بجٹ:مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ہم بجٹ کا ڈی این اے تبدیل کریں گے تاہم ان کے اس فرمان کے باوجودوہ جو صبح شام مزدوری کرتا ہے، گلیوں میں ریڑھیاں لگاتا ہے، فیکٹریوں میں کام کرتا ہے، بجٹ 2025 میں اس کے لیے اتنا ہی ہے جتنا اسپتالوں میں بوتل بھر خون نکالنے کے بعد جوس کا ایک ڈبہ پکڑا دیا جاتا ہے۔ بجٹ کا ایک آنریری پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمارا بجٹ بناتے وقت بال اور بھویں مونڈنے کا اپنا شغف برقرار رکھا ہے۔ حکومت کے پاس گنجائش ہی نہیں تھی کہ اپنے ’’استعماری باوا‘‘ پر نظریں جمائے رکھنے کے علاوہ ادھر ادھر دیکھے۔ اس نیک چلنی کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو جس طرح فرہاد کی نظر سے دیکھے گا اس کے بعد 7 ملین ڈالر ملیں ہی ملیں۔ جس کے بعد ورلڈ بینک، سعودیہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور باقی دنیا سے بھی ہاتھ جوڑے بغیر قرض مل جائے گا۔ غریبوں کے کالے بال سفید ہو جائیں بجٹ میں اس کا پورا اہتمام موجود ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی طبیعت ایسی چونچال ہے جیسے غریب پر اس سے زیادہ احسان کسی نے کیا ہی نہ ہو:
ہم آخری گلاب ہیں دنیا کی شاخ پر
ترسیں گے ہم کو لوگ یہ اگلی بہار میں
اگر دل میں شریف برادران اور فوج سے بغض نہ ہو تو بجٹ کے معاملے میں حکومت کو کانٹوں پر گھسیٹنے اور دُر دُر ہُش ہُش کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں کیونکہ پچھلے عمرانی نیک بختوں نے کچھ چھوڑا ہی نہیں تھا سوائے پاکستان کو دیوالیہ کرنے کے۔ شہباز حکومت کا یہی کارنامہ بہت بڑا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر بھی ڈال دیا لیکن بجٹ میں منظر نامے کو جتنا خوشگوار بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ غلط ہے، ایسا تب ہی ممکن ہے جب طوائف کے ہاتھ کی گلوری کھا کر دنیا کو دیکھا گیا ہو۔ ڈھائی تین فی صد جس گروتھ کا دعویٰ کیا گیا ہے اس پر سہرا بندھائی دینے کو دل کرتا ہے لیکن یہ غلط بیانی ہے، گروتھ حد سے حد ڈیڑھ فی صد تک پہنچی ہے۔ پانچ فی صد تک گروتھ لے جانے کے دعووںکا جہاں تک تعلق ہے حکومت کتنے ہی نئے اقدامات کرلے، قوانین منظور کرلے، دھمکیاں دے لے، سخت فیصلے کرلے، ٹیکس جمع، سبسڈیز کا خاتمہ اور اخراجات میں کٹوتیاں کرلے ایسا ممکن نہیں۔ گروتھ دو فی صد تک ممکن ہے۔
بجٹ پیش کرنے کے بعد اگلا مرحلہ بحث کا ہوتا ہے۔ بغیر بجٹ کے اپنی تنخواہوں میں چار سو فی صد اضافہ کرنے والے اراکین اسمبلی اب غریب ملازمین کی تنخواہیں دس فی صد بڑھانے پر بحث کریں گے۔ نوم چو مسکی نے کہا تھا ’’بجٹ کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حکومت کو اصل میں کیا چیز عزیز ہے‘‘۔ حکومت کو سب سے زیادہ عزیز غربت کا خاتمہ ہے۔ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں وزراء، اسپیکرز، ڈپٹی اسپیکرز، وزراء اور دیگر اہم عہدیداروں کی غربت کا خاتمہ۔ جن کی تنخواہوں اور مراعات میں چار سو پانچ سو فی صد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ نیک بختو! اسی بات سے تو حکومت کو گالی پڑتی ہے۔ عوام اور مڈل کلاس میڈیا کو اپنے پیچھے لگانے کی اس سے بہتر کوئی ترکیب نہیں۔ جن کے لیے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ جن کے لیے زندگی گزارنا ہارٹ اٹیک سے کچھ لمحے پہلے والی کیفیت ہوکر رہ گئی ہے۔ پھر حکومت نے غریبوں کے فائدے کی ہر چیز پر ٹیکس لگادیا ہے۔ بلکتے تڑپتے لوگوں نے بجلی کے بلوں سے بچنے کے لیے سولر لگوائے حکومت نے اس پر بھی 18 فی صد ٹیکس لگادیا۔ سولر سپلائرز سے جو بجلی حکومت 27 روپے فی یونٹ خریدتی اسے 10 روپے فی یونٹ کردیا گیا ہے۔ بینکوں سے رقم نکلوانے پر بھی ٹیکس لگادیے گئے ہیں۔ آن لائن خریداری پر بھی 18 فی صد ٹیکس لگادیا گیا ہے۔
اراکین اسمبلی، وزراء اور دیگر اہم عہدیداروں کی تنخواہوں میں اضافے پر حکومت نے جو چنچل سُر لگایا ہے اس نے محفل کو مزید پھڑکا کر رکھ دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس اضافے کا نوٹس لے لیا ہے۔ سب کو علم ہے نوٹس تو نوٹس بورڈ پر ہی لگا رہے گا اضافہ چھم چھم کرتا بینکوں میں ٹرانسفر ہو جائے گا۔ یہ نوٹس ایسا ہی ہے جیسے بارش کے بعد چھتری کھولنا۔ اگر نوٹس لینے ہی سے مسئلے حل ہوجاتے تو ڈاکٹر مریضوں کو دوائوں کے نسخے دینے کے بجائے نوٹس دیتے، ڈاکو واردات کے بعد مظلوموں کے ساتھ سیلفی لے کر ڈاکا ڈالنے پر افسوس کا اظہار کرتے، قصائی بکرا ذبح کرنے کے بعد بکرے کی آنکھ میں پائے جانے والے آنسو پر افسوس کرتے۔ کتنا ہی دانتوں اور ہونٹوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا جائے طوائفوں کے محلے میں کھائے گئے کباب اور پیاز کے بھبکے اور پان کا رچائو نہیں جاتا۔
بجٹ میں حکومت نے ایک اور بڑا کارنامہ جو انجام دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک غریب مزدور کوئی چیز خریدے گا اس پر بھی اتنا ہی ٹیکس ہے اور ایک ارب پتی خریدے گا اس پر بھی اتنا ہی ٹیکس ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کے ذریعے غریبوں اور امیروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ وہ ترکیب ہے جو کثرت استعمال سے گھس گھس کر استرا بن گئی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے روٹی پر بھی ٹیکس ہو اور سانس لینے پر بھی۔ امیر تو یہ ٹیکس با آسانی اداکرکے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن غریبوں کی زندگی ایک ایسی انوائس اور مالیاتی بل بن جاتی ہے جہاں ہر کام، ہر سانس، ہر نوالے، ہر حرکت، ہر خرید اور ہر استعمال پر ٹیکس دینا پڑتا ہے چاہے پیٹ کاٹ کردیں یا قرض لے کر۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس ہوں اور وہ بھی امیروں پر، استطاعت رکھنے والوں پر نہ کہ غریبوں پر۔
بجٹ بہروپ نگر کا وہ طلسم ہے جس کے بعد ہر طرف دھواں ہی دھواں ہوتا ہے۔ ہر کوئی حکومت کے منہ پر کالک پوت رہا ہوتا ہے۔ ہم اس کالک اور بجٹ پر تبصروں کا کئی دن سے مطالعہ کررہے ہیں۔ تمام تبصروں میں آئی ایم ایف، عوام کے معاشی گلا گھونٹنے، اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں، حکمرانون کی عیاشیوں، مہنگائی، غربت میں اضافے، قرض، کرپشن، اشرافیہ کی سہولتوں میں اضافے، حکمران طبقے کی تنخواہوں میں اضافے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ظلم وستم کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہیں بھی حتیٰ کہ دینی جماعتوں کے بیش تر تبصروں میں بھی 8200 ارب روپے کے سود کی مد میں ادائیگیوں پر کم ہی لعن طعن کی گئی تھی جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔ سود کوئی چھوٹا گناہ نہیں ہے۔ ایک اسلامی ملک میں جہاں روزانہ پانچ وقت اللہ اکبر کی صدائوں میں مسلمانوں کو فلاح کے راستے کی نشاندہی کی جارہی ہو وہاں حکمران اتنا بڑا گناہ کررہے ہوں اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کررہے ہوں۔ یہ پہلی حکومت نہیں ہے جو ایسا کررہی ہے۔ حکومتیں فوجی ہو یا سویلین سب اس گناہ میں لتھڑی ہوئی ہیں۔
چھوٹے چھوٹے مسائل، فروعی اختلافات پر خوب بحثیں چل رہی ہوتی ہیں فتوی بٹ رہے ہوتے ہیں لیکن اتنے گھنائونے جرم پر کہیں کوئی تحریک نہیں۔ خاموشی ہی خا موشی۔ جیسے سود کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ایسے میں عالمی معاہدوں میں سود کی ادائیگی کی مجبوری کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسلام میں ایسے کسی معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں جو اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی پر مبنی ہو۔ سود کے لیے یہ جواز دینا شرعاً ناجائز ہے۔ اگر ہماری حکومتیں ملک کی معیشت درست کرنا چاہتی ہیں تو اللہ کی آخری کتاب کی اس آیت پر غور کریں کہ ’’جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا میں اس کی معیشت تنگ کردوں گا‘‘۔ (طہ: 124) یہ ممکن نہیں کہ ایک ایسا بجٹ جس میں 47 فی صد اخراجات اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے لیے مختص ہوں وہ ملک وقوم کو فلاح دے سکے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں اضافے حکومت کو حکومت نے فی صد تک پر بھی کے لیے دیا ہے کے بعد گیا ہے
پڑھیں:
بجٹ 2025-26: امیدیں، سوالات اور زمینی حقیقت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جون کا مہینہ پاکستان میں صرف گرمی نہیں، بلکہ مالی تنگی اور بجٹ کی گونج بھی لے کر آتا ہے۔ بجٹ 2025-26 بھی آ گیا، اعداد و شمار بھی سامنے آ گئے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجٹ عوام کے لیے ہے؟ تاجر کے لیے ہے؟ ملازمت پیشہ کے لیے ہے؟ یا صرف قرض خواہوں کے اطمینان کے لیے ہے؟ پاکستانی شہری اور بزنس فورم کراچی کی حیثیت سے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس بجٹ کو زمینی حقیقت کی عینک سے دیکھیں، اور اس کے مثبت و منفی پہلوؤں کو دیانتداری سے عوام تک پہنچائیں۔
عوامی طبقہ: وعدے بہت، ریلیف کم: بجٹ تقریر میں احساس پروگرام، سبسڈی، اور ٹارگٹڈ ریلیف کا ذکر تو ضرور ہے، مگر عوام کی ریلیف فیلڈ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ آٹا، چینی، سبزیاں، گیس، بجلی۔ ہر چیز آج بھی ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ جب پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو صرف گاڑیاں نہیں، زندگی کی ہر ضرورت متاثر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بجٹ سازوں کو بارہا یاد دلانا پڑتی ہے۔
ملازمت پیشہ افراد؛ سفید پوش، سیاہ حالات: نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کی تنخواہیں نہ مہنگائی کے مطابق بڑھتی ہیں، نہ ان کو کوئی ٹیکس ریلیف دیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے معمولی تنخواہ اضافہ ہو بھی جائے، تو نجی اداروں کے ملازمین صرف دعائیں ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ کم از کم ٹیکس فری انکم کی حد 15 لاکھ سالانہ تک کی جائے تاکہ مہنگائی کی مار تھوڑی نرم پڑے۔
کاروباری طبقہ؛ ملک کا پہیہ، لیکن زنجیروں میں جکڑا ہوا: بجٹ میں کاروبار سے جْڑی پالیسیوں کی غیر یقینی کیفیت بدستور جاری ہے۔ کبھی نیا ٹیکس، کبھی ریفنڈ میں تاخیر، کبھی گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ — یہ سب اقدامات کاروبار کی راہ میں رکاوٹ ہیں، نہ کہ ترقی کا زینہ۔ چھوٹے تاجروں کے لیے فکسڈ ٹیکس نظام کو سہل اور شفاف بنایا جائے، اور SME سیکٹر کو کم شرح پر قرضے فراہم کیے جائیں، تاکہ چھوٹا کاروبار سانس لے سکے۔
برآمدات، سرمایہ کاری، اور اصلاحات کہاں ہیں؟ یہ بجٹ برآمدات بڑھانے کے کسی جامع پلان سے خالی ہے۔ جب تک ایکسپورٹرز کو خام مال، توانائی، اور ریفنڈ کی فوری سہولت نہ دی جائے، تب تک ہم صرف دعاؤں پر ہی کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سنوارنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی سازگار ماحول کا کوئی واضح خاکہ اس بجٹ میں نظر نہیں آتا۔ اعتماد، پالیسی کا تسلسل اور ریگولیٹری سادگی ہی سرمایہ کاری کھینچ سکتی ہے، نہ کہ خالی نعرے۔
پاکستان بزنس فورم کی تجاویز: ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ: 1۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ کم کیا جائے، 2۔ چھوٹے کاروبار کے لیے فکسڈ ٹیکس نظام سہل بنایا جائے، 3۔ برآمدی شعبے کو فوری ریلیف دیا جائے، 4۔ یوٹیلیٹی بلز میں غریب طبقے کے لیے حقیقی سبسڈی دی جائے۔ 5۔ بیروزگاری کم کرنے کے لیے SME سیکٹر کو فروغ دیا جائے، 6۔ بجٹ اعداد و شمار کے جادو کے بجائے عام آدمی کی زندگی میں بہتری لائے۔
اختتامیہ: یہ بجٹ ایک موقع تھا کہ حکومت عوام کا اعتماد بحال کرے۔ لیکن اعتماد صرف وعدوں سے نہیں، عملی اقدامات سے ملتا ہے۔ پاکستان بزنس فورم کراچی، تاجر، ملازم، اور عام شہری کے ساتھ کھڑا ہے، اور ہم ہر سطح پر اصلاحات، انصاف اور آسانی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