‘تہران کے 3 لاکھ لوگ شہر چھوڑ جائیں’، ٹرمپ کے بعد اسرائیل نے بھی دھمکی دے دی
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسرائیل نے ایران کے دارالحکومت تہران کے وسطی علاقے میں رہنے والے لاکھوں افراد کو فوری طور پر علاقہ خالی کرنے کی ہدایت جاری کی ہے، کیونکہ ایران پر اسرائیلی فضائی حملوں کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ پیش رفت ایران اور اسرائیل کے درمیان شدت اختیار کرتے تنازعے کے چوتھے روز سامنے آئی ہے۔
ایرانی سرکاری ٹی وی کی ایک اینکر اس وقت لائیو نشریات کے دوران اسٹوڈیو سے بھاگ گئیں جب بمباری کے دوران ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک سخت پیغام جاریکرتے ہوئے تہران سے شہریوں کو فوری انخلا کی تاکید کی گئی تھی۔ ’ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سب کو فوراً تہران خالی کر دینا چاہیے۔‘
یہ بھی پڑھیں:جی7 اجلاس میں صدر ٹرمپ کا غیر متوقع قدم، جنگ بندی کی کوشش یا نئی کشیدگی؟
یہ انتباہ تہران کے اس مرکزی حصے پر اثرانداز ہوا جہاں سرکاری ٹیلی ویژن، پولیس ہیڈکوارٹر اور دیگر اہم عمارتیں واقع ہیں، اور جہاں تقریباً 3 لاکھ 30 ہزار افراد مقیم ہیں۔ اسرائیلی فوج اس سے قبل بھی غزہ اور لبنان میں حملوں سے قبل شہریوں کو انخلا کے مشورے دیتی رہی ہے۔
ادھر امریکی ذرائع کے مطابق واشنگٹن اور تہران کے درمیان اس ہفتے ایک ممکنہ ملاقات پر بات چیت جاری ہے، جس کا مقصد ایٹمی معاہدے کی بحالی اور اسرائیل-ایران جنگ بندی پر تبادلہ خیال کرنا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان ملاقات کی تجویز زیر غور ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ جی7 سربراہی اجلاس اچانک چھوڑ کر پیر کے روز ایک دن قبل ہی کینیڈا سے روانہ ہو گئے، ایسے وقت میں جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی شدید تر ہو چکی ہے اور امریکی صدر تہران سے فوری انخلا کا اعلان کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیں:ایران اسرائیل جنگ میں مداخلت کی تو امریکی اڈے نشانہ بنیں گے، عراقی حزب اللہ کی امریکا کو دھمکی
یہ سربراہی اجلاس عالمی بحرانوں کو کم کرنے کے لیے بلایا گیا تھا، تاہم ایران کے جوہری پروگرام پر تنازعہ نے اجلاس کی فضا کو تلخ بنا دیا، جو کہ مزید بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے، واضح رہے کہ اسرائیل نے 4 روز قبل ایران کے خلاف فضائی بمباری کی مہم کا آغاز کیا تھا۔
اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ نے خبردار کیا کہ تہران کو اپنے جوہری پروگرام پر قابو پانا ہوگا، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے, ان کا کہنا تھا کہ ایرانی رہنما مذاکرات کے خواہش مند ہیں لیکن انہیں معاہدے کے لیے 60 دن دیے گئے تھے اور وہ اس مدت میں کوئی فیصلہ نہ کر سکے، جس کے بعد اسرائیلی حملے شروع ہوئے۔ ’انہیں معاہدہ کرنا ہوگا۔ ‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ امریکا اس تنازعے میں کب فوجی طور پر شامل ہو سکتا ہے، تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس پر بات نہیں کرنا چاہتے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، مشرقِ وسطیٰ میں تعینات امریکی افواج دفاعی پوزیشن پر ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، وائٹ ہاؤس کے ترجمان ایلکس فائفر نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ہم امریکی مفادات کا دفاع کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا امریکی صدر ایران تہران جوہری پروگرام جی7.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا امریکی صدر ایران تہران جوہری پروگرام کے درمیان ایران کے تہران کے
پڑھیں:
اگر حملہ ہوا تو امریکی فوج کی “کبھی نہ دیکھی گئی طاقت” کا سامنا کرنا ہوگا، ٹرمپ کی ایران کو دھمکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاکہنا ہے کہ اگر ایران نے امریکا پر کسی بھی شکل میں حملہ کیا تو اسے امریکی فوج کی ایسی طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا “جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئی ہو، امریکا کا اسرائیل کے حالیہ حملوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن امریکہ اپنے دفاع سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق امریکی صدر نے کہاکہ ہم پر اگر کسی بھی شکل یا طریقے سے حملہ کیا گیا تو امریکہ کی مکمل طاقت تم پر ٹوٹ پڑے گی،ہم ایران اور اسرائیل کے درمیان آسانی سے معاہدہ کروا سکتے ہیں اور اس خونریز تصادم کو ختم کر سکتے ہیں۔
خیال رہےکہ ایران اور اسرائیل کے دارالحکومتوں میں رات بھر دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں، جبکہ اسرائیل نے ایران کے وزارتِ دفاع اور “جوہری ہتھیاروں کے منصوبے” سے متعلق اہداف کو نشانہ بنایا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی حملوں کے بعد ایران نے ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا ہے، عمان کے وزیرِ خارجہ نے تصدیق کی کہ ایران نے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ “گولہ باری کے دوران بات چیت نہیں کر سکتا۔
یادر ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اتوار کو علی الصبح کیے گئے فضائی حملوں میں تہران میں واقع ایران کے دفاعی اور جوہری تحقیقاتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا، اسرائیلی فوج کے مطابق ان حملوں کا مقصد ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنا ہے، اسرائیل کے دعوے کے مطابق اب تک کے حملوں میں ایران کے 9 سینئر سائنس دان، متعدد جنرلز اور ایٹمی منصوبے سے جڑے ماہرین مارے جا چکے ہیں جبکہ ایران نے ان حملوں کے جواب میں اسرائیل پر کئی بیلسٹک میزائل داغے، جن سے اسرائیلی شہروں میں سائرن بج اٹھے اور شہریوں کو پناہ گاہوں میں منتقل کیا گیا، اسرائیلی ایمرجنسی سروسز کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب ایرانی صدر مسعود پہزشکیان نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی “جارحیت کا بھرپور اور زیادہ شدید ردعمل” دیا جائے گا۔ انہوں نے امریکہ پر بھی دوغلی پالیسی اپنانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ واشنگٹن مذاکرات کی بات کرتا ہے لیکن اسرائیل کی کارروائیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