Express News:
2025-11-03@15:12:15 GMT

شیان میں آخری دن

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں لیکن یہ اس کے باوجود بڑی سیاحتی کشش ہے‘ شہر کی دیوار ہر دور میں بنتی اور ٹوٹتی رہی‘ یہ آخری مرتبہ 1368میں منگ ڈائنیسٹی میں بنی اور آج تک قائم ہے‘ میں نے زندگی میں پرانے شہروں کی بیشمار دیواریں دیکھیں‘ اصفہان‘ شیراز‘ خیوا‘ استنبول‘ دمشق‘ فیض‘ غرناطہ‘ باکو اور تبلیسی کی فصیلیں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا اور لکسر شہر کی فرعونوں کے زمانے کی دیواریں‘ پیٹرا میں حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے کی فصیلیں اور عادوثمود کی بستیوں کی قدیم دیواریں بھی دیکھنے کا موقع ملا لیکن شیان شہر کی دیوار کی کوئی مثال موجود نہیں‘ یہ واقعی دیکھنے بلکہ محسوس کرنے لائق ہے‘ ہم شہر کی مشرقی سائیڈ سے دیوار کے اندر داخل ہوئے۔

 ہمارے سامنے سرنگ نما دروازے تھے‘ یہ محراب نما تھے‘ سرنگ کے شروع میں بھی گیٹ تھا اور آخر میں بھی‘ ہم جب سرنگ سے باہر نکلے تو سامنے بڑا سا صحن تھا‘ اس کی چاروں سائیڈز پر 40فٹ بلند دیواریں تھیں‘ صحن میں بیک وقت ہزار کے قریب لوگ جمع ہو سکتے ہیں‘ گیٹ کے بالکل سامنے چھت پر چینی اسٹائل کی پانچ منزلہ عمارت تھی‘ اس کی ساری کھڑکیاں صحن کی طرف کھلتی تھیں‘ پرانے زمانے میں اس عمارت میں تیر انداز بیٹھتے تھے‘ عمارت کی مخالف سائیڈ پر بھی اسی نوعیت کی عمارت تھی‘ وہاں بھی یقینا تیر انداز بیٹھتے ہوں گے۔

 یہ بندوبست دشمن سے نبٹنے کے لیے تھا‘ دشمن اگر گیٹ توڑ کر اندر آ جاتا تھا تو وہ صحن میں محصور ہو کر رہ جاتا تھا اور اسے اوپر سے تیروں کی بارش کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ صحن کی دونوں سائیڈز پرسیدھی سیڑھیاں تھیں‘ سیڑھیوں پر چڑھنے کے لیے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا پڑتا تھا‘ میں نے اوپر جاتے وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اس نے مجھے جوانی میں اپنی دنیا دیکھنے کی توفیق عطا کی اگر میں دنیا کے زیادہ تر لوگوں کی طرح ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتا رہتا تو آج شاید میں اپنے گھر سے باہر نہ نکل سکتا‘ہم اوپر دیوار پر پہنچے تو وہاں نظارہ ہی مختلف تھا‘ شہر کی بلند عمارتوں کے درمیان 39 سے 46 فٹ چوڑا واک وے تھا‘ یہ دیوار تھی‘ اس پر باقاعدہ ٹرک چلائے اور گھوڑے دوڑائے جا سکتے تھے۔

 اس کی کل لمبائی 14 کلو میٹر ہے‘ اسے پیدل عبور کرنے کے لیے تین سے چار گھنٹے درکار ہیں‘ آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر فوجیوں کی چوکیاں تھیں‘ ہر چوکی کے قریب ریمپ تھا‘ اس کا مقصد گھوڑوں اور پرانے زمانے کی منجنیقوں کے ساتھ اوپر نیچے آنا تھا‘ ہر چوکی سے دوسری چوکی نظر آتی تھی تاکہ سپاہی ایک دوسرے کو پیغام بھی دے سکیں اور شہر کی حفاظت بھی کر سکیں‘ شہر کے بعض حصے دیوار سے نیچے تھے‘ انھیں اوپر سے دیکھنا دل چسپ سرگرمی تھی‘ سائیڈ کی عمارتوں میں ہوٹل اور ریستوران تھے‘ بالکونیوں سے دیوار نظر آتی تھی‘ شیان کی سٹی وال چین کی گریٹ وال کا چھوٹا سا بچہ ہے‘ اس کی تعمیر میں دیوار چین جیسا مٹیریل استعمال ہوا تھا اور اس کا طرز تعمیر بھی دیوار چین جیسا تھا۔

