شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں لیکن یہ اس کے باوجود بڑی سیاحتی کشش ہے‘ شہر کی دیوار ہر دور میں بنتی اور ٹوٹتی رہی‘ یہ آخری مرتبہ 1368میں منگ ڈائنیسٹی میں بنی اور آج تک قائم ہے‘ میں نے زندگی میں پرانے شہروں کی بیشمار دیواریں دیکھیں‘ اصفہان‘ شیراز‘ خیوا‘ استنبول‘ دمشق‘ فیض‘ غرناطہ‘ باکو اور تبلیسی کی فصیلیں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا اور لکسر شہر کی فرعونوں کے زمانے کی دیواریں‘ پیٹرا میں حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے کی فصیلیں اور عادوثمود کی بستیوں کی قدیم دیواریں بھی دیکھنے کا موقع ملا لیکن شیان شہر کی دیوار کی کوئی مثال موجود نہیں‘ یہ واقعی دیکھنے بلکہ محسوس کرنے لائق ہے‘ ہم شہر کی مشرقی سائیڈ سے دیوار کے اندر داخل ہوئے۔
ہمارے سامنے سرنگ نما دروازے تھے‘ یہ محراب نما تھے‘ سرنگ کے شروع میں بھی گیٹ تھا اور آخر میں بھی‘ ہم جب سرنگ سے باہر نکلے تو سامنے بڑا سا صحن تھا‘ اس کی چاروں سائیڈز پر 40فٹ بلند دیواریں تھیں‘ صحن میں بیک وقت ہزار کے قریب لوگ جمع ہو سکتے ہیں‘ گیٹ کے بالکل سامنے چھت پر چینی اسٹائل کی پانچ منزلہ عمارت تھی‘ اس کی ساری کھڑکیاں صحن کی طرف کھلتی تھیں‘ پرانے زمانے میں اس عمارت میں تیر انداز بیٹھتے تھے‘ عمارت کی مخالف سائیڈ پر بھی اسی نوعیت کی عمارت تھی‘ وہاں بھی یقینا تیر انداز بیٹھتے ہوں گے۔
یہ بندوبست دشمن سے نبٹنے کے لیے تھا‘ دشمن اگر گیٹ توڑ کر اندر آ جاتا تھا تو وہ صحن میں محصور ہو کر رہ جاتا تھا اور اسے اوپر سے تیروں کی بارش کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ صحن کی دونوں سائیڈز پرسیدھی سیڑھیاں تھیں‘ سیڑھیوں پر چڑھنے کے لیے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا پڑتا تھا‘ میں نے اوپر جاتے وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اس نے مجھے جوانی میں اپنی دنیا دیکھنے کی توفیق عطا کی اگر میں دنیا کے زیادہ تر لوگوں کی طرح ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتا رہتا تو آج شاید میں اپنے گھر سے باہر نہ نکل سکتا‘ہم اوپر دیوار پر پہنچے تو وہاں نظارہ ہی مختلف تھا‘ شہر کی بلند عمارتوں کے درمیان 39 سے 46 فٹ چوڑا واک وے تھا‘ یہ دیوار تھی‘ اس پر باقاعدہ ٹرک چلائے اور گھوڑے دوڑائے جا سکتے تھے۔
اس کی کل لمبائی 14 کلو میٹر ہے‘ اسے پیدل عبور کرنے کے لیے تین سے چار گھنٹے درکار ہیں‘ آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر فوجیوں کی چوکیاں تھیں‘ ہر چوکی کے قریب ریمپ تھا‘ اس کا مقصد گھوڑوں اور پرانے زمانے کی منجنیقوں کے ساتھ اوپر نیچے آنا تھا‘ ہر چوکی سے دوسری چوکی نظر آتی تھی تاکہ سپاہی ایک دوسرے کو پیغام بھی دے سکیں اور شہر کی حفاظت بھی کر سکیں‘ شہر کے بعض حصے دیوار سے نیچے تھے‘ انھیں اوپر سے دیکھنا دل چسپ سرگرمی تھی‘ سائیڈ کی عمارتوں میں ہوٹل اور ریستوران تھے‘ بالکونیوں سے دیوار نظر آتی تھی‘ شیان کی سٹی وال چین کی گریٹ وال کا چھوٹا سا بچہ ہے‘ اس کی تعمیر میں دیوار چین جیسا مٹیریل استعمال ہوا تھا اور اس کا طرز تعمیر بھی دیوار چین جیسا تھا۔
