Express News:
2025-06-17@02:27:55 GMT

سچا جھوٹ اور جھوٹا سچ

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

یہ اصطلاح شاید آپ کو کچھ عجیب لگے۔لیکن ملاوٹ کا زمانہ ہے ایسی کوئی چیز کہیں بھی نہیں بچی ہے جو خالص ہو اور ملاوٹ سے بچی ہوئی ہو۔بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ ملاوٹ نے بھی بہت ترقی کرلی، اگلے زمانوں میں اکثر ملاوٹ ’’ٹو ان ون‘‘ ہوتی تھی یعنی کسی ایک چیز میں دوسری چیز ملائی جاتی تھی۔جیسے دودھ میں پانی یا پانی میں دودھ لیکن اب ایک چیز کے ساتھ بہت ساری چیزیں ملی ہوئی ہوتی ہیں مثلاً آپ کسی کو دیکھ کر آدمی سمجھیں گے جب کہ اس کے اندر بے شمار درندے، چرندے اور پرندے بھی چھپے ہوتے ہیں جسے وہ ’’مواقع‘‘ دیکھ کر خلق خدا پر چھوڑتا رہتا ہے۔

آپ کسی کو لیڈر یا رہنما سمجھیں گے اور اس کے اندر ڈاکو، لٹیرے،  جیب کترے اور نہ جانے کیا کیا کچھ گھات لگائے بیٹھے ہوں گے۔آپ کسی کو افسر سمجھیں گے اور اس کے اندر لیڈر، تاجر اور دانا دانشور کھلبلارہے ہوں گے۔آپ کسی کو بہت ہی نیک پارسا اور دیندار سمجھتے ہوں اور اس کے اندر باقاعدہ دینی سوداگر،صنعت کار اور بلیک میلر دبکے ہوں گے۔

ہمارے اپنے کالم نگاروں میں پورا یونان سمایا ہوا ہوتا ہے جن کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے اور قیمتی مشوروں کا ایک بہت بڑا زنبیل لیکن افسوس کہ آج کل لوگ بڑے’’نہ مانوں‘‘ہوگئے ہیں ورنہ اگر صرف اردو کالم نگاروں کے مشورے مانتے تو یہ دنیا پیراڈائز ہوچکی ہوتی، مطلب یہ کہ ملاوٹ کے اس زمانے میں جھوٹ یا سچ خالص کیسے ہوسکتا ہے۔بلکہ عرصہ ہوا ہم نے ان دونوں چچازادوں جھوٹ اور سچ کی لباس بدلی کی کہانی سنائی بھی تھی کہ دونوں روزگار کی تلاش میں اپنے گاؤں سے شہر کی طرف چل پڑے۔شہر کا نام ہم نہیں بتائیں گے۔کیوں کہ وہاں اب مذہب بھی آباد ہوگیا ہے، راستے میں ایک تالاب کو دیکھ کر جھوٹ نے سچ سے کہا، چلو اس تالاب میں نہاتے ہیں، دونوں نے اپنے کپڑے کنارے پر اتارے اور تالاب میں کود گئے، نہاتے تیرتے رہے، ڈبکیاں لگاتے رہے۔

تھوڑی دیر بعد سچ نے دیکھا کہ جھوٹ نظر نہیں آرہا ہے۔سوچا ڈبکی لگائی ہوگی لیکن کافی دیر تک نظر نہیں آیا تو سچ کو تشویش ہوئی کہ کہیں ڈوب نہ گیا ہو۔بیچارا سچ تھا اس لیے اسے معلوم نہیں تھا کہ جھوٹ ڈوبنے والوں میں سے نہیں ڈبونے والوں میں سے ہے۔کنارے پر نظر گئی تو یہ دیکھ کر دھک سا ہوگیا کہ جھوٹ کے کپڑے پڑے ہیں، اس کے اپنے کپڑے غائب ہیں، سمجھ گیا کہ جھوٹ ہاتھ کرگیا، مجبوری میں جھوٹ کے کپڑے پہن لیے اور چل پڑا تو ہر طرف پھٹکار ہونے لگی پتھر مارے جانے لگے۔

