Express News:
2025-09-18@21:29:03 GMT

سچا جھوٹ اور جھوٹا سچ

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

یہ اصطلاح شاید آپ کو کچھ عجیب لگے۔لیکن ملاوٹ کا زمانہ ہے ایسی کوئی چیز کہیں بھی نہیں بچی ہے جو خالص ہو اور ملاوٹ سے بچی ہوئی ہو۔بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ ملاوٹ نے بھی بہت ترقی کرلی، اگلے زمانوں میں اکثر ملاوٹ ’’ٹو ان ون‘‘ ہوتی تھی یعنی کسی ایک چیز میں دوسری چیز ملائی جاتی تھی۔جیسے دودھ میں پانی یا پانی میں دودھ لیکن اب ایک چیز کے ساتھ بہت ساری چیزیں ملی ہوئی ہوتی ہیں مثلاً آپ کسی کو دیکھ کر آدمی سمجھیں گے جب کہ اس کے اندر بے شمار درندے، چرندے اور پرندے بھی چھپے ہوتے ہیں جسے وہ ’’مواقع‘‘ دیکھ کر خلق خدا پر چھوڑتا رہتا ہے۔

آپ کسی کو لیڈر یا رہنما سمجھیں گے اور اس کے اندر ڈاکو، لٹیرے،  جیب کترے اور نہ جانے کیا کیا کچھ گھات لگائے بیٹھے ہوں گے۔آپ کسی کو افسر سمجھیں گے اور اس کے اندر لیڈر، تاجر اور دانا دانشور کھلبلارہے ہوں گے۔آپ کسی کو بہت ہی نیک پارسا اور دیندار سمجھتے ہوں اور اس کے اندر باقاعدہ دینی سوداگر،صنعت کار اور بلیک میلر دبکے ہوں گے۔

ہمارے اپنے کالم نگاروں میں پورا یونان سمایا ہوا ہوتا ہے جن کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے اور قیمتی مشوروں کا ایک بہت بڑا زنبیل لیکن افسوس کہ آج کل لوگ بڑے’’نہ مانوں‘‘ہوگئے ہیں ورنہ اگر صرف اردو کالم نگاروں کے مشورے مانتے تو یہ دنیا پیراڈائز ہوچکی ہوتی، مطلب یہ کہ ملاوٹ کے اس زمانے میں جھوٹ یا سچ خالص کیسے ہوسکتا ہے۔بلکہ عرصہ ہوا ہم نے ان دونوں چچازادوں جھوٹ اور سچ کی لباس بدلی کی کہانی سنائی بھی تھی کہ دونوں روزگار کی تلاش میں اپنے گاؤں سے شہر کی طرف چل پڑے۔شہر کا نام ہم نہیں بتائیں گے۔کیوں کہ وہاں اب مذہب بھی آباد ہوگیا ہے، راستے میں ایک تالاب کو دیکھ کر جھوٹ نے سچ سے کہا، چلو اس تالاب میں نہاتے ہیں، دونوں نے اپنے کپڑے کنارے پر اتارے اور تالاب میں کود گئے، نہاتے تیرتے رہے، ڈبکیاں لگاتے رہے۔

تھوڑی دیر بعد سچ نے دیکھا کہ جھوٹ نظر نہیں آرہا ہے۔سوچا ڈبکی لگائی ہوگی لیکن کافی دیر تک نظر نہیں آیا تو سچ کو تشویش ہوئی کہ کہیں ڈوب نہ گیا ہو۔بیچارا سچ تھا اس لیے اسے معلوم نہیں تھا کہ جھوٹ ڈوبنے والوں میں سے نہیں ڈبونے والوں میں سے ہے۔کنارے پر نظر گئی تو یہ دیکھ کر دھک سا ہوگیا کہ جھوٹ کے کپڑے پڑے ہیں، اس کے اپنے کپڑے غائب ہیں، سمجھ گیا کہ جھوٹ ہاتھ کرگیا، مجبوری میں جھوٹ کے کپڑے پہن لیے اور چل پڑا تو ہر طرف پھٹکار ہونے لگی پتھر مارے جانے لگے۔