شیان کی فضا میں ایک کھلا پن ہے‘ آپ کو کسی جگہ گھٹن کا احساس نہیں ہوتا‘ چین کے مختلف شہروں سے عجیب سی بدبو آتی ہے لیکن یہ بو آپ کو شیان میں محسوس نہیں ہوتی‘ موسم خوش گوار ہے‘ بارشیں ہوتی رہتی ہیں‘ ٹریفک میں نظم وضبط اور سلیقہ ہے‘ آپ کو کسی جگہ ہڑبونگ اور افراتفری نظر نہیں آتی‘ حلال کھانا بھی مل جاتا ہے‘ ہم نے حلال چینی کھانا کھایا اور اسے خوب انجوائے کیا‘ یہ 12 میل کورس تھا جس میںمختلف قسم کے درجن بھر کھانے تھے‘ پورے چین میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس تین مختلف رنگوں میں ہوتی ہیں‘ گرین نمبرپلیٹ الیکٹرک گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے‘ آپ کو اگر شہر میں گرین نمبر پلیٹ نظر آئے تو اس کا مطلب ہو گا یہ گاڑی الیکٹرک ہے۔

 نیلی نمبر پلیٹ نارمل گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے جب کہ سات نشستوں سے زیادہ والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پیلی ہوتی ہے اور یہ عموماً پبلک ٹرانسپورٹ یا سیاحوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں‘ سڑک پر کسی جگہ پولیس‘ فوج یا ہتھیار نظر نہیں آتے‘ میں نے گائیڈ سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا پورا ملک اسمارٹ کیمروں سے منسلک ہے‘ پولیس فورس سارا دن کیمروں سے شہریوں کو دیکھتی رہتی ہے‘ حکومت نے ظاہری کیمروں کے ساتھ ساتھ خفیہ کیمرے بھی لگا رکھے ہیں‘ چین میں کوئی شخص ان کیمروں سے بچ نہیں سکتا‘ دوسرا تمام شہریوں کا ڈیٹا حکومت کے پاس ہے‘ چین کا کوئی شہری اگر کسی کیمرے میں آ گیا تو پھر اسے تلاش کرنے میں چند سیکنڈز لگتے ہیں‘ سیاحوں کو بھی بار بار کیمروں سے گزرنا پڑتا ہے۔

 ان کے پاسپورٹ بھی ہر پبلک مقام پر سکین ہوتے ہیں‘ یہ حکومت کی نظروں سے نہیں بچ سکتے چنانچہ پھر پولیس کو سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے؟ گائیڈ کا کہنا تھا ہاں البتہ پولیس نے مارکیٹوں میں سفید کپڑوں میں اپنے اہلکار چھوڑ رکھے ہیں‘ یہ عوام کو چھوٹے بڑے فراڈز یا چوری چکاری سے بچاتے ہیں‘ حکومت نے سیاحوں کے پااسپورٹس کو ٹکٹ میں تبدیل کر دیا ہے‘ آپ کسی بھی سیاحتی مقام کا آن لائین ٹکٹ خریدیں‘ آپ کا پاسپورٹ آپ کا ٹکٹ بن جائے گا‘ آپ پاسپورٹ سکین کرینگے اور گیٹ کھلتے چلے جائینگے‘ ہمیں ائیرپورٹ پر ایک نیا تجربہ بھی ہوا‘ تمام بڑے ائیرپورٹس پر اسکرینیں لگی ہیں‘ آپ کسی اسکرین کے سامنے کھڑے ہو جائیں کیمرہ آپ کی تصویر لے گا اور اسکرین پر آپ کی اگلی فلائیٹ کا نمبر‘ ٹرمینل اور وہاں سے اس کا فاصلہ آ جائے گا‘ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے لیکن چوری چکاری کا کوئی تصور نہیں‘ اس کی وجہ ایمان داری نہیں بلکہ سسٹم ہے۔

