شام میں 1500 سال پرانا پُراسرار مقبرہ دریافت
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام کے ایک ٹھیکے دار نے منہدم گھر کے ملبے کو صاف کرتے ہوئے بازنطینی دور کا تاریخی مقبرہ دریافت کر لیا۔
1500 سال پرانے یہ کھنڈرات شامی صوبے ادلب کے ایک مقام معرۃ النعمان میں پائے گئے ہیں۔
گزشتہ دسمبر میں بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے بعد سے وہاں کے رہائشی علاقوں کی تعمیرِ نو کر رہے ہیں۔
تعمیرِ نو کے منصوبے کے دوران ہونے والی دریافت کے بعد مقامیوں نے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا جنہوں نے بعد ازاں جگہ کو محفوظ بنانے اور اس کی جانچ کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم بھیجی۔
کمپلیکس کی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مخدوش عمارت کےساتھ ایک گڑھا ہے جو نیچے کی جانب دو خانوں کے دروازوں تک جاتا ہے جہاں ہر خانے میں چھ قبریں ہیں اور ایک ستون پر صلیب کا نشان بنا ہوا ہے۔
ادلب میں انٹیکیٹیز کے ڈائریکٹر حسن الاسماعیل کا کہنا تھا کہ موقع سے دریافت شدہ صلیب اور برتن اور شیشے کے ٹکڑے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ بازنطینی دور کا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