گالیاں اور کوسنے سنائی دینے لگے۔جب کہ جھوٹ نے سچ کے لباس میں شہر پہنچ کر انٹری دی تو زبردست پزیرائی ہوئی، لوگوں نے گلے لگایا ہار پہنائے پھول برسائے۔اور سب نے اپنایا،کئی باعزت روزگار پیش کیے گئے، آخر کار ترقی کرتے پورے ملک کا حکمران بن گیا، جب کہ بیچارا سچ جنگلوں، بیانوں میں چھپ کر رہتا تھا ذرا بھی باہر نکلتا تو پتھر برسنے لگتے ہیں۔بات اگر یہاں تک ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا کہ کبھی نہ کبھی، ، کوئی نہ کوئی بدلے ہوئے لباس کے باوجود دونوں کو پہچان لیتا کیونکہ سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، کسی کسی کی بصارت اور بصیرت تیز بھی تو ہوتی ہے کہ

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش

من انداز قدت رامی شناسم

لیکن اب تو بات جعل اور نقل تک آگئی ہے، دودھ میں نہ پانی ملایا جاتا نہ پانی میں دودھ۔بلکہ باقاعدہ اور براہ راست دودھ بنایا جاتا ہے اور بھی بہت ساری چیزیں بنائی جاتی ہیں یہاں تک کہ پروفیسر، علامے، ڈاکٹر، بیرسٹر اور معاون خصوصی تک بنائے جاتے ہیں جو اطلاعات اور بیانات بناتے ہیں بلکہ ’’پیدا‘‘ کرتے ہیں۔

عربی میں ’’جعل‘‘ کا لفظ ’’بنانے‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور’’پیدا‘‘ کرنے کے لیے ’’خلق‘‘ بولا جاتا ہے جیسے لکڑی، لوہا، پتھر، پانی، اوزار، مکان اور مشروبات بنائے جاتے ہیں یا جیسے گندم اور گنا پیدا ہوتے ہیں لیکن ان سے آٹا سوجی میدہ اور آگے بہت سی چیزیں بنائی جاتی ہیں، گندم سے چینی اور چینی سے آگے بے شمار مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔آدمی بھی’’پیدا‘‘ ہوتے ہیں لیکن آگے امیر غریب، عالم جاہل، لیڈر، وزیر اور مشیر وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ دودھ بنانے کا تو میں نے کہہ دیا ہے سنا ہے چین والوں نے انڈے بھی’’بنا‘‘ لیے ہیں ممکن ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ان سے چوزے بھی نکالیں بلکہ چوزے اور مرغا مرغی بھی بنالیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

اور یہ جو ربوٹوں کا سلسلہ ہے نہ جانے کہاں جاکر رکے گا اور ہاں مصنوعی ذہانت؟۔ویسے پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں وزیر، مشیر اور معاون تو بنانے لگا ہے۔آگے آْگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔اور یہ لوگ جو بیانات سے لوگوں کو بناتے ہیں وہ بھی تو بنانا ہے جو تقریباً پیدا کرنے کے برابر ہے، اسے اگلے زمانوں میں ’’مایاوی‘‘ کہا جاتا تھا۔جو چیز سامنے ہوتی وہ ہوتی ہی نہیں تھی۔

اس موقع پر مجھے اپنے گاؤں کا ایک دیوانہ یاد آجاتا ہے جو ہوا میں بہت کچھ دیکھ کر لوگوں کو بھی دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ایک دن میرے پاس آکر بولا، اپنے بھائی کو سمجھا دو کہ مجھ سے باز آجائے ورنہ ایک دن بم سے اڑاکر رکھ دوں یہ دیکھو یہ بم۔ماروں گا تو چیتھڑے اڑاکر رکھ دوں گا۔کیا کیا ہے اس نے؟میں نے پوچھا۔بولا رات میری دونوں ٹانگیں کاٹ کر لے گیا ہے، کہدو واپس کرے ورنہ۔اس نے بم دکھایا۔میں نے کہا ٹانگیں تو تمہاری یہ موجود ہیں بولا یہ تو میرے بھائی کی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس کے اندر ا پ کسی کو ہوتا ہے دیکھ کر کہ جھوٹ لیکن ا ا جاتا