 شہریوں کو معلوم ہے ہم نے اگر چوری کی تو حکومت سے بچ نہیں سکیں گے‘ پولیس ہمیں پاتال سے بھی نکال لے گی‘ شیان میں حلال کھانوں کی دکانوں پر چینی زبان میں سبز رنگ میں حلال لکھا ہوتا ہے‘ ہم چینی زبان نہیں جانتے تھے لیکن ہم سبز رنگ سے اندازہ کر لیتے تھے تاہم تصدیق کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کر دیتے تھے اور دکاندار جواب میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر کھانے کے حلال ہونے کی تصدیق کر دیتا تھا‘ ہمیں مرکزی مسجد میں چار پاکستانی طالبعلم ملے‘ یہ محکمہ زراعت کے ملازمین تھے اور حکومت کے وظیفے پر ٹریننگ کے لیے شیان آئے تھے۔

 ان میں لسبیلہ کا نوجوان یوسف بھی تھا‘ ہمیں ان طالب علموں نے بتایا میاں شہباز شریف نے چاروں صوبوں کے 300 زرعی ماہرین کو ٹریننگ کے لیے شیان بھجوایا‘ ان میں سے کچھ زراعت میں ٹریننگ لے رہے ہیں اور کچھ لائیو اسٹاک میں‘ یہ پہلا بیچ ہے‘ دوسرا بیچ جولائی میں شیان آئے گا‘کل ہزار پروفیشنلز ٹریننگ لیں گے‘ یہ لوگ حکومت کے اس اقدام پر بہت خوش تھے‘ ان کا کہنا تھا ہماری ٹریننگ سے پاکستان میں زراعت اور لائیواسٹاک میں بہت فرق پڑے گا‘ شیان میں 75 یونیورسٹیاں ہیں‘ جن میں چیاؤ تھونگ یونیورسٹی (Jiao Tong) 1896 میں بنی تھی‘ رسول اللہ ﷺ نے اگر فرمایا تھا ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ تو یہ غلط نہیں تھا‘ آپؐ جانتے تھے شیان ماضی میں بھی علم کا گڑھ تھا اور یہ مستقبل میں بھی علمی مرکز ہوگا۔

ہم چین کو بدقسمتی سے 1949سے دیکھتے ہیں اور افسوس سے کہتے ہیں چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا لیکن یہ کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں پھنس کر رہ گئے‘یہ موازنہ غلط ہے‘ آپ نے اگر چین کو دیکھنا ہے تو پھر آپ کو اسے دیوار چین‘ ٹیراکوٹا وارئیرز‘ شاہراہ ریشم‘ بارود کی قدیم انڈسٹری‘ کاغذ‘ کرنسی نوٹ‘ ہاٹ ائیربیلونز اور ریشم کے کیڑوں سے دیکھنا اورپرکھنا چاہیے‘ چین قدیم زمانے سے کیپٹلسٹ (سرمایہ کار) اور بزنس فرینڈلی ملک ہے۔

 یہ لوگ قبل مسیح سے سرمایہ بنانا جانتے ہیں‘ یہ ٹیکنالوجی اور علم میں بھی باقی دنیا سے بہت آگے تھے چناں چہ کام‘ سرمایہ اکٹھا کرنا اور مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ ان کے ڈی این اے میں شامل ہے‘ مستقل مزاجی اور ان تھک کام بھی ان کے اعصاب کا حصہ ہے‘ آپ چینیوں کو کسی کام پر لگا دیں یہ صدیوں تک وہ کام کرتے رہیں گے شاید اس کی وجہ ان کا رنگ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پانچ رنگ کے انسان پیدا کیے ہیں‘ یہ رنگ ان انسانوں کے مزاج کو ظاہر کرتے ہیں‘ سیاہ فام لوگ جسمانی طور پر تگڑے ہوتے ہیں‘ یہ بہت اچھے ملازم اور غلام ثابت ہوتے ہیں‘ سفید فام ذہنی طور پر چست اور چالاک ہوتے ہیں‘ یہ سسٹم بنانے اور چلانے کے ماہر ہوتے ہیں‘دنیا کی زیادہ تر ایجادات بھی سفید فام لوگوں نے کیں اور تحقیق بھی‘ سرخ فام بدمعاش ہوتے ہیں‘ دوسروں پر یلغار کرنا‘ انھیں اپنے گھٹنے کے نیچے رکھنا‘ لمبی جنگیں اور وسائل پر قبضہ ان کی فطرت ہوتی ہے‘آپ امریکیوں کو دیکھ لیں‘ یہ سرخ فام ہیں‘ پیلی رنگت کے لوگ ان تھک ہوتے ہیں۔