شیان کی فضا میں ایک کھلا پن ہے‘ آپ کو کسی جگہ گھٹن کا احساس نہیں ہوتا‘ چین کے مختلف شہروں سے عجیب سی بدبو آتی ہے لیکن یہ بو آپ کو شیان میں محسوس نہیں ہوتی‘ موسم خوش گوار ہے‘ بارشیں ہوتی رہتی ہیں‘ ٹریفک میں نظم وضبط اور سلیقہ ہے‘ آپ کو کسی جگہ ہڑبونگ اور افراتفری نظر نہیں آتی‘ حلال کھانا بھی مل جاتا ہے‘ ہم نے حلال چینی کھانا کھایا اور اسے خوب انجوائے کیا‘ یہ 12 میل کورس تھا جس میںمختلف قسم کے درجن بھر کھانے تھے‘ پورے چین میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس تین مختلف رنگوں میں ہوتی ہیں‘ گرین نمبرپلیٹ الیکٹرک گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے‘ آپ کو اگر شہر میں گرین نمبر پلیٹ نظر آئے تو اس کا مطلب ہو گا یہ گاڑی الیکٹرک ہے۔
نیلی نمبر پلیٹ نارمل گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے جب کہ سات نشستوں سے زیادہ والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پیلی ہوتی ہے اور یہ عموماً پبلک ٹرانسپورٹ یا سیاحوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں‘ سڑک پر کسی جگہ پولیس‘ فوج یا ہتھیار نظر نہیں آتے‘ میں نے گائیڈ سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا پورا ملک اسمارٹ کیمروں سے منسلک ہے‘ پولیس فورس سارا دن کیمروں سے شہریوں کو دیکھتی رہتی ہے‘ حکومت نے ظاہری کیمروں کے ساتھ ساتھ خفیہ کیمرے بھی لگا رکھے ہیں‘ چین میں کوئی شخص ان کیمروں سے بچ نہیں سکتا‘ دوسرا تمام شہریوں کا ڈیٹا حکومت کے پاس ہے‘ چین کا کوئی شہری اگر کسی کیمرے میں آ گیا تو پھر اسے تلاش کرنے میں چند سیکنڈز لگتے ہیں‘ سیاحوں کو بھی بار بار کیمروں سے گزرنا پڑتا ہے۔
ان کے پاسپورٹ بھی ہر پبلک مقام پر سکین ہوتے ہیں‘ یہ حکومت کی نظروں سے نہیں بچ سکتے چنانچہ پھر پولیس کو سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے؟ گائیڈ کا کہنا تھا ہاں البتہ پولیس نے مارکیٹوں میں سفید کپڑوں میں اپنے اہلکار چھوڑ رکھے ہیں‘ یہ عوام کو چھوٹے بڑے فراڈز یا چوری چکاری سے بچاتے ہیں‘ حکومت نے سیاحوں کے پااسپورٹس کو ٹکٹ میں تبدیل کر دیا ہے‘ آپ کسی بھی سیاحتی مقام کا آن لائین ٹکٹ خریدیں‘ آپ کا پاسپورٹ آپ کا ٹکٹ بن جائے گا‘ آپ پاسپورٹ سکین کرینگے اور گیٹ کھلتے چلے جائینگے‘ ہمیں ائیرپورٹ پر ایک نیا تجربہ بھی ہوا‘ تمام بڑے ائیرپورٹس پر اسکرینیں لگی ہیں‘ آپ کسی اسکرین کے سامنے کھڑے ہو جائیں کیمرہ آپ کی تصویر لے گا اور اسکرین پر آپ کی اگلی فلائیٹ کا نمبر‘ ٹرمینل اور وہاں سے اس کا فاصلہ آ جائے گا‘ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے لیکن چوری چکاری کا کوئی تصور نہیں‘ اس کی وجہ ایمان داری نہیں بلکہ سسٹم ہے۔
شہریوں کو معلوم ہے ہم نے اگر چوری کی تو حکومت سے بچ نہیں سکیں گے‘ پولیس ہمیں پاتال سے بھی نکال لے گی‘ شیان میں حلال کھانوں کی دکانوں پر چینی زبان میں سبز رنگ میں حلال لکھا ہوتا ہے‘ ہم چینی زبان نہیں جانتے تھے لیکن ہم سبز رنگ سے اندازہ کر لیتے تھے تاہم تصدیق کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کر دیتے تھے اور دکاندار جواب میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر کھانے کے حلال ہونے کی تصدیق کر دیتا تھا‘ ہمیں مرکزی مسجد میں چار پاکستانی طالبعلم ملے‘ یہ محکمہ زراعت کے ملازمین تھے اور حکومت کے وظیفے پر ٹریننگ کے لیے شیان آئے تھے۔