پڑھیں:

اداریے کے بغیر اخبار؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-7

 

شاہنواز فاروقی

کیا دنیا میں انسان کا تصور روح کے بغیر کیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی انسان دل کے بغیر انسان کہلا سکتا ہے؟ کیا کوئی انسان دماغ کے بغیر انسان کہلانے کا مستحق ہے؟ کیا دنیا میں کوئی انسان ایسا ہوگا جس کا کوئی موقف ہی نہ ہو جس کا کوئی تناظر ہی نہ ہو، جس کا کوئی ردعمل ہی نہ ہو؟ جیسا کہ ظاہر ہے ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ یہ مثال صرف انسان کے لیے نہیں اخبار کے لیے بھی صحیح ہے۔ اخبار کا اداریہ اخبار کی روح ہے۔ اخبار کا دل ہے۔ اخبار کا دماغ ہے۔ اخبار کا موقف ہے۔ اخبار کا تناظر ہے۔ اخبار کا ردعمل ہے۔ چنانچہ اخبار کا تصور اداریے کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر بدقسمتی سے ملک کے سب سے بڑے اخبار روزنامہ جنگ نے اداریہ شائع کرنا بند کردیا ہے۔ اخبار کے مالکان نے اس سلسلے میں قارئین کے سامنے اداریہ ترک کرنے کی وجوہات بھی نہیں رکھیں۔

ایک زمانہ تھا کہ اخبارات اپنے اداریوں سے پہچانے جاتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کامریڈ کا اداریہ لکھتے تھے اور جب انہیں انگریزوں سے کوئی بات منوانی ہوتی تھی تو وہ کہا کرتے تھے کہ میری بات مان لو ورنہ میں انگریزوں کے خلاف اداریہ لکھ دوں گا۔ ایک دنیا کامریڈ کے اداریوں کی دیوانی تھی، عہد ِ حاضر میں روزنامہ جسارت نے اداریے کی حرمت کو نباہ کر دکھایا۔ 1970ء کی دہائی میں جسارت پاکستان کا واحد اخبار تھا جس نے اپنے اداریوں میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت کی۔ جسارت نے اپنے اداریوں میں اس بات پر اصرار کیا کہ شیخ مجیب کو انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جانا چاہیے۔ جسارت نے اپنے اداریوں میں واضح کیا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے حل کو سیاسی ہونا چاہیے، عسکری نہیں۔ یہ اداریے جسارت کے مدیر عبدالکریم عابد صاحب لکھا کرتے تھے۔ جسارت کے سوا پاکستان کے تمام اخبارات اور ان کے اداریے جنرل یحییٰ کے فوجی آپریشن کی حمایت کررہے تھے۔ یہاں تک کہ اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسین قریشی فرما رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کے لیے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ جسارت نے بھٹو گردی کے زمانے میں