 یہ کوئی بھی کام پوری زندگی دائیں بائیں دیکھے بغیر کر سکتے ہیں اور پانچ ہم جیسے براؤن لوگ‘ ہم لوگ ٹک کر جم کر نہیں بیٹھ سکتے‘ ہم میں مستقل مزاجی نہیں ہوتی‘ ہم ایک کام شروع کریں گے اور اسے ادھورا چھوڑ کر دوسرے کام میں لگ جائیں گے‘ ہم سیدھے بیٹھ سکتے ہیں اور نہ کھڑے ہو سکتے ہیں‘ ہم چند منٹ کے بعد دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیں گے یا میز پر سر ٹکا کر بیٹھ جائیں گے یا پھر ہمیں کام کے دوران پیشاب آ جائے گا اور ہم کام چھوڑ کر واش روم تلاش کرنا شروع کر دیں گے شاید اسی لیے ہم دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔

میں اگلے کالم میں آپ کو بیجنگ لے جاؤں گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیمروں سے شیان میں سکتے ہیں ہوتے ہیں تھا اور ہوتی ہے میں بھی ہیں اور کے لیے شہر کی اور اس

پڑھیں:

مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت کے استعمال سے جہاں عالمی معاشروں میں حیران کن تبدیلیاں آرہی ہیں وہاں ذرایع ابلاغ اور خبریں بھی ایک نئے اور پیچیدہ عہد میں داخل ہو رہی ہیں۔ ایک ایسا عہد جس میں ’’خبر‘‘ محض اطلاع نہیں بلکہ ایک ڈیجیٹل تشکیل بن چکی ہے۔ آج کسی خبر کی سچائی پر یقین کرنے سے پہلے قاری کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ خبر انسان نے بنائی ہے یا مشین نے؟

مصنوعی ذہانت یعنی اے ائی (Artificial Intelligence) لمحوں میں تصویر، آواز یا وڈیو کو اس طرح بدل دیتی ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے جو دنیا بھر کے میڈیا کو درپیش ہے اور جس سے پاکستان بھی اب لاتعلق نہیں رہ سکتا۔

ڈیجیٹل فریب کی اس نئی دنیا نے کچھ ہی عرصے میں ’’جنریٹو اے آئی‘‘ (Generative AI) نے خبر کے معیار، رفتار اور اعتبار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ChatGPT، Midjourney، Runway، Sora جیسے ٹولز نہ صرف مواد تخلیق کرتے ہیں بلکہ مکمل حقیقت کو بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کی ایک خطرناک صورت ڈیپ فیک (Deepfake) ہے۔ ڈیپ فیک کے استعمال سے ایسی جعلی وڈیوز بنائی جاتی ہیں جو دیکھنے میں بالکل اصلی لگتی ہیں۔

مثال کے طور پر 2024کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ایک ڈیپ فیک آڈیو سامنے آئی جس میں صدر جوبائیڈن کی آواز میں ووٹروں کو پیغام دیا گیا۔ بعدازاں انکشاف ہوا کہ یہ مصنوعی آواز تھی۔