گالیاں اور کوسنے سنائی دینے لگے۔جب کہ جھوٹ نے سچ کے لباس میں شہر پہنچ کر انٹری دی تو زبردست پزیرائی ہوئی، لوگوں نے گلے لگایا ہار پہنائے پھول برسائے۔اور سب نے اپنایا،کئی باعزت روزگار پیش کیے گئے، آخر کار ترقی کرتے پورے ملک کا حکمران بن گیا، جب کہ بیچارا سچ جنگلوں، بیانوں میں چھپ کر رہتا تھا ذرا بھی باہر نکلتا تو پتھر برسنے لگتے ہیں۔بات اگر یہاں تک ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا کہ کبھی نہ کبھی، ، کوئی نہ کوئی بدلے ہوئے لباس کے باوجود دونوں کو پہچان لیتا کیونکہ سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، کسی کسی کی بصارت اور بصیرت تیز بھی تو ہوتی ہے کہ

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش

من انداز قدت رامی شناسم

لیکن اب تو بات جعل اور نقل تک آگئی ہے، دودھ میں نہ پانی ملایا جاتا نہ پانی میں دودھ۔بلکہ باقاعدہ اور براہ راست دودھ بنایا جاتا ہے اور بھی بہت ساری چیزیں بنائی جاتی ہیں یہاں تک کہ پروفیسر، علامے، ڈاکٹر، بیرسٹر اور معاون خصوصی تک بنائے جاتے ہیں جو اطلاعات اور بیانات بناتے ہیں بلکہ ’’پیدا‘‘ کرتے ہیں۔

عربی میں ’’جعل‘‘ کا لفظ ’’بنانے‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور’’پیدا‘‘ کرنے کے لیے ’’خلق‘‘ بولا جاتا ہے جیسے لکڑی، لوہا، پتھر، پانی، اوزار، مکان اور مشروبات بنائے جاتے ہیں یا جیسے گندم اور گنا پیدا ہوتے ہیں لیکن ان سے آٹا سوجی میدہ اور آگے بہت سی چیزیں بنائی جاتی ہیں، گندم سے چینی اور چینی سے آگے بے شمار مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔آدمی بھی’’پیدا‘‘ ہوتے ہیں لیکن آگے امیر غریب، عالم جاہل، لیڈر، وزیر اور مشیر وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ دودھ بنانے کا تو میں نے کہہ دیا ہے سنا ہے چین والوں نے انڈے بھی’’بنا‘‘ لیے ہیں ممکن ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ان سے چوزے بھی نکالیں بلکہ چوزے اور مرغا مرغی بھی بنالیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

اور یہ جو ربوٹوں کا سلسلہ ہے نہ جانے کہاں جاکر رکے گا اور ہاں مصنوعی ذہانت؟۔ویسے پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں وزیر، مشیر اور معاون تو بنانے لگا ہے۔آگے آْگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔اور یہ لوگ جو بیانات سے لوگوں کو بناتے ہیں وہ بھی تو بنانا ہے جو تقریباً پیدا کرنے کے برابر ہے، اسے اگلے زمانوں میں ’’مایاوی‘‘ کہا جاتا تھا۔جو چیز سامنے ہوتی وہ ہوتی ہی نہیں تھی۔

اس موقع پر مجھے اپنے گاؤں کا ایک دیوانہ یاد آجاتا ہے جو ہوا میں بہت کچھ دیکھ کر لوگوں کو بھی دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ایک دن میرے پاس آکر بولا، اپنے بھائی کو سمجھا دو کہ مجھ سے باز آجائے ورنہ ایک دن بم سے اڑاکر رکھ دوں یہ دیکھو یہ بم۔ماروں گا تو چیتھڑے اڑاکر رکھ دوں گا۔کیا کیا ہے اس نے؟میں نے پوچھا۔بولا رات میری دونوں ٹانگیں کاٹ کر لے گیا ہے، کہدو واپس کرے ورنہ۔اس نے بم دکھایا۔میں نے کہا ٹانگیں تو تمہاری یہ موجود ہیں بولا یہ تو میرے بھائی کی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس کے اندر ا پ کسی کو ہوتا ہے دیکھ کر کہ جھوٹ لیکن ا ا جاتا

پڑھیں:

بجٹ اور ہم

رواں مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی اور منشاء سے بنایا گیا ہے، 80 کی دہائی تک ہماری معیشت بہتر تھی بلکہ ایسا کہیے کہ پاکستان کی معیشت، ہندوستان سے زیادہ مضبوط تھی۔ ہم معاشی اعتبار سے آزاد نہیں۔ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف بناتا ہے،کیونکہ ہماری آمدنی ہمارے اخراجات سے بہت کم ہے۔

