اتنا بڑا حملہ مگر ایران میں الرٹ، پیشگی تیاری اور نہ مزاحمت
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پہلا حصہ
وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ صدر ٹرمپ کی 60 دن کی وارننگ ختم ہوتے ہی اگلے دن یہودی ریاست نے ایران پر حملہ کردیا۔ حملوں کے پہلے مرحلے میں جمعہ 13 جون علی الصباح ’’آپریشن رائزنگ لائن کے نام سے‘‘ 200 اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے 100سے زائد ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ جن میں جوہری تنصیبات، دفاعی نظام، کمانڈوز اور سائنس دان نشانہ بنائے گئے جس کے نتیجے میں ایرانی فوجی سربراہان، 20 کمانڈوز اور 6 ایٹمی سائنسدانوں سمیت 86 افراد جان بحق ہوئے۔
اسرائیل نے اس کارروائی کو ’’ایران کے ساتھ جاری تنازع کی تاریخ کا سب سے بڑا انٹیلی جنس حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔ جس کی منظم تیاری وہ مسلسل کئی دہائیوں سے اور کئی سطحوں پر کررہا تھا۔ یہ حملہ کسی فوری ردعمل کا نہیں بلکہ اسرائیل کی پرانی حکمت عملی کا اظہار تھا۔ 1981 میں اسرائیل نے پہلی مرتبہ ایک دوسری مقتدر ریاست عراق میں گھس کر اس کے ایٹمی ری ایکٹر ’’اوسیراق‘‘ پر آٹھ F-16 لڑاکا طیاروں کی مدد سے حملہ کیا تھا اور اسے مکمل طور پر تباہ کردیا تھا۔ اسرائیل کا موقف تھا کہ اگر وہ حملہ نہ کرتا تو عراق جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے قابل ہوجاتا۔
حملے کے اگلے دن اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن نے کہا تھا ’’دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم جتنے بڑے سائز کے بموں کے اسرائیلی شہروں پر حملوں کو روکنے کے لیے عراق کے صدر صدام پر حملہ ضروری تھا تاکہ اس ’’برائی‘‘ کو روکا جاسکے‘‘۔ اس وقت سے اسرائیل نے ڈیکلیئر کر رکھا تھا کہ ’’اگر کوئی ریاست اسرائیل کی بقا کے لیے خطرہ بنے اور جوہری طاقت حاصل کرنے کے قریب ہو تو اسرائیل کو اس پر پیشگی حملہ کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔ اسرائیل کی اس حکمت عملی کو ’’بیگن ڈاکٹرائن‘‘ کہا جاتا ہے۔
عراق کے بعد اسرائیل نے 2000ء کے اوائل ہی سے ایران کو اسرائیل کے لیے ’’وجودی خطرہ‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ 2022 میں اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے کہا تھا ’’ایران ایک آکٹو پس کی مانند ہے۔ حزب اللہ، حماس، حوثی اور دیگر گروہ صرف اس کے بازو ہیں۔ بازو کاٹنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ سر (تہران) پر حملہ کرنا ہوگا‘‘۔ پہلے دن ہی سے اسرائیلی حکمران ایسے نظریات پر عمل پیرا ہیں جنہوں نے اسرائیل کے دفاع کو محض روایتی دفاع نہیں رہنے دیا بلکہ ’’آفینسو ڈیفنس‘‘ یا جارحانہ دفاع میں تبدیل کردیا ہے۔
ان ہی نظریات کا نتیجہ ہے کہ کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا اصل فوکس ایران ہے اور اس نے ایران کو اندر سے کمزور کرنے، تنہائی کا شکار بنانے، عالمی سطح پر بدنام کرنے، اس کے جوہری پروگرام اور علاقائی اثرات کو محدود کرنے کی حکمت عملی پر کام شروع کررکھا تھا۔ ایران کے اندر موساد کی موجودگی کو بڑھانا، خفیہ اڈے بنانا، میزائل لانچ کرنا، سائبر وار فیئرکے ذریعے کارروائیاں کرنا اور اب اسرائیل کا ایران پر موجودہ حملہ، اسی نظریے کی توسیع اور ایک منصوبہ بند اسٹرٹیجک مہم کا حصہ ہے۔ اس حملے سے پہلے کی اسرائیل کی خاموشی اس کی تیاری کی وسعت اورگہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔
جمعہ کی صبح حالیہ حملے میں مرکزی زمینی کردار اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے اہل کاروں کا رہا۔ 2018-2022 کے درمیان موساد نے مقامی ایجنٹوں، دوہری شہریت رکھنے والے افراد اور بیرونی ملیشیائوں کے ذریعے ایران کے اندر ایک مکمل خفیہ کارروائی کا ڈھانچہ کھڑا کر لیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق 2025 تک اسرائیل نے ایران کے اندر موجود اسلحہ گوداموں، میزائل فیکٹریوں اور سائنسی مراکز تک ڈومسٹک حملوں کی صلاحیت حاصل کرلی تھی‘‘۔ یہ کوئی sleeper cells نہیں تھے بلکہ مکمل طور پر چوکنا اور آپریشنل بیسز تھے جن میں موساد نے تہران کے آس پاس ہتھیار، ڈرونز، میزائیل لانچرز اور کمانڈوز تعینات کیے۔
موساد نے ان بیسز کو دیہی علاقوں، تہران سے باہر گوداموں اور خفیہ کمپائونڈز میں اس طرح چھپایا کہ وہ ایرانی سراغ رسانی کے نیٹ ورک کی گرفت میں نہ آسکیں۔ یہ بیسز خاموشی سے فعال رہے اور مخصوص وقت پر متحرک کردیے گئے۔ یہ ان ہی سیلز کی کارروائیاں تھیں جنہوں نے بعض ایرانی کمانڈوز کی گاڑیوں پر چپکنے والے بم اور نشاندہی کرنے والی چپس چپکادیے تھے جن کی وجہ سے وہ مارے گئے۔
ABC نیوز نے ایک ویڈیو نشر کی ہے جس میں دو اسرائیلی ایجنٹ ایرانی سرزمین پر ہتھیار نصب کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایسی کارروائیوں کا مقصد یہ تھا کہ جمعہ کی صبح اسرائیل کا بڑا حملہ بغیر کسی نقصان کے ہموار طریقے سے کامیاب ہوسکے۔ آپریشن شروع ہوتے ہی موساد اور آئی ڈی ایف نے تہران کے قریب اس خفیہ نیٹ ورک کو فعال کردیا۔ موساد کے کمانڈروں نے بمباری اور ڈرون حملوں کے ذریعے میزائل لانچرز فعال کرکے ایرانی جرنیلوں، سائنس دانوں اور حکومتی عمائدین کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ ایران کو فوری طور پر سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ حملہ ملک کے اندر سے بھی ہورہا ہے۔ لا علمی کا عالم یہ تھا کہ جس وقت اسرائیل ایران پر حملہ کررہا تھا پاسداران انقلاب کی فضائیہ کے کئی اعلیٰ افسران ایک زیر زمین کمانڈ سینٹر میں اجلاس میں مصروف تھے اور وہیں مارے گئے۔ ایرانی شہریوں نے ٹوئٹر پر لکھا: موساد کے لوگ تہران کے آس پاس ڈرون چلا رہے تھے اور ہمیں خبر نہیں ہوئی۔
اسلامی ممالک میں اپنی پراکسیز کو فعال کرنے اور حملے کروانے میں مصروف ایرانی حکام اور خفیہ ایجنسیوں کو حیرت انگیز طور پر موساد کی ان سرگر میوں، خفیہ بیسز اور نیٹ ورک کی کوئی خبر نہیں تھی۔ واشنگٹن پوسٹ اور گارڈین نے رپورٹ کیا ہے کہ ’’موساد نے ایران کے اندر چھوٹے چھوٹے خودمختار سیل بنائے تھے جو برسوں سے کام کررہے تھے‘‘۔ ان سیلز کا مقامی سلیپرز ایجنٹس اور ایرانی اور غیر ایرانی عناصر کے ذریعے استعمال ہونا خامنہ ای حکومت اور ایرانی سیکورٹی اداروں کی واضح اور بہت بڑی ناکامی ہے۔
ایران کی اندرونی عدم توجہ صرف موجودہ واقعہ تک محدود نہیں ہے۔ 2021-2024 تک ایران پر کئی ہائی پروفائل حملے ہوئے جن میں اسماعیل ہنیہ کی ایران کے اندر شہادت ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ ایرانی حکومت کی داخلی کمزوریوں، انٹیلی جنس کمزوریوں اور علاقائی ڈپلومیسی پر زور دینے نے موساد کو انتہائی چالاکی اور کھل کر کام کرنے کے وسیع مواقع فراہم کیے۔ ایران نے خود تسلیم کیا کہ صہیونی ایجنسیوں نے ہمارے کچھ دفاعی مراکز کو اندرسے نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیل کے متوقع حملے کو قیاس نہ کرنے اور اہمیت نہ دینے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایران نے امریکی مذاکرات میں لگاتار تاخیر کو اپنی ڈپلومیسی کی کامیاب حکمت عملی سمجھا اور اسرائیل کے ممکنہ حملے کو ایسی دھمکیاں اور چال باور کیا جن کا مقصد ایران پر دبائو بڑھانا تھا۔ اس اعتماد کا نتیجہ تھا کہ ایران دفاعی اقدامات کو موخر کرتا رہا۔ اس نے اپنے میزائل لانچرز کو تیاری کی حالت پر رکھا اور نہ ائر ڈیفنس سسٹمز کو ہائی الرٹ پر رکھا۔ اس غفلت کا نتیجہ تھا کہ اسرائیل کے حملے کے وقت ایران مکمل خوابیدگی کے عالم میں تھا اس کا آرمی چیف، جرنلز، کمانڈوز اور سائنس دان با آسانی اسرائیل کے ٹارگٹ پر آگئے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایران کے اندر اسرائیل کی اسرائیل نے اسرائیل کے اسرائیل کا حکمت عملی نے ایران ایران پر کے ذریعے پر حملہ تھا کہ
پڑھیں:
جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ تہران اپنی جوہری تنصیبات کو دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کرے گا، تاہم ایران کا جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان اتوار کو ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے جوہری شعبے کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں: ایران ہمسایہ ممالک سے گہرے تعلقات کا خواہاں ہے، ایرانی صدر مسعود پزشکیان
ایرانی صدر نے کہا کہ عمارتیں یا تنصیبات تباہ کرنے سے ایران کا پروگرام نہیں رکے گا، ان کے مطابق ایران ان منصوبوں کو دوبارہ تعمیر کرے گا اور زیادہ طاقت کے ساتھ آگے بڑھے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام دفاعی یا عسکری مقاصد کے لیے نہیں بلکہ شہری ضروریات کے لیے ہے۔ ان کے بقول یہ پروگرام عوامی فلاح، بیماریوں کے علاج اور شہری ترقی سے متعلق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران سے جوہری مذاکرات: یورپی وزرائے خارجہ کا جنیوا میں اجلاس، اہم پیشرفت متوقع
انہوں نے واضح کیا کہ ایران کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار نہیں چاہتا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں متنبہ کیا تھا کہ اگر ایران نے ان جوہری تنصیبات کی بحالی شروع کی جن پر جون میں امریکہ نے حملے کیے تھے، تو وہ دوبارہ فوجی کارروائی کا حکم دیں گے۔
یاد رہے کہ ایران کا جوہری پروگرام گزشتہ کئی برس سے عالمی سطح پر تناؤ کا باعث رہا ہے۔ ایران کی اہم ایٹمی تنصیبات، جن میں نطنز، فوردو اور اصفہان کے مراکز شامل ہیں، یورینیم کی افزدوگی کے بنیادی مراکز شمار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا قطر میں امریکی اڈوں پر حملہ، خام تیل کی قیمت میں حیران کن کمی
مغربی ممالک خصوصاً امریکا اور اسرائیل کو شبہ ہے کہ ایران ان تنصیبات کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے، جبکہ ایران کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف پرامن، شہری اور طبی مقاصد کے لیے ہے۔
گزشتہ برسوں میں ان تنصیبات پر متعدد حملے کیے گئے۔ نطنز کی تنصیب پر 2021 میں ہونے والا دھماکہ اور سائبر حملہ عام طور پر اسرائیل سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد ایران نے اسے ’ایٹمی دہشتگردی‘ قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر بنانے کے لیے روس سے معاہدہ اس ہفتے متوقع
جون 2025 میں امریکا نے فضائی حملوں کے ذریعے ایران کی کم از کم 3 بڑی جوہری تنصیبات، یعنی فوردو، نطنز اور اصفہان کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں خصوصی گہرائی تک مار کرنے والے بم استعمال کیے گئے، جن کا مقصد زیرِ زمین تنصیبات کو نقصان پہنچانا تھا۔ اگرچہ ایران کا دعویٰ ہے کہ کچھ تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے مگر مکمل تباہی نہیں ہوئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اٹامک انرجی آرگنائزیشن اسرائیل امریکا ایران مسعود پزشکیان نیوکلیئرپروگرام