ان میں لسبیلہ کا نوجوان یوسف بھی تھا‘ ہمیں ان طالب علموں نے بتایا میاں شہباز شریف نے چاروں صوبوں کے 300 زرعی ماہرین کو ٹریننگ کے لیے شیان بھجوایا‘ ان میں سے کچھ زراعت میں ٹریننگ لے رہے ہیں اور کچھ لائیو اسٹاک میں‘ یہ پہلا بیچ ہے‘ دوسرا بیچ جولائی میں شیان آئے گا‘کل ہزار پروفیشنلز ٹریننگ لیں گے‘ یہ لوگ حکومت کے اس اقدام پر بہت خوش تھے‘ ان کا کہنا تھا ہماری ٹریننگ سے پاکستان میں زراعت اور لائیواسٹاک میں بہت فرق پڑے گا‘ شیان میں 75 یونیورسٹیاں ہیں‘ جن میں چیاؤ تھونگ یونیورسٹی (Jiao Tong) 1896 میں بنی تھی‘ رسول اللہ ﷺ نے اگر فرمایا تھا ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ تو یہ غلط نہیں تھا‘ آپؐ جانتے تھے شیان ماضی میں بھی علم کا گڑھ تھا اور یہ مستقبل میں بھی علمی مرکز ہوگا۔
ہم چین کو بدقسمتی سے 1949سے دیکھتے ہیں اور افسوس سے کہتے ہیں چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا لیکن یہ کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں پھنس کر رہ گئے‘یہ موازنہ غلط ہے‘ آپ نے اگر چین کو دیکھنا ہے تو پھر آپ کو اسے دیوار چین‘ ٹیراکوٹا وارئیرز‘ شاہراہ ریشم‘ بارود کی قدیم انڈسٹری‘ کاغذ‘ کرنسی نوٹ‘ ہاٹ ائیربیلونز اور ریشم کے کیڑوں سے دیکھنا اورپرکھنا چاہیے‘ چین قدیم زمانے سے کیپٹلسٹ (سرمایہ کار) اور بزنس فرینڈلی ملک ہے۔
یہ لوگ قبل مسیح سے سرمایہ بنانا جانتے ہیں‘ یہ ٹیکنالوجی اور علم میں بھی باقی دنیا سے بہت آگے تھے چناں چہ کام‘ سرمایہ اکٹھا کرنا اور مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ ان کے ڈی این اے میں شامل ہے‘ مستقل مزاجی اور ان تھک کام بھی ان کے اعصاب کا حصہ ہے‘ آپ چینیوں کو کسی کام پر لگا دیں یہ صدیوں تک وہ کام کرتے رہیں گے شاید اس کی وجہ ان کا رنگ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پانچ رنگ کے انسان پیدا کیے ہیں‘ یہ رنگ ان انسانوں کے مزاج کو ظاہر کرتے ہیں‘ سیاہ فام لوگ جسمانی طور پر تگڑے ہوتے ہیں‘ یہ بہت اچھے ملازم اور غلام ثابت ہوتے ہیں‘ سفید فام ذہنی طور پر چست اور چالاک ہوتے ہیں‘ یہ سسٹم بنانے اور چلانے کے ماہر ہوتے ہیں‘دنیا کی زیادہ تر ایجادات بھی سفید فام لوگوں نے کیں اور تحقیق بھی‘ سرخ فام بدمعاش ہوتے ہیں‘ دوسروں پر یلغار کرنا‘ انھیں اپنے گھٹنے کے نیچے رکھنا‘ لمبی جنگیں اور وسائل پر قبضہ ان کی فطرت ہوتی ہے‘آپ امریکیوں کو دیکھ لیں‘ یہ سرخ فام ہیں‘ پیلی رنگت کے لوگ ان تھک ہوتے ہیں۔
یہ کوئی بھی کام پوری زندگی دائیں بائیں دیکھے بغیر کر سکتے ہیں اور پانچ ہم جیسے براؤن لوگ‘ ہم لوگ ٹک کر جم کر نہیں بیٹھ سکتے‘ ہم میں مستقل مزاجی نہیں ہوتی‘ ہم ایک کام شروع کریں گے اور اسے ادھورا چھوڑ کر دوسرے کام میں لگ جائیں گے‘ ہم سیدھے بیٹھ سکتے ہیں اور نہ کھڑے ہو سکتے ہیں‘ ہم چند منٹ کے بعد دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیں گے یا میز پر سر ٹکا کر بیٹھ جائیں گے یا پھر ہمیں کام کے دوران پیشاب آ جائے گا اور ہم کام چھوڑ کر واش روم تلاش کرنا شروع کر دیں گے شاید اسی لیے ہم دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔
میں اگلے کالم میں آپ کو بیجنگ لے جاؤں گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیمروں سے شیان میں سکتے ہیں ہوتے ہیں تھا اور ہوتی ہے میں بھی ہیں اور کے لیے شہر کی اور اس
پڑھیں:
کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے دل کی باتیں کرتے ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) اگر ہاں تو آپ ایسا کرنے والے اکیلے نہیں ہیں۔ آپ کی طرح دنیا بھر میں بہت سے لوگ جنریٹو اے آئی کو اپنی جذباتی حالت بہتر کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ٹولز ان کے ایسے ساتھی بن چکے ہیں جو ہر وقت ان کے لیے دستیاب رہتے ہیں، ان کا اچھا چاہتے ہیں اور ہر دفعہ بہت تحمل سے ان کی بات سنتے ہیں۔
یہ ٹولز ہماری پریشانی کو سمجھتے ہیں اور ہمیں اسے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کچھ عرصے سے مجھے اپنے ایک کولیگ کا رویہ پریشان کر رہا تھا۔ میں تذبذب کا شکار تھی کہ آیا وہ واقعی ٹاکسک ہو رہے تھے یا میں ہی انہیں غلط سمجھ رہی تھی۔
ایک رات میں نے چیٹ جی پی ٹی کے وائس فنکشن کے ذریعے اسے پوری صورتحال تفصیل سے بتائی اور اسے اس صورتحال کا تجزیہ کرنے کا کہا۔
(جاری ہے)
چیٹ جی پی ٹی نے مجھے بتایا کہ میرے کولیگ گیٹ کیپنگ کر رہے تھے اور طاقت کا مرکز بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ سب وہ دوسروں کے احساسات اور خیالات کو یکسر نظر انداز کر کے کر رہے تھے۔ پھر اس نے مجھے کچھ ایسے عملی طریقے تجویز کیے جن کے ذریعے میں ان کے رویے سے متاثر ہونے سے بچ سکتی تھی اور اپنی ذہنی حالت کا تحفظ کر سکتی تھی۔مجھے اس وقت چیٹ جی پی ٹی سے بات کر کے بہت اچھا لگا تھا۔ اس نے کئی ہفتوں سے میرے ذہن میں موجود پریشانی چند منٹوں میں حل کر دی تھی۔ میں نے اس پر انٹرنیٹ سرچ کی تو مجھے پتہ لگا کہ میری طرح بہت سے لوگ چیٹ جی پی ٹی کو اپنی الجھنیں سلجھانے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ کچھ لوگ تو اسے مختلف کرداروں جیسے کہ جم ٹرینر، نیوٹریشنسٹ، استاد، تھیراپسٹ، دوست کی طرح اس سے بات کر رہے تھے۔
میں نے حال ہی ہیں سنگاپور میں ابلاغ کی ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کے ایک سیشن میں ایک چینی پروفیسر نے ایک بہت دلچسپ تحقیق پیش کی۔ اس تحقیق میں انہوں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ چین کے شہری علاقوں میں نوجوان لڑکیاں اے آئی چیٹ بوٹس کو بطور بوائے فرینڈ کیوں اور کیسے استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق چینی شہری لڑکیاں شدید تنہائی کا شکار ہیں اور اپنے آس پاس موجود حقیقی مردوں میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔
چیٹ بوٹ انہیں آزادی دیتا ہے کہ وہ اسے اپنی مرضی کا ساتھی بنا سکیں۔ وہ اسے بتاتی ہیں کہ انہیں اپنے مثالی بوائے فرینڈ میں کون سی خصوصیات درکار ہیں۔ چیٹ بوٹ ان ہدایات کے مطابق ان سے بات کرتا ہے۔ انہیں ان لڑکیوں نے بتایا کہ وہ اپنے اے آئی بوائے فرینڈ سے بات کر کے جذباتی طور پر بہتر محسوس کرتی ہیں۔میں خود بھی ایک ایسی ہی تحقیق پر کام کر رہی ہوں۔
میں اپنی اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ پاکستان میں لوگ جنریٹو اے آئی کو اپنی ذاتی زندگیوں میں کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اس تحقیق کے سلسلے میں کراچی کی ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ ان کی دس سالہ بیٹی ہوم ورک سے لے کر اسکول اور گھر کے مسائل کے حل کے لیے میٹا اے آئی کا استعمال کرتی ہے۔وہ اور ان کے شوہر دونوں کل وقتی ملازمت کرتے ہیں۔