بھی اداریے کی حرمت کو پوری طرح بحال رکھا۔ جسارت نے ڈٹ کر اپنے اداریوں میں بھٹو کی فسطائیت کی مزاحمت کی۔ چنانچہ بھٹو نے جسارت کے اداریوں میں موجود شعور سے گھبرا کر جسارت ہی کو بند کردیا۔ کراچی میں الطاف گردی اور ایم کیو ایم گردی کی تاریخ 30 برسوں پر محیط ہے۔ ان برسوں میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خوف کا یہ عالم تھا کہ کراچی کے اخبارات کیا لاہور کے اخبارات میں بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف ایک لفظ بھی شائع نہیں ہوتا تھا۔ اس عرصے کے آٹھ دس سال ایسے تھے جب ہمیں جسارت کے اداریے لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ چنانچہ ہم نے اپنے اداریوں میں کھل کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر تنقید کی۔ ایم کیو ایم ہر دوسرے تیسرے دن دھمکی دیتی تھی کہ وہ جسارت کے دفتر کو بم سے اُڑا دے گی۔ مگر جسارت حق و صداقت کا پرچم بلند کیے کھڑا رہا۔ یہ عرصہ اتنا خوف ناک تھا کہ ملک کے ممتاز صحافی ارشاد احمد حقانی لاہور میں رہتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا آپ سب کے خلاف لکھتے ہیں مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کچھ نہیں لکھتے۔ کہنے لگے بھائی میں نے سنا ہے الطاف حسین اپنے خلاف لکھنے والوں کو مروا دیتا ہے۔ کراچی سے ایک ہزار کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے صحافی کے خوف کا یہ عالم تھا مگر جسارت پوری بے خوفی کے ساتھ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کے آگے ڈٹا رہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

روزنامہ جنگ ملک کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ بڑے اداروں کی ذمے داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں مگر روزنامہ جنگ نے کبھی ذمے داری کے حوالے سے بڑا بن کر نہیں دکھایا۔ روزنامہ جنگ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس نے کبھی ملک میں فوجی آمریت کی مزاحمت نہیں کی۔ مزاحمت تو دور کی بات ہے کبھی کسی فوجی آمر کے خلاف ایک لفظ بھی شائع نہیں کیا۔ راویانِ روایت کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لا اُٹھایا تو جنگ کے مالک میر خلیل الرحمن نے ایک پریس کانفرنس میں جنرل ایوب سے کہا کہ آپ نے مارشل لا اٹھا کر اچھا نہیں کیا۔ جنرل ایوب نے کہا آپ جنگ کے اداریے میں مارشل لا کی حمایت کردیجیے میں پھر سے مارشل لا لگادوں گا۔ جنرل ضیا الحق تقریباً گیارہ سال ملک پر مسلط رہے، جنگ سمیت پاکستان کے تمام اخبارات نے کبھی جنرل ضیا الحق سے اختلاف رائے کا اظہار نہیں کیا۔ بالخصوص اپنے اداریوں میں۔ بلاشبہ جنگ نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایک خاص مرحلے پر ایک کردار ادا کیا اور اس کردار کی تعریف کی جانی چاہیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز کے زمانے میں اسٹیبلشمنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا جنرل پرویز کے ساتھ تھا جبکہ دوسرا دھڑا وکلا تحریک اور جنرل کیانی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ میں یہ دھڑے بندی نہ ہوتی تو شاید جنگ اور جیو کبھی اینٹی جنرل پرویز مشرف کردار ادا نہ کرتے۔

