اسرائیل کے خلاف صرف عسکری جہاد کافی نہیں!
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اب ضرورت ہے کہ تمام مسلمان اسرائیل کے ساتھ جنگ کو صرف فوجی جنگ تک محدود نہ سمجھیں بلکہ اس جنگ کو ایک عالمگیر اصول کے طور پر اپنا لیں۔ اب پوری دنیا کے مسلمانوں کو امریکی کولا، برطانوی میک اپ اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس جنگ کو امریکہ و برطانیہ اور اسرائیل کے خلاف اقتصادی جنگ میدان میں تبدیل کرنا چاہیئے۔ ایران کے جذبے، جرات اور شہادتوں کو سلام، لیکن اب اس جنگ کو اقتصادی جہاد کے طور پر لڑنا یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم یہ نہیں سمجھتے کہ آج کے دور میں اقتصادی جنگ عسکری و فوجی جنگ سے کئی گنا بڑھ کر موثر ہے۔ یہ وقت ہے کہ ایران کے ساتھ الجھے ہوئے امریکہ و فرانس اور اسرائیل کو ایک بروقت اقتصادی دھچکا لگے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
ایران کے جوابی حملے طوفانِ نوح کی طرح اسرائیل کا سارا غرور و تکبر بہا کر لے گئے ہیں۔ حیفا کی تیل ریفائنری سے اٹھتے دھوئیں کو ساری دنیا نے دیکھا۔ چشمِ فلک نے اسرائیل کی فضاوں میں ایرانی طیاروں کی پروازں کا نظارہ بھی کیا۔ دمِ تحریر اسرائیل کے "ناقابل تسخیر" ہونے کے گھمنڈ کے ٹوٹنے اور اسرائیل کے چٹخنے کی آوازیں ساری دنیا وقفے وقفے سے سُن رہی ہے۔ اسرائیل میں بجلی کے گرڈ اسٹیشنز تباہ ہونے کے بعد پھیلنے والی خوشی سے ہر فلسطینی کا سینہ ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ یقیناً قساریہ میں لرزتی ہوئی صہیونی قیادت یہ سوچ رہی ہوگی کہ ستاون مسلم ملکوں سمیت پورا سعودی بلاک اور ترکی جیسا اقتصادی پارٹنر کہاں مر کھپ گیا ہے۔؟ نیتن یاہو کو اس وقت جتنی امید سعودی بلاک اور ترکی سے ہے، اتنی امریکہ و برطانیہ سے بھی نہیں۔
فلسطین کیلئے ایران نے ماضی میں بھی بہت قربانیاں دیں اور اس وقت بھی دے رہا ہے۔ یہ انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت اسرائیل کے خلاف جنگ صرف ایرانی میزائلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ دنیا کا ہر مسلمان اس میں دل و جان سے شریک ہوگیا ہے۔ یہ جنگ اگر مزید طول پکڑے گی تو اسرائیلی اندازے مزید غلط ثابت ہوتے جائیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنی قربانیوں اور شہادتوں کے بعد ایران کے میزائلوں نے صہیونی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ جب حیفا کا اسٹریٹجک آئل ڈپو تباہ ہوا، جب شمالی اسرائیل میں 35 سے زائد افراد لاپتہ ہوئے، تو دنیا نے دیکھ لیا کہ امریکی و برطانوی حمایت کے باوجود صہیونی ریاست کتنی غیر محفوظ ہے۔ ایران نے صبر اور تدبیر کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے یہ منوا لیا ہے کہ خدا پر توکل کرکے ظلم کے خلاف مزاحمت کا عزم رکھنے والے کبھی تنہا نہیں ہوتے۔
اب ضرورت ہے کہ تمام مسلمان اسرائیل کے ساتھ جنگ کو صرف فوجی جنگ تک محدود نہ سمجھیں بلکہ اس جنگ کو ایک عالمگیر اصول کے طور پر اپنا لیں۔ اب پوری دنیا کے مسلمانوں کو امریکی کولا، برطانوی میک اپ اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس جنگ کو امریکہ و برطانیہ اور اسرائیل کے خلاف اقتصادی جنگ میدان میں تبدیل کرنا چاہیئے۔ ایران کے جذبے، جرات اور شہادتوں کو سلام، لیکن اب اس جنگ کو اقتصادی جہاد کے طور پر لڑنا یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم یہ نہیں سمجھتے کہ آج کے دور میں اقتصادی جنگ عسکری و فوجی جنگ سے کئی گنا بڑھ کر موثر ہے۔ یہ وقت ہے کہ ایران کے ساتھ الجھے ہوئے امریکہ و فرانس اور اسرائیل کو ایک بروقت اقتصادی دھچکا لگے۔