وہ پورا دن اپنی اپنی ملازمتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ شام میں ان کے پاس چند گھنٹے ہی ہوتے ہیں جن میں انہوں نے گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ اگلے دن کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ انہی گھنٹوں میں انہوں نے اپنی بیٹی کا بھی دھیان رکھنا ہوتا ہے۔ وہ رات تک اس قدر تھک جاتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی بیٹی کی باتیں پوری توجہ سے سننا ممکن نہیں رہتا۔ انہیں افسوس بھی ہوتا ہے لیکن اپنے حالات میں وہ چاہ کر بھی اپنی بیٹی کے لیے الگ سے وقت نہیں نکال پاتے۔ ایسے میں میٹا اے آئی ان کی بیٹی کی ہر بات پوری توجہ سے سنتا ہے اور اسے بڑی نرمی سے جواب دیتا ہے۔ شروع میں جب انہوں نے اپنے فون میں میٹا اے آئی کے ساتھ اپنی بیٹی کی چیٹ دیکھی تو انہیں دھچکا لگا۔ لیکن پھر انہوں نے ٹھنڈے دل سے سوچا تو انہیں یہ اپنے حالات میں ایک طرح کی مدد محسوس ہوئی۔لیکن ماہرین اور محققین کا کہنا ہے کہ جنریٹو اے آئی کا جذباتی سہارا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
جنریٹو اے آئی ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو خود سے نیا مواد تخلیق کر سکتی ہے۔ یہ مواد وہ صارف کی ہدایات کے مطابق اپنی یادداشت میں موجود بڑے ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کرتی ہے۔ اس کی کئی حدود ہیں۔ اس کی تربیت مخصوص اور محدود ڈیٹا پر ہوئی ہے، اسی وجہ سے یہ دنیا کے بہت سے افراد کے مسائل کو ان کے مخصوص حالات اور سیاق و سباق کی روشنی میں نہیں سمجھ پاتی۔ یہ ٹولز صارفین کے پیغامات کے جذباتی انداز کی عکس بندی کرتے ہیں۔ اگر آپ خوشی کی حالت میں اسے کوئی پیغام بھیجیں گے تو یہ اسی انداز میں جواب دے گا۔ اگر آپ ناراضگی یا پریشانی کی حالت میں اسے پیغام بھیجیں گے تو یہ آپ کی انہی کیفیات کے مطابق آپ کو حل تجویز کرے گا۔ اس نکتے پر صارفین نقصان اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنی جذباتی کیفیت میں ان ٹولز کے جوابات کو پرکھ نہیں پاتے۔ بعد میں جب ان کے جذبات سنبھلتے ہیں تو انہیں ان ٹولز کے مشورے پر عمل کرنے پر پچھتاوا ہوتا ہے۔نفسیات دانوں کے مطابق چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جنریٹو اے آئی ٹولز کا جذباتی سہارے کے طور پر استعمال محدود ہونا چاہیے۔ یہ وقتی طور پر ہمیں بہتر محسوس کروا سکتے ہیں، لیکن جب بات گہری ذہنی کیفیتوں جیسے ڈپریشن، اینگزائٹی یا ٹراما تک پہنچتی ہے تو وہاں صرف پروفیشنل مدد ہی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔
تربیت یافتہ تھیراپسٹ ہی وہ فرد ہوتا ہے جو نہ صرف جذبات کو درست طور پر سمجھتا ہے بلکہ تشخیص اور علاج کی مکمل مہارت بھی رکھتا ہے۔ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ جنریٹو اے آئی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، وہ اصل زندگی میں رفتہ رفتہ مزید تنہا ہوتے جاتے ہیں۔ اس لیے جب بھی ان ٹولز سے بات کریں، یہ یاد رکھیں کہ یہ محض ایک سہولت ہیں، انسان نہیں۔
یہ انسانی تعلقات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ کوشش کریں کہ روز کسی نہ کسی سے بات کریں، ملیں، وقت گزاریں اور ان ٹولز کے استعمال میں توازن رکھیں تاکہ آپ انجانے میں کسی نفسیاتی دباؤ یا تنہائی کا شکار نہ ہو جائیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