ نہ دہرایا جائے۔ عالمی طاقتیں، خصوصاً وہ ممالک جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں، ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس معاہدے کی نگرانی کریں اور کسی بھی خلاف ورزی پر فوری کارروائی یقینی بنائیں۔ اسی طرح مسلم دنیا کو محض بیانات اور قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا لازمی ہے۔ جب تک قابض افواج غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے نہیں جاتیں، وہاں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی نگران مشن تشکیل دینا ہوگا جو اس بات کی تصدیق کرے کہ انخلا حقیقی ہے، جزوی نہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ بعض اوقات اسرائیل محدود پیمانے پر انخلا کا اعلان کر کے بین الاقوامی دباؤ کم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ اس بار عالمی طاقتوں کو اس عمل کی مکمل نگرانی کرنا ہوگی اور مسلم ممالک کو سفارتی سطح پر اسرائیل پر مسلسل دباؤ برقرار رکھنا ہوگا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی تعمیر نو کے عمل کو بین الاقوامی ذمے داری کے طور پر قبول کیا جائے۔ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے تحت ایک مشترکہ ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے جو تعمیر نو کے منصوبوں کی نگرانی کرے، فنڈز کی شفاف تقسیم کو یقینی بنائے اور مقامی اداروں کے ساتھ مل کر غزہ کے عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ اس عمل میں شفافیت اور جوابدہی انتہائی ضروری ہے تاکہ امدادی رقم بدعنوانی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک اگر اپنے فنی ماہرین، انجینئرز اور طبی عملے کو غزہ بھیجیں تو اس سے عملی سطح پر بڑی مدد مل سکتی ہے۔
مسلم ممالک کے لیے اب یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ اگر وہ واقعی امتِ مسلمہ کے اجتماعی مفادات کے محافظ ہیں تو انھیں اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر فلسطینی مسئلے پر متحد ہونا ہوگا۔ اسلامی دنیا کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں، صرف سیاسی عزم کی کمی ہے۔ اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم کو مؤثر بنایا جائے، اگر مشترکہ اقتصادی، سفارتی اور انسانی لائحہ عمل اپنایا جائے تو نہ صرف غزہ بلکہ پورے فلسطین میں ایک نئی صبح طلوع ہو سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک، جنھوں نے ہمیشہ اصولی موقف اپنایا، ان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ قیادت کا کردار ادا کریں اور دنیا کو بتائیں کہ انصاف، امن اور انسانی اقدار کے لیے مسلم دنیا ایک ہے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غزہ کی جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتیں اگر واقعی امن چاہتی ہیں تو انھیں اپنی پالیسیوں میں توازن لانا ہوگا اور انسانی جانوں کی حرمت کو سیاست پر فوقیت دینی ہوگی۔ مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر امت کی اجتماعی بھلائی کو مقدم رکھیں۔ پاکستان نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے، اب دنیا کی باری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔ فلسطینی عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں، اب وقت ہے کہ ان کی جدوجہد کو منزل تک پہنچایا جائے۔ جنگ بندی کا معاہدہ اگر خلوص، سنجیدگی اور مشترکہ کوششوں سے نافذ کیا جائے تو یہ نہ صرف غزہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید کا پیغام بن سکتا ہے۔