ہمیں فلسطین کو آزاد کرانے کیلئے انتہائی سادہ زندگی کو اپنانا ہوگا، حتی کہ کفار کے لذیذ مشروبات اور غذاوں کے بجائے نمک اور مرچ پر گزارا کرنا ہوگا۔ ہمارے سامنے ایران نے کتنی زیادہ اقتصادی پابندیاں برداشت کی ہیں، اب ہمیں خود ہی اپنے اوپر یہ پابندی لگانی ہوگی کہ ہم کوَئی استعماری پروڈکٹ نہیں خریدیں گے۔ ہمارا عوامی و قومی عزم دنیا کی سُپر طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ حقیقی طاقت بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہوتی ہے۔ کیا ہم میک ڈونلڈز کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔؟ کیا ہم کے ایف سے کے بغیر مر جائیں گے۔؟ یقین جانئے ہم تو نہیں مریں گے لیکن غزہ کے معصوم بچوں کی زندگیوں کو بچا سکیں گے۔ ہمارے بازاروں میں امریکی، برطانوی و صہیونی مصنوعات کی خرید و فروخت ہی فلسطینیوں کی غلامی کا سبب ہے۔ ہمیں یہ شعور کب آئے گا کہ جب ہم اپنے دشمنوں کی مصنوعات خریدتے ہیں، تو درحقیقت ہم انہیں اپنے ہی خلاف مضبوط کر رہے ہوتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص فلسطین کیلئے بہت کچھ کرسکتا ہے، جیسے امریکی فاسٹ فوڈ چینز سے چھٹکارا، برطانوی لگژری برانڈز سے پرہیز، اسرائیلی ٹیکنالوجی کے متبادل کی تلاش، مقامی مصنوعات کو ترجیح دینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بظاہر چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں، لیکن درحقیقت ان کے نتائج بہت بڑے بڑے ہیں۔ ایران نے جو جہاد کیا ہے، وہ تب مطلوبہ نتائج دے گا کہ جب ہم میں سے ہر شخص اسرائیل پر اپنی بساط کے مطابق وار کرے گا۔ ہمارا پیسہ اور ہماری قوّتِ خرید ہماری طاقت ہے اور اس طاقت کو استعماری طاقتوں کے خلاف استعمال کرنا ہی ہمارا جہاد ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے خلاف اگر ہم اور کچھ بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم اقتصادی بائیکاٹ کو ہی ایک مشترکہ حکمت عملی کے طور پر اپنائیں۔ ایک طرف ایران تن تنہاء خطے کے استعماری پنجوں سے ٹکرا رہا ہے، تو دوسری طرف اربوں مسلمان اپنی ذمہ داری سے غافل نظر آتے ہیں۔ گویا وہ جانتے ہی نہیں کہ آج کے زمانے میں اقتصادی مزاحمت سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔
یہ بائیکاٹ عالمی طاقتوں کو یہ احساس دلائے گا کہ اخلاقی و انسانی اقدار کو پامال کرنے والے ممالک کی معیشتیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ جب مسلمان ایک بڑی اکثریت کے طور پر ان طاقتور ممالک کی مصنوعات اور خدمات کو مسترد کریں گے تو یہ ان ممالک کی معیشتوں اور پالیسیوں کیلئے ایک بڑا چیلنج اور معاشی دباو بن جائے گا۔ یہ معاشی دباؤ ان طاقتور ریاستوں کو اس بات کا قائل کرے گا کہ اقتصادی تعلقات صرف سود اور نقصان کا معاملہ نہیں ہیں، بلکہ ان کا تعلق عالمی اخلاقی ضمیر سے بھی ہے۔ پھر انہیں سمجھ آئے گی کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت، اخلاقی قوت ہے، نہ کہ صرف مالی وسائل۔ پھر وہ اپنے غیر انسانی اور ظالمانہ سیاسی فیصلوں پر نظرثانی کرنے پر تیار ہونگے۔ جیسے ایک دریا اپنے راستے میں آنے والی چٹانوں کو موم کی طرح پگھلا دیتا ہے، ویسے ہی اقتصادی بائیکاٹ طاقتور ممالک کو نرم کرکے اپنے فیصلوں پر غور کرنے کے لیے مجبور کر دیتا ہے۔
اس بائیکاٹ کے ذریعے، اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ میں سرمایہ کاری کی روانی سست پڑ جائے گی، کیونکہ عالمی سرمایہ کاروں کو بھی اس دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر مسلمان اپنے دشمنوں کے خلاف اپنا اقتصادی دباو نہیں بنائیں گے تو استعماری ممالک کو کیسے یہ بات سمجھ آئے گی کہ ریاستوں کی ذمہ داری صرف معیشت کا ارتقا نہیں بلکہ انسانیت اور انسانی اصولوں کی بقا بھی ہے۔ یوں یہ بائیکاٹ اقتصادی میدان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ ساری دنیا کے مظلوم انسانوں کیلئے ایک اخلاقی، سیاسی اور سماجی پیغام بھی بن جائے گا۔ آخر میں ایک جملہ اُن لوگوں کیلئے بھی لکھتا چلوں کہ جنہیں ایران سے خدا واسطے کا بیر ہے، ایسے لوگ یاد رکھیں کہ جو شخص ٹھیک نقشے پر نہیں چلتا، وہ کسی دوسرےکا نقصان نہیں کرتا بلکہ خود اپنا ہی راستہ گُم کر دیتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کے خلاف اور اسرائیل کے کے طور پر اس جنگ کو ایران نے فوجی جنگ تک محدود ایران کے کے ساتھ کیا ہم اور اس کو ایک
پڑھیں:
امت مسلمہ کی نجات کا واحد راستہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے، قائد انصاراللہ یمن
یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے خبردار کرتے ہوئے کہ مستقبل قریب میں دشمن سے بھرپور جنگ شروع ہونے کا امکان پایا جاتا ہے کہا کہ خدا کی مرضی سے ماضی کی طرح آئندہ بھی فتح سے ہمکنار ہوں گے۔ اسلام ٹائمز۔ انصاراللہ یمن کے قائد سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے ہفتہ شہادت کی مناسبت سے تقریر کرتے ہوئے شہید اور شہادت کے مفہوم کا اعلی مقام بیان کیا اور خطے کے تازہ ترین حالات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے تقریر کے شروع میں کہا: "شہداء کی برسی کا آغاز کرتے ہیں اور اس سلسلے میں منعقد ہونے والے پروگرام ایک ہفتے تک جاری رہیں گے۔ شہداء کے تمام عزیزوں پر درود بھیجتے ہیں اور پورے احترام سے ان کی یاد مناتے ہیں۔" سید عبدالملک الحوثی نے کہا: "شہادت ایک منفرد مقام ہے اور خداوند اسے ایسے انسانوں کو عطا کرتا ہے جو اس کے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں۔ خدا کی راہ میں شہادت میں کوئی نقصان نہیں ہوتا اور خدا شہداء کو ایسا اجر عطا فرماتا ہے جو دنیوی زندگی سے برتر ہے۔ شہداء کا عظیم مقام ان کے اہلخانہ کے دلوں کے لیے تسلی بخش ہوتا ہے اور خدا کی راہ میں جہاد کے لیے دیگر انسانوں کو بھی جذبہ عطا کرتا ہے۔ شہادت ایک عظیم اور ایمانی مرتبہ ہے جس تک انسان خدا کی راہ میں ایثار اور قربانی کے ذریعے پہنچتا ہے۔ شہادت زندگی کی ثقافت کا متبادل نہیں ہے بلکہ بذات خود حقیقی زندگی کی ثقافت ہے۔"
شہادت سے روگردانی کا نتیجہ دشمن کے سامنے جھک جانا ہے
انصاراللہ یمن کے قائد سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے شہادت پر مبنی ثقافت کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کی وضاحت دیتے ہوئے کہا: "امت مسلمہ جو خدا کی راہ میں جہاد کے جذبے اور شہادت کی طلب کے ذریعے متحرک ہے، عزت حاصل کرتی ہے اور درپیش خطرات کو دور کرتی ہے۔ شہادت درست اس کوشش کے مقابلے میں ہے جو امت مسلمہ کو دشمن کے سامنے جھکا دینے اور رام کر دینے کے لیے انجام پا رہی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ میں جب بھی خدا کی راہ میں شہادت سے روگردانی کی گئی ہے تو اس کا نتیجہ امت مسلمہ کا عظیم مصیبتوں میں گرفتار ہو جانے اور کروڑوں مسلمانوں کا دشمن کے سامنے جھک جانے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ میں بے شمار المیے واقع ہوئے ہیں اور پرانے زمانے سے لے کر استعماری زمانے اور آج تک جب بھی امت مسلمہ نے جنگ اور مزاحمت ترک کی ہے اس کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ امریکیوں نے اس سال خود اعتراف کیا ہے کہ گذشتہ بیس سال کے دوران انہوں نے تقریباً 30 لاکھ انسانوں کو قتل کیا ہے جس کا بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا۔"
دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنا اس کے شر کو ختم نہیں کرے گا
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے خدا کی راہ میں جہاد کی اہمیت اور امت مسلمہ کے دشمنوں کے سامنے ڈٹ جانے کی ضرورت کے بارے میں کہا: "ہم ہمیشہ سے نشانہ بنتے آئے ہیں چاہے یہ ہماری مرضی کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ کوئی بھی ہمارا دفاع نہیں کرتا اور ہم صرف خدا کی راہ میں جہاد کے ذریعے ہی اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک دینا یا اس سے سازباز کر لینا ہمیں دشمنوں کے شر سے محفوظ نہیں بنا سکتا۔ خدا کی راہ میں جہاد ہم پر مقدس فریضہ ہے۔ اس وقت ہمارے بدترین دشمن یہودی ہیں۔" سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات نیز جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "غاصب صیہونی رژیم نے حتی جنگ بندی کے بعد بھی غزہ میں قتل و غارت اور جارحیت ترک نہیں کی ہے اور وہ جنگ بندی معاہدے کا بالکل پابند نہیں ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "امریکہ جس نے جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری اٹھا رکھی تھی اس وقت صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات میں برابر کا شریک ہے جبکہ دیگر ثالث ممالک بھی اسرائیل کے سامنے عاجز اور ناتوان ہیں۔"