ایران کا اسرائیل کے سائنسی و عسکری دماغ وائزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس پر حملہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
پروفیسر شارل فلیش مین (جن کی لیب اس حملے میں محفوظ رہی) نے تسلیم کیا کہ نقصان ناقابلِ تلافی ہے، لائف سائنسز کی لیبارٹریز ایسے مواد پر انحصار کرتی ہیں جنہیں کئی سال کی محنت سے جمع اور محفوظ کیا جاتا ہے، جب ایک لیب تباہ ہو جاتی ہے، تو وہ تمام مواد بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے حالیہ میزائل حملے نے وسطی مقبوضہ فلسطین کے شہر رہووت میں واقع وائزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لبنانی نشریاتی ادارے المیادین کے مطابق اسرائیلی کے جنگی تحقیقی مرکز کی متعدد عمارتوں کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا، جب کہ ایک اہم تجربہ گاہ مکمل طور پر آگ کی لپیٹ میں آ کر تباہ ہو گئی۔ یہ مقام زندگی کے علوم، مصنوعی ذہانت، اور مالیکیولر بائیولوجی میں جدید تحقیق کا مرکز تھا، اور ان شعبوں میں ہونے والی تحقیق اسرائیلی ریاست کو نگرانی، ٹارگٹنگ، اور ہتھیاروں کے نظام کی تیاری میں مدد فراہم کر رہی تھی، یہ وہی نظام ہیں، جو خطے بھر میں کی گئی اسرائیلی جارحیت میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا نے وائزمین انسٹیٹیوٹ کو اسرائیل کا سائنسی و عسکری دماغ قرار دیا ہے، یہ ادارہ ایسی ٹیکنالوجیز کی تحقیق و ترقی میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا ہے جو فضائی حملوں کے ہم آہنگی نظام، ڈرون وار فیئر، اور میدانِ جنگ میں طبی امداد کے سلسلے میں استعمال ہوتی ہیں، اور ان سب کو غزہ، لبنان، یمن، اور حالیہ عرصے میں ایران کے خلاف حملوں میں بروئے کار لایا گیا ہے۔ تباہ ہونے والی تجربہ گاہوں میں ایک لیبارٹری اسرائیلی پروفیسر ایلداڈ زاحور کی زیر نگرانی تھی، جو مالیکیولر سیل بائیولوجی کے شعبے سے وابستہ ہیں، ایک اور متاثرہ لیب مصنوعی ذہانت کے ماہر پروفیسر ایران سیگل کی تھی۔
اس میں موجود لاکھوں ڈالر مالیت کا تحقیقی سامان پانی اور ساختی نقصان کی وجہ سے ناقابلِ استعمال ہو چکا ہے، سیگل کی لیب نے مبینہ طور پر ایسے الگورتھمز تیار کیے تھے جو میدانِ جنگ میں فیصلے کرنے اور نگرانی کے نظام میں مدد فراہم کرتے تھے۔ اسرائیلی میڈیا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں جلی ہوئی اندرونی دیواریں، گری ہوئی منزلیں، تباہ شدہ بجلی کا نظام، اور عمارت کو پہنچنے والا شدید نقصان دیکھا جا سکتا ہے، جو مبینہ طور پر ایک درست نشانے پر کیے گئے حملے کا نتیجہ تھا۔
اگرچہ اسرائیلی حکام اس حملے کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ’دی مارکر‘ نے تسلیم کیا کہ یہ حملہ ’اتفاقی‘ نہیں تھا، بلکہ ایک سوچا سمجھا اقدام تھا جس کا مقصد ایک ایسے ادارے کو نشانہ بنانا تھا۔
یہ ادارہ عسکری طاقت میں سائنسی تحقیق کے ذریعے کردار ادا کر رہا تھا۔ میڈیا رپورٹس میں اس حملے کو ایران کے جوہری سائنس دانوں کے قتل کا براہِ راست بدلہ قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسٹیٹیوٹ کے اسرائیلی