ہماری درآمدات سے ہماری برآمدات کا تنا سب انتہائی کم تھا۔ ایک طرف ہمیں ڈالرکی اشد ضرورت تھی اور دوسری طرف مقامی بینکوں سے قرضوں کی۔ ان زمانوں میں ہماری شرح نمو انتہائی کم تھی اور اس سے زیادہ ہم نوٹ چھاپتے تھے، جس سے ہماری افراطِ زر بڑھتی تھی۔ افراطِ زر غریب کو غریب ترکر دیتی ہے اور امیر لوگ چونکہ اپنی دولت کو ڈالرز میں رکھتے ہیں، لہٰذا ان پر اثراندازکم ہوتی ہے۔

ایسا بھی ہوا کہ شرفاء کے پاس کالے دھن کی ریل پیل ہوئی یعنی وہ پیسہ جس پر ٹیکس نہیں لگتا۔ اس پیسے کا نعم البدل شرفاء نے ہاؤسنگ اسکیمز کی شکل میں نکالا۔ یعنی کاغذات میں پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ اور مارکیٹ میں قیمت پچیس کروڑ۔ اس طرح سے اس کالے دھن کو چھپایا جاتا تھا۔ یہ پیسے سوئس بینک بھی منتقل کیے جاتے تھے۔ ہمارے بہت سے ریٹائرڈ جنرلز، ریٹائرڈ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ ججز اور سیاستدانوں نے اپنے پیسے دبئی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں منتقل کیے۔

ہمارا بجٹ اس تمام سسٹم کا عکس ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 8.2% لوگ غربت کی لکیرکے نیچے ہیں اور پاکستان میں یہ شرح 44.7% ہے۔ تعلیم کے اوپر ہم اپنی مجموعی پیداوارکا ایک فیصد بھی خرچ نہیں کرتے۔ ترقیاتی بجٹ ہزار ارب روپے ہے، جس میں ہر سال کمی کی جاتی ہے جب کہ دفاعی بجٹ میں 20% کا اضافہ کیا گیا ہے جوکہ شاید مجبوری بھی ہے۔ آزادی کے بعد اور پچھتر سال گزر جانے کے بعد بھی ہم اس خطے میں ایک ایسی تنازعے پر کھڑے ہیں جس کا کوئی حل نہیں نکل رہا ہے اور اس خطے میں مودی کی شکل میں ہندو فاشزم ہم پر مسلط ہے۔

اس تنازعے کو ورلڈ فورمز پر اٹھایا گیا ہے۔ بلاول بھٹو نے اس حوالے سے دنیا کی اقوام کا ضمیر جھنجوڑ ہے اور وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے، برِصغیر ان تمام بڑی طاقتوں کا میدانِ جنگ بن چکا ہے جو اس وقت آپس میں تضادات اور تنازعات کا شکار ہیں۔

چین کی ٹیکنالوجی نے مغرب کی ٹیکنالوجی کو مات دے دی، جس کا مظاہرہ پاکستان اور ہندوستان کے حالیہ ٹکراؤ میں ہوا۔ پاکستان نے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے چین کی عزت بڑھائی اور ہندوستان نے مغرب اور امریکا کو رسوا کیا۔ ہتھیاروں کی اس ریس میں پاکستان اور ہندوستان غربت کی دلدل میں مزید دھنستے جا رہے ہیں۔ کیا اس ریس کو بڑھاوا دے کر ہم نے ایک اور صدی گزارنی ہے؟ جب حالات بدلیں گے تو جنگ کا بیانیہ بھی بدلے گا اور ساتھ ہی وہ اشرافیہ بھی رسوا ہوگی جو جنگ اور تنازعات کو بڑھاوا دیتی ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی۔

اس بات میں دو رائے نہیں کہ اس حکومت کو معیشت بدحالی سے بھی بدتر حالت میں ملی تھی اور انھوں نے اس معیشت کو سنبھالا ہے۔ افراطِ زر کی شرح کو 33% سے 5% تک لے کر آئے ہیں، ڈالرکی اڑان کوکنٹرول کیا، مالیاتی نظم و ضبطFiscal Discipline  کو بتدریج بہتر بنایا جا رہا ہے۔ بڑے عرصے بعد ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری ترسیلاتِ زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ بلواسطہ ٹیکسز Indirect Taxes ضرور لاگو ہوئے ہیں لیکن یہ حکومت آٹھ ہزار ارب ٹیکسزکلیکشن کو چودہ ہزار ارب تک لے کر آئی ہے۔Tax to GDP Rate آٹھ فیصد سے 10.2% تک لے کر آنا اس حکومت کی بڑی کامیابی ہے، لیکن کیا اس کا فائدہ غریب عوام کو ملا ؟ نہیں ! پاکستان کی آدھی آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہے۔

تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں اور ایسے لوگ اب سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر ڈاکٹر من موہن سنگھ یا پھر ڈاکٹر عبد السلام نہیں بن سکتے۔ ان حالات میں اس ملک کی بقاء خطرے میں ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہم سب کے لیے اشد ضروری ہے۔ ایسے حکومتی رویوں کے خلاف ایک دن عوام سڑکوں پر نکلیں گے۔ سندھ میں سب سے بڑا کاروبار اغواء برائے تاوان بن چکا ہے۔ سندھ کے عوام ان وڈیروں اور سرداروں کے لیے ایک لاوا بن رہے ہیں جو آہستہ آہستہ پک رہا ہے۔

ملک میں جو اصلاحات لانی تھیں، وہ حکومت اب تک نہیں لاسکی، اگر یہ اصلاحات اس وقت لائی گئیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا تو وہ عوام کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوںگی، جیساکہ سوویت یونین میں گوربا چوف کے دور میں ہوا۔ ہماری سیاست اور حکومت دونوں میں دور اندیشی نہیں۔ جس سطح کی سیاسی قیادت ہمارے پاس ہونی چاہیے وہ اب ہمیں میسر نہیں ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون جوکل تک جمہوریت کی باتیں کرتے تھے آج انھوں نے بھی اپنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔

آئی ایم ایف نے ہماری حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہFiscal Discipline لائیں اگر ایسا نہ ہوا تو ہم ایک دفعہ پھر پستی کی طرف چلے جائیں گے،کیونکہ ہمارے پاس ایک مضبوط قیادت کی کمی ہے جو کہ جمہوریت کی بات کرے۔ ہماری قیادت نے جمہوریت کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ بے نظیر کے بعد پیپلز پارٹی کے خد و خال بدل گئے۔ پیپلز پارٹی اب وہ پارٹی ہے جو پہلے پیر پگارا کی ہوا کرتی تھی، مگر ان میں اتنی ایمانداری تو تھی کہ وہ اس بات کو قبول کرتے تھے۔

اس منظر نامے میں بس یہ بات خوش آیند ہے، پاکستان دیوالیہ ہونے کی پوزیشن سے اب باہر ہے، مگر ہم ریفارمز کے عمل میں شکست کھا چکے ہیں جو بروقت ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان کو نہ صرف معاشی بلکہ ماحولیاتی چیلنجزکا سامنا بھی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان شدید خطرے کی دہلیز پر ہے۔

اس سال دو ہزار ارب کے اضافی ٹیکسز بڑھائے اور نئے ٹیکسز لاگوکیے گئے ہیں۔ کیا یہ ٹیکسز افراطِ زرکی شرح کوکم کر پائیں گے؟ بالکل ایسے ہی جیسے پچھلے مالی سال میں تین ہزار ارب کے اضافی ٹیکسز لاگو کیے گئے مگر افراطِ زرکی شرح بڑھی نہیں بلکہ اس میں کمی آئی۔ ہمارے زرعی شعبے میں شرح نمو انتہائی مایوس کن رہی، یعنی 0.4% ۔ جب کہ ملک کی 55% لیبر فورس اس شعبے سے منسلک ہے اور مجموعی پیداوار میں ان کا حصہ  26% ہے، جس کا مطلب یہ ہی کہ دیہی علاقے مزید غربت کی طرف جائیں گے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ان کا رخ شہروں کی طرف ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • بااثر ممالک نے ایران کیخلاف ووٹ دینے کا کہا ہم نے صاف انکار کیا، اسحاق ڈار کا انکشاف
  • جھوٹ بول دوسرے ملک لے جانے پر بیٹے نے والدین پر مقدمہ دائر کردیا
  • شاہد آفریدی کی اہلیہ کے ساتھ گن شوٹنگ، ’یہی فائرنگ گھر پر ہوتی ہے‘
  • ساحر
  • بجٹ اور ہم
  • سنت ابراہیمی
  • ہمارے ٹیکس پر چلنے والے ادارے سیاستدانوں سے متعلق جھوٹ گھڑتے ہیں:فضل الرحمن  
  • خطرناک بیماری کی تشخیص کیلئے خون کا نیا ٹیسٹ تیار
  • خطے کی تازہ صورتحال، ان واقعات سے ہمیں اپنے ایٹمی پروگرام کی قدر ہوتی ہے، عمر چیمہ نے واقعات گنوادیے