تہران (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13جون 2025) ایران کی جوابی کاروائی، آپریشن کا نام "وعدہ صادق 3" رکھ دیا۔ تفصیلات کے مطابق پاسداران انقلاب ایران کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سپریم لیڈر کے حکم پر اسرائیل کیخلاف جوابی کاروائی کا آغاز کر دیا۔ اسرائیل کیخلاف شروع کیے گئے آپریشن کا نام "وعدہ صادق 3" رکھا گیا ہے۔ جبکہ اسرائیل پر جوابی حملوں کے آغاز کے بعد ایران کے سپریم لیڈر کا اہم بیان بھی سامنے آیا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ "صہیونی ریاست کو اپنے جرائم کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ صیہونی حکومت نے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس کے نتائج بہت ہی برے ہوں گے، ایرانی قوم قیمتی شہدا کا خون رائیگاں نہیں جانے دے گی۔ ہماری مسلح افواج تیار ہیں، ملک کے حکام اور عوام کے تمام ارکان مسلح افواج کے پیچھے ہیں، آج ہر کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ ہمیں صہیونی دہشتگردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنی چاہیے، ہمیں طاقت سے کام کرنا چاہیے، اور ہم طاقت سے جواب دیں گے، ہم ان کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)

اسرائیلیوں پر زندگی بلاشبہ تلخ ہو جائے گی، یہ مت سوچیں کہ انہوں نے یہ کیا اور بس، نہیں یہ جنگ انہوں نے شروع کی، اب ان کو بھاگنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہماری مسلح افواج اس دشمن پر سخت ضربیں لگائے گی۔ ایران کی مسلح افواج اللہ کے حکم سے صیہونی حکومت کو شکست دے گی، قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوگی"۔ دوسری جانب ایرانی میڈیا کے مطابق ایران نے اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے بعد جوابی کاروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

ریڈیو ایران کے مطابق دشمن کو کچلنے کا عمل شروع ہو گیا، ایران نے اسرائیل پر 100 بیلسٹک میزائل داغ دیے ہیں۔ ایرانی میڈیا کی جانب سے دعوٰی کیا جا رہا ہے کہ ایران کی جانب سے داغے گئے بیلسٹک میزائل اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں جا گرے ہیں۔ ایرانی میڈیا کی جانب سے 2 اسرائیلی جنگی طیاروں کو مار گرانے اور ایک خاتون اسرائیلی پائلٹ کو گرفتار کرنے کا دعوٰی بھی کیا جا رہا ہے۔

جبکہ ایران کی جوابی کاروائی کے آغاز کے بعد اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں سائرن بج اٹھے، اسرائیلی شہریوں کو بنکرز میں منتقل ہونے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ اسرائیلی میڈیا نے ایرانی میزائلوں سے تل ابیب میں تباہی مچنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایرانی میزائل حملوں سے اسرائیلی وزارت دفاع کی عمارت نشانہ بن گئی ، وزارت دفاع کی عمارت کے قریب آگ لگ گئی ہے، جبکہ کئی اسرائیلی فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوابی کاروائی مسلح افواج کی جانب سے ایران کی

پڑھیں:

اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات

اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان

امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے  چکائی جاتی ہے۔

امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے  واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ  ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل  کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • ہم ہر قسم کے جواب کے لیے تیار ہیں، ایرانی مسلح افواج کی دشمن کو وارننگ
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • وزیر تجارت سے ایرانی سفیر کی ملاقات: اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان