Express News:
2025-09-18@11:12:33 GMT

شیان میں آخری دن

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں لیکن یہ اس کے باوجود بڑی سیاحتی کشش ہے‘ شہر کی دیوار ہر دور میں بنتی اور ٹوٹتی رہی‘ یہ آخری مرتبہ 1368میں منگ ڈائنیسٹی میں بنی اور آج تک قائم ہے‘ میں نے زندگی میں پرانے شہروں کی بیشمار دیواریں دیکھیں‘ اصفہان‘ شیراز‘ خیوا‘ استنبول‘ دمشق‘ فیض‘ غرناطہ‘ باکو اور تبلیسی کی فصیلیں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا اور لکسر شہر کی فرعونوں کے زمانے کی دیواریں‘ پیٹرا میں حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے کی فصیلیں اور عادوثمود کی بستیوں کی قدیم دیواریں بھی دیکھنے کا موقع ملا لیکن شیان شہر کی دیوار کی کوئی مثال موجود نہیں‘ یہ واقعی دیکھنے بلکہ محسوس کرنے لائق ہے‘ ہم شہر کی مشرقی سائیڈ سے دیوار کے اندر داخل ہوئے۔

 ہمارے سامنے سرنگ نما دروازے تھے‘ یہ محراب نما تھے‘ سرنگ کے شروع میں بھی گیٹ تھا اور آخر میں بھی‘ ہم جب سرنگ سے باہر نکلے تو سامنے بڑا سا صحن تھا‘ اس کی چاروں سائیڈز پر 40فٹ بلند دیواریں تھیں‘ صحن میں بیک وقت ہزار کے قریب لوگ جمع ہو سکتے ہیں‘ گیٹ کے بالکل سامنے چھت پر چینی اسٹائل کی پانچ منزلہ عمارت تھی‘ اس کی ساری کھڑکیاں صحن کی طرف کھلتی تھیں‘ پرانے زمانے میں اس عمارت میں تیر انداز بیٹھتے تھے‘ عمارت کی مخالف سائیڈ پر بھی اسی نوعیت کی عمارت تھی‘ وہاں بھی یقینا تیر انداز بیٹھتے ہوں گے۔

 یہ بندوبست دشمن سے نبٹنے کے لیے تھا‘ دشمن اگر گیٹ توڑ کر اندر آ جاتا تھا تو وہ صحن میں محصور ہو کر رہ جاتا تھا اور اسے اوپر سے تیروں کی بارش کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ صحن کی دونوں سائیڈز پرسیدھی سیڑھیاں تھیں‘ سیڑھیوں پر چڑھنے کے لیے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا پڑتا تھا‘ میں نے اوپر جاتے وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اس نے مجھے جوانی میں اپنی دنیا دیکھنے کی توفیق عطا کی اگر میں دنیا کے زیادہ تر لوگوں کی طرح ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتا رہتا تو آج شاید میں اپنے گھر سے باہر نہ نکل سکتا‘ہم اوپر دیوار پر پہنچے تو وہاں نظارہ ہی مختلف تھا‘ شہر کی بلند عمارتوں کے درمیان 39 سے 46 فٹ چوڑا واک وے تھا‘ یہ دیوار تھی‘ اس پر باقاعدہ ٹرک چلائے اور گھوڑے دوڑائے جا سکتے تھے۔

 اس کی کل لمبائی 14 کلو میٹر ہے‘ اسے پیدل عبور کرنے کے لیے تین سے چار گھنٹے درکار ہیں‘ آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر فوجیوں کی چوکیاں تھیں‘ ہر چوکی کے قریب ریمپ تھا‘ اس کا مقصد گھوڑوں اور پرانے زمانے کی منجنیقوں کے ساتھ اوپر نیچے آنا تھا‘ ہر چوکی سے دوسری چوکی نظر آتی تھی تاکہ سپاہی ایک دوسرے کو پیغام بھی دے سکیں اور شہر کی حفاظت بھی کر سکیں‘ شہر کے بعض حصے دیوار سے نیچے تھے‘ انھیں اوپر سے دیکھنا دل چسپ سرگرمی تھی‘ سائیڈ کی عمارتوں میں ہوٹل اور ریستوران تھے‘ بالکونیوں سے دیوار نظر آتی تھی‘ شیان کی سٹی وال چین کی گریٹ وال کا چھوٹا سا بچہ ہے‘ اس کی تعمیر میں دیوار چین جیسا مٹیریل استعمال ہوا تھا اور اس کا طرز تعمیر بھی دیوار چین جیسا تھا۔