بھارت میں بھی 2023 کے ریاستی انتخابات کے دوران مشہور شخصیات کی جعلی وڈیوز وائرل ہوئیں جنھوں نے انتخابی بیانیے کو متاثر کیا۔ اسی طرح پاکستان کے سوشل میڈیا پر مختلف سیاست دانوں اور بااثر افراد کی ایسی فیک وڈیوز گردش کر رہی ہیں جن کو دیکھ کر انسان صرف حیران اور پریشان ہی نہیں ہوتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو آگے کیا ہوگا۔

حالیہ برسوں میں متعدد وڈیوز اور بیانات توڑمروڑ کر پھیلائے گئے۔ کئی مرتبہ تو پرانی وڈیوز کو نئے عنوانات کے ساتھ وائرل کیا گیا، جس سے غلط فہمیاں اور انتشار پیدا ہوا۔

 ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر نہ تو فیکٹ چیکنگ یونٹس ہیں اور نہ ہی ایتھکس کی تربیت ہے۔ نتیجتاً افواہیں خبروں سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں تو یہ چیلنج دراصل ایک موقع بھی ہے۔ اگر پاکستان کا میڈیا اس ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں اپنائے تو خبر کے حصول کی رفتار، تحقیق اور تجزیے کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

دنیا کے بڑے خبررساں ادارے اے آئی کو مددگار ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ نیوز ٹریسر ایک ایسا خودکار ٹول ہے جو سوشل میڈیا پر خبروں کی اصلیت اور جعلی پن کی جانچ کرتا ہے۔

ایک اور ٹریسر ایسا بھی ہے جو تصاویر وڈیو اور اعداد وشمار کی اے آئی الگورتھم استعمال کر کے تصدیق کرتا ہے۔ پاکستانی ابلاغ کے ادارے بھی اگر چاہیں تو انھی ماڈلز کو اپنا سکتے ہیں۔

اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کس طرح فیک اور اصلی خبر میں تمیز کر سکتا ہے یا اصلی خبر کی تیزرفتار جانچ پڑتال کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

ہر نیوز روم میں فیکٹ چیکنگ یونٹ قائم کیا جائے۔صحافیوں کے لیے اے آئی اور ڈیجیٹل ایتھکس کی تربیت کو لازمی قرار دیا جائے۔اگر کوئی تصویر یا وڈیو اے آئی سے تیار کی گئی ہو تو اس کی وضاحت لازمی ہو۔

یونیورسٹیوں، میڈیا ریگولیٹرز اور نیوز اداروں کو مل کر ایک قومی پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ ٹیکنالوجی کا استعمال ذمے داری سے ہو۔پاکستان کی بعض یونیورسٹیوں نے ’’ڈیجیٹل جرنلزم‘‘ میں مصنوعی ذہانت کے ماڈیول شامل کیے ہیں لیکن یہ ابھی ابتدائی کوششیں ہیں۔

اگر ہم نے ابھی سے تیاری نہ کی تو مستقبل میں ’’خبر‘‘ شاید انسان نہیں بلکہ الگورتھم لکھے گا۔ پھر سوال یہ نہیں رہے گا کہ خبر کیا ہے؟ بلکہ یہ ہوگا کہ کس نے بنائی؟

مصنوعی ذہانت کے اس دور میں اصل امتحان مشین کا نہیں، انسان کے شعور کا ہے۔ خبر کی سچائی، اعتماد اور اخلاقیات کو زندہ رکھنا اب ہماری ذمے داری ہے ۔ مصنوعی ذہانت نے پاکستان سمیت دنیا کو ایک نئے فکری چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی اگر درست سمت میں استعمال ہو تو میڈیا کو زیادہ بااعتماد، تیز اور معیاری بنا سکتی ہے لیکن اگر غفلت برتی تو سچ اور فریب کے درمیان فرق مٹ سکتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کا آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر قسط اجرا میں حائل آخری رکاوٹ دور کرنے کا فیصلہ
  • سرکاری سکیم کے تحت حج واجبات کی آخری قسط کی وصولی شروع
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • برطانوی حکومت کا معزول شہزادہ اینڈریو سے آخری فوجی عہدہ واپس لینے کا اعلان
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • مصنوعی ذہانت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • کراچی سمیت سندھ کے مہاجروں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے، ڈاکٹر سلیم حیدر