ایران پر اسرائیلی حملے، بلوچستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
13 جون بروز جمعہ کی صبح ایران کے دارالحکومت تہران سمیت مختلف علاقوں پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں میں پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور ایرانی افواج کے مرکزی کمانڈر میجر جنرل غلام علی رشید سمیت متعدد اہم شخصیات شہید ہو گئیں۔ اطلاعات کے مطابق، کئی ایٹمی سائنسدان بھی ان حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اگرچہ یہ حملے ایران کے مرکزی علاقوں میں کیے گئے، تاہم بلوچستان پر اس کے گہرے سیکیورٹی اور سماجی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی اگر باقاعدہ جنگ میں بدلتی ہے تو بلوچستان اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ایران کے سرحدی صوبے سیستان اور بلوچستان کے درمیان گہری تجارتی، ثقافتی اور خاندانی وابستگیاں ہیں۔ جنگ کی صورت میں یہ تمام روابط متاثر ہوں گے اور لاکھوں افراد کا روزگار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ بلوچستان کے سرحدی اضلاع، خصوصاً تفتان، پنجگور، مند، چاغی اور گوادر ایسے علاقے ہیں جہاں ایران سے روزانہ کی بنیاد پر تجارت ہوتی ہے۔ اگر ایران میں بدامنی پھیلتی ہے تو یہ تجارتی سرگرمیاں رک سکتی ہیں، جس سے مقامی معیشت کو شدید دھچکا لگے گا۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل کا تبریز پر ایک اور حملہ ، ایران میں ملک گیر ہائی الرٹ جاری، عالمی برادری کا اظہار تشویش
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق اگر ایران میں جنگ چھڑتی ہے تو اس ایران کے اندر شورش میں شدت آ سکتی ہے۔ ایران کے صوبے سیستان میں بھی سیاسی عدم استحکام موجود ہے، اور دونوں جانب بدامنی خطے میں مزید انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے تو ایران سے افغانستان کی طرز پر بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد کا امکان کم ہے کیونکہ اسرائیلی حملے غالباً ایران کے مرکزی علاقوں تک محدود رہیں گے، اور بلوچستان سے متصل سرحدی پٹی کم متاثر ہوگی۔ اگر کچھ لوگ ہجرت کرتے بھی ہیں تو ان کا قیام مکران ڈویژن تک محدود رہنے کا امکان ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق صدر ایوان صنعت و تجارت فدا حسین نے بتایا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سالانہ 3 سے 4 ارب روپے کی دو طرفہ تجارت ہوتی ہے۔ اس تجارت میں ایران سے بڑے پیمانے پر خشک میوہ جات، تعمیراتی اشیاء، کاسمیٹکس، اشیائے خورو نوش، بیکری آئٹمز سمیت متعدد اشیائے ضروریہ شامل ہیں جبکہ پاکستان سے چاول، گندم سمیت مختلف اناج کی اقسام اور اشیاء ایران بھجوائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر بھی روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کی غیر رسمی تجارت ہوتی ہے جس سے دونوں اطراف میں بڑے پیمانے پر لوگ منسلک ہیں۔ تاہم اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کا دو طرفہ تجارت پہ شدید منفی اثر ہوگا کیونکہ جنگ کے حالات میں تجارت کا سلسلہ بند ہونے کا امکان ہوگا اور سرحد بند ہونے سے تجارت ٹھپ ہو جائے گی جس سے پاکستان کو معاشی دھچکا لگ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے وزیراعظم شہباز شریف کی ایران میں موجود پاکستانی زائرین کی باحفاظت واپسی کے لیے ہنگامی اقدامات کی ہدایت
ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ جنوبی ایشیا کے لیے بھی شدید خطرات لا سکتی ہے۔ بلوچستان، جو جغرافیائی، تجارتی اور ثقافتی لحاظ سے ایران کے قریب ترین ہے، اس ممکنہ جنگ کا سب سے پہلا متاثرہ پاکستانی علاقہ ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں حکومت پاکستان کو بلوچستان کی سرحدی سلامتی، تجارت اور عوامی تحفظ کے لیے پیشگی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران اسرائیل جنگ بلوچستان پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران اسرائیل جنگ بلوچستان پاکستان ایران اور اسرائیل کے درمیان ایران میں اگر ایران ایران کے کے لیے
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی حملے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں، افغانستان
ایران پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے، جن میں ایرانی فوجی کمانڈرز اور جوہری سائنس دانوں کو نشانہ بنایا گیا، افغانستان میں سخت ردِعمل کا باعث بنے ہیں۔ ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے افغانستان کی عبوری حکومت اور سابق اعلیٰ سیاسی شخصیات نے شدید مذمت کی ہے۔
عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس کارروائی کو ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ ایسے اقدامات خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل کا تبریز پر ایک اور حملہ ، ایران میں ملک گیر ہائی الرٹ جاری، عالمی برادری کا اظہار تشویش
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایران کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ’ناقابلِ معافی جارحیت‘ قرار دیا۔ انہوں نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا
’ اسرائیل کے یہ حملے نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ ہم ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور سفارتی ذرائع سے مسائل کے حل پر زور دیتے ہیں۔‘
سابق حکومت کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی اس اقدام کو ’غیر قانونی‘ اور ’دشمنانہ‘ قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر اس کی مذمت کی اور ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
افغانستان کا مؤقفعبوری حکومت افغانستان تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور مفادات کی بنیاد پر پرامن تعلقات کی حامی ہے۔ ایران پر اسرائیل کے یہ حملے خطے میں عدم استحکام کا باعث قرار دیے گئے ہیں، اور افغانستان نے بین الاقوامی اصولوں کے احترام اور تنازعات کے پرامن حل پر زور دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے تہران پر اسرائیلی حملوں میں 78 افراد کے شہید، 329 زخمی ہوئے، ایرانی میڈیا
افغانستان پر ممکنہ اثراتایران اور اسرائیل کے درمیان اس کشیدگی کے افغانستان پر براہِ راست اور بالواسطہ اثرات پڑ سکتے ہیں:
ایران و افغانستان کے مابین پانی کے تنازع، اقتصادی روابط اور پناہ گزینوں کے مسئلے جیسے معاملات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں، کیونکہ ایران ممکنہ طور پر افغانستان کے خلاف دباؤ بڑھانے کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔ خطے میں عدمِ استحکام دہشتگردی اور مسلح گروپوں کی سرگرمیوں میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے، جو افغانستان کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی سیکیورٹی چیلنجز اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ چابهار بندرگاہ کے ذریعے افغان تجارت، جو کہ افغانستان کے لیے انتہائی اہم ہے، اس کشیدگی سے متاثر ہو سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق، خطے کی یہ صورتِ حال افغانستان کے لیے توازن پر مبنی اسٹریٹجک تعلقات کو برقرار رکھنے کی ضرورت کو مزید اجاگر کرتی ہے، تاکہ ملک عالمی اور علاقائی کشمکش سے محفوظ رہ سکے۔ امن اور سفارتکاری کے ذریعے مسائل کا حل ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل کا ایران پر حملہ ایران ذبیح اللہ مجاہد