شیان کی فضا میں ایک کھلا پن ہے‘ آپ کو کسی جگہ گھٹن کا احساس نہیں ہوتا‘ چین کے مختلف شہروں سے عجیب سی بدبو آتی ہے لیکن یہ بو آپ کو شیان میں محسوس نہیں ہوتی‘ موسم خوش گوار ہے‘ بارشیں ہوتی رہتی ہیں‘ ٹریفک میں نظم وضبط اور سلیقہ ہے‘ آپ کو کسی جگہ ہڑبونگ اور افراتفری نظر نہیں آتی‘ حلال کھانا بھی مل جاتا ہے‘ ہم نے حلال چینی کھانا کھایا اور اسے خوب انجوائے کیا‘ یہ 12 میل کورس تھا جس میںمختلف قسم کے درجن بھر کھانے تھے‘ پورے چین میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس تین مختلف رنگوں میں ہوتی ہیں‘ گرین نمبرپلیٹ الیکٹرک گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے‘ آپ کو اگر شہر میں گرین نمبر پلیٹ نظر آئے تو اس کا مطلب ہو گا یہ گاڑی الیکٹرک ہے۔

 نیلی نمبر پلیٹ نارمل گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے جب کہ سات نشستوں سے زیادہ والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پیلی ہوتی ہے اور یہ عموماً پبلک ٹرانسپورٹ یا سیاحوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں‘ سڑک پر کسی جگہ پولیس‘ فوج یا ہتھیار نظر نہیں آتے‘ میں نے گائیڈ سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا پورا ملک اسمارٹ کیمروں سے منسلک ہے‘ پولیس فورس سارا دن کیمروں سے شہریوں کو دیکھتی رہتی ہے‘ حکومت نے ظاہری کیمروں کے ساتھ ساتھ خفیہ کیمرے بھی لگا رکھے ہیں‘ چین میں کوئی شخص ان کیمروں سے بچ نہیں سکتا‘ دوسرا تمام شہریوں کا ڈیٹا حکومت کے پاس ہے‘ چین کا کوئی شہری اگر کسی کیمرے میں آ گیا تو پھر اسے تلاش کرنے میں چند سیکنڈز لگتے ہیں‘ سیاحوں کو بھی بار بار کیمروں سے گزرنا پڑتا ہے۔

 ان کے پاسپورٹ بھی ہر پبلک مقام پر سکین ہوتے ہیں‘ یہ حکومت کی نظروں سے نہیں بچ سکتے چنانچہ پھر پولیس کو سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے؟ گائیڈ کا کہنا تھا ہاں البتہ پولیس نے مارکیٹوں میں سفید کپڑوں میں اپنے اہلکار چھوڑ رکھے ہیں‘ یہ عوام کو چھوٹے بڑے فراڈز یا چوری چکاری سے بچاتے ہیں‘ حکومت نے سیاحوں کے پااسپورٹس کو ٹکٹ میں تبدیل کر دیا ہے‘ آپ کسی بھی سیاحتی مقام کا آن لائین ٹکٹ خریدیں‘ آپ کا پاسپورٹ آپ کا ٹکٹ بن جائے گا‘ آپ پاسپورٹ سکین کرینگے اور گیٹ کھلتے چلے جائینگے‘ ہمیں ائیرپورٹ پر ایک نیا تجربہ بھی ہوا‘ تمام بڑے ائیرپورٹس پر اسکرینیں لگی ہیں‘ آپ کسی اسکرین کے سامنے کھڑے ہو جائیں کیمرہ آپ کی تصویر لے گا اور اسکرین پر آپ کی اگلی فلائیٹ کا نمبر‘ ٹرمینل اور وہاں سے اس کا فاصلہ آ جائے گا‘ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے لیکن چوری چکاری کا کوئی تصور نہیں‘ اس کی وجہ ایمان داری نہیں بلکہ سسٹم ہے۔

 شہریوں کو معلوم ہے ہم نے اگر چوری کی تو حکومت سے بچ نہیں سکیں گے‘ پولیس ہمیں پاتال سے بھی نکال لے گی‘ شیان میں حلال کھانوں کی دکانوں پر چینی زبان میں سبز رنگ میں حلال لکھا ہوتا ہے‘ ہم چینی زبان نہیں جانتے تھے لیکن ہم سبز رنگ سے اندازہ کر لیتے تھے تاہم تصدیق کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کر دیتے تھے اور دکاندار جواب میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر کھانے کے حلال ہونے کی تصدیق کر دیتا تھا‘ ہمیں مرکزی مسجد میں چار پاکستانی طالبعلم ملے‘ یہ محکمہ زراعت کے ملازمین تھے اور حکومت کے وظیفے پر ٹریننگ کے لیے شیان آئے تھے۔

 ان میں لسبیلہ کا نوجوان یوسف بھی تھا‘ ہمیں ان طالب علموں نے بتایا میاں شہباز شریف نے چاروں صوبوں کے 300 زرعی ماہرین کو ٹریننگ کے لیے شیان بھجوایا‘ ان میں سے کچھ زراعت میں ٹریننگ لے رہے ہیں اور کچھ لائیو اسٹاک میں‘ یہ پہلا بیچ ہے‘ دوسرا بیچ جولائی میں شیان آئے گا‘کل ہزار پروفیشنلز ٹریننگ لیں گے‘ یہ لوگ حکومت کے اس اقدام پر بہت خوش تھے‘ ان کا کہنا تھا ہماری ٹریننگ سے پاکستان میں زراعت اور لائیواسٹاک میں بہت فرق پڑے گا‘ شیان میں 75 یونیورسٹیاں ہیں‘ جن میں چیاؤ تھونگ یونیورسٹی (Jiao Tong) 1896 میں بنی تھی‘ رسول اللہ ﷺ نے اگر فرمایا تھا ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ تو یہ غلط نہیں تھا‘ آپؐ جانتے تھے شیان ماضی میں بھی علم کا گڑھ تھا اور یہ مستقبل میں بھی علمی مرکز ہوگا۔

ہم چین کو بدقسمتی سے 1949سے دیکھتے ہیں اور افسوس سے کہتے ہیں چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا لیکن یہ کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں پھنس کر رہ گئے‘یہ موازنہ غلط ہے‘ آپ نے اگر چین کو دیکھنا ہے تو پھر آپ کو اسے دیوار چین‘ ٹیراکوٹا وارئیرز‘ شاہراہ ریشم‘ بارود کی قدیم انڈسٹری‘ کاغذ‘ کرنسی نوٹ‘ ہاٹ ائیربیلونز اور ریشم کے کیڑوں سے دیکھنا اورپرکھنا چاہیے‘ چین قدیم زمانے سے کیپٹلسٹ (سرمایہ کار) اور بزنس فرینڈلی ملک ہے۔

 یہ لوگ قبل مسیح سے سرمایہ بنانا جانتے ہیں‘ یہ ٹیکنالوجی اور علم میں بھی باقی دنیا سے بہت آگے تھے چناں چہ کام‘ سرمایہ اکٹھا کرنا اور مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ ان کے ڈی این اے میں شامل ہے‘ مستقل مزاجی اور ان تھک کام بھی ان کے اعصاب کا حصہ ہے‘ آپ چینیوں کو کسی کام پر لگا دیں یہ صدیوں تک وہ کام کرتے رہیں گے شاید اس کی وجہ ان کا رنگ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پانچ رنگ کے انسان پیدا کیے ہیں‘ یہ رنگ ان انسانوں کے مزاج کو ظاہر کرتے ہیں‘ سیاہ فام لوگ جسمانی طور پر تگڑے ہوتے ہیں‘ یہ بہت اچھے ملازم اور غلام ثابت ہوتے ہیں‘ سفید فام ذہنی طور پر چست اور چالاک ہوتے ہیں‘ یہ سسٹم بنانے اور چلانے کے ماہر ہوتے ہیں‘دنیا کی زیادہ تر ایجادات بھی سفید فام لوگوں نے کیں اور تحقیق بھی‘ سرخ فام بدمعاش ہوتے ہیں‘ دوسروں پر یلغار کرنا‘ انھیں اپنے گھٹنے کے نیچے رکھنا‘ لمبی جنگیں اور وسائل پر قبضہ ان کی فطرت ہوتی ہے‘آپ امریکیوں کو دیکھ لیں‘ یہ سرخ فام ہیں‘ پیلی رنگت کے لوگ ان تھک ہوتے ہیں۔

 یہ کوئی بھی کام پوری زندگی دائیں بائیں دیکھے بغیر کر سکتے ہیں اور پانچ ہم جیسے براؤن لوگ‘ ہم لوگ ٹک کر جم کر نہیں بیٹھ سکتے‘ ہم میں مستقل مزاجی نہیں ہوتی‘ ہم ایک کام شروع کریں گے اور اسے ادھورا چھوڑ کر دوسرے کام میں لگ جائیں گے‘ ہم سیدھے بیٹھ سکتے ہیں اور نہ کھڑے ہو سکتے ہیں‘ ہم چند منٹ کے بعد دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیں گے یا میز پر سر ٹکا کر بیٹھ جائیں گے یا پھر ہمیں کام کے دوران پیشاب آ جائے گا اور ہم کام چھوڑ کر واش روم تلاش کرنا شروع کر دیں گے شاید اسی لیے ہم دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔

میں اگلے کالم میں آپ کو بیجنگ لے جاؤں گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیمروں سے شیان میں سکتے ہیں ہوتے ہیں تھا اور ہوتی ہے میں بھی ہیں اور کے لیے شہر کی اور اس

پڑھیں:

ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت

انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔

انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔


عالمی تحقیق اور ابتدا

ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔

 

پاکستان میں ضرورت

پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔

مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔


سماجی اور مذہبی رکاوٹیں

پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔


اسلامی ممالک اور علما کا موقف

کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔

مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔

یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • لازوال عشق
  • آخری متاثرہ شخص کو ریلیف دینے تک چین سے نہیں بیٹھوں گی، مریم نواز
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • عمرشاہ کی انتقال سے پہلے اپنے بھائی احمد کے ہمراہ چاچو سے فرمائش کی آخری ویڈیو وائرل
  • سوشل میڈیا کی ہوس اور ڈالرز کی لالچ، بچوں نے باپ کے آخری لمحات کا وی لاگ بنادیا
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage
  • کیا عمران خان سے ملنے کے لیے جیل کی دیوار توڑ کر اندر گھس جاؤں؟ علی امین گنڈاپور