روزنامہ جنگ میں اداریے کے خاتمے کی بعض لوگ یہ توجیہ کررہے ہیں کہ فی زمانہ اخبار کا اداریہ سب سے کم پڑھی جانے والی چیز ہے اور یہ بات سو فی صد درست ہے۔ مگر اس میں ایک صنف کی حیثیت سے اداریے کا کوئی قصور نہیں۔ ہم طویل تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں عرض کرتے ہیں کہ آج بھی روزنامہ جسارت اور انگریزی اخبار Daily dawn کے اداریے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسارت اور ڈان کھل کر اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں، امریکا اور یورپ پر تنقید کرتے ہیں۔ چنانچہ ان اخبارات کے اداریوں میں جان ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے اخبارات اپنے اداریوں میں حکمرانوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور وہ ایک ایسی زبان و بیان اختیار کرتے ہیں جس میں کوئی گہرائی، معنویت اور دلکشی نہیں ہوتی۔ چنانچہ جسارت اور ڈان کے سوا کسی اخبار کا اداریہ قاری کو اپنی جانب متوجہ نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر قارئین اداریہ کیوں پڑھیں؟ جنگ اپنے اداریہ نویسوں کو تمام بالادست طبقات پر تنقید کی آزادی دے۔ اگر صرف 6 ماہ میں جنگ کے اداریے اخبار کی جان نہ بن جائیں تو ہمارا نام بدل دیجیے گا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ صحافت کبھی ’’مشن‘‘ تھی مگر اب ’’کاروبار‘‘ بن گئی ہے۔ یہ بات درست ہے مگر اصل مسئلہ صحافت کا نہیں صحافت کرنے والوں کا ہے۔ انسان، انسان ہو تو وہ کاروبار کو بھی مشن بنالیتا ہے۔ ورنہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تو مشن کو کاروبار بنالیتے ہیں۔ کیا ہم اسلام کی تاریخ سے آگاہ نہیں۔ برصغیر میں اسلام فاتحین کے ذریعے نہیں تاجروں کے ذریعے پہنچا۔ عرب دنیا کے جو تاجر برصغیر آئے سب سے پہلے انہوں نے ہندوئوں کو مسلمان بنایا۔ حالانکہ یہ ان کی ’’ذمے داری‘‘ نہیں تھی۔ وہ تاجر تھے اور انہیں خود کو تجارت تک محدود رکھنا چاہیے تھا مگر یہ تاجر ’’صاحب ایمان‘‘ تھے، چنانچہ انہوں نے تجارت کو بھی اسلام پھیلانے کے مشن میں ڈھال لیا۔ اس کے برعکس آج کے مسلمان ہیں جو اسلام کو بھی ’’دکانداری‘‘ میں تبدیل کررہے ہیں۔ چنانچہ اصل چیز صحافیوں اور اخبارات کے مالکان کا ’’ایقان‘‘ یا Conviction ہے۔ روزنامہ جسارت بھی زیادہ اشاعت رکھنے والا اخبار بننا چاہتا ہے مگر اصولوں پر سودے بازی کرکے نہیں اصولوں پر قائم رہ کر۔ ڈیلی ڈان کے مالکان مذہبی نہیں ہیں بلکہ سیکولر ہیں مگر ان کے بھی کچھ ’’اصول‘‘ ہیں۔ ان اصولوں پر وہ کوئی سودے بازی نہیں کرتے۔ چنانچہ جنرل عاصم منیر اور شریف بدمعاشوں کے عہد میں ڈان کو بھی جسارت کی طرح سرکاری اشتہارات نہیں مل رہے، لیکن ڈان اسٹیبلشمنٹ اور شریف بدمعاشوں پر تنقید سے باز نہیں آرہا۔ یہی وہ صحافت ہے جو قوم کے ضمیر اور شعور کی محافظ ہے۔ ایسی صحافت کے دائرے میں اخبار کی خبریں بھی پڑھی جاتی ہیں اور اداریہ بھی۔ چنانچہ نہ جسارت کبھی اپنا اداریہ بند کرے گا نہ ڈان۔ ایک زمانہ تھا کہ بادشاہوں تک کو یہ خیال ہوتا تھا کہ انہیں تاریخ میں کس طرح یاد رکھا جائے گا مگر اب اخبارات تک کے مالکان کو یہ فکر دامن گیر نہیں ہے کہ انہیں تاریخ کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ چنانچہ وہ تاریخ کے فیصلے سے قطع نظر کرتے ہوئے اپنے اخبارات کو اداریوں سے پاک کررہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
  • اداریے کے بغیر اخبار؟
  • ایچ پی وی ویکسین مہم پر جھوٹا پروپیگنڈا، وائرل ویڈیو گمراہ کن قرار
  • لازوال عشق
  • ایچ پی وی ویکسین کے خلاف پراپیگنڈا سراسر جھوٹ ہے: مصطفی کمال  
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد شرمندگی اور خفت مٹانے کا طریقہ ہے: عطا تارڑ
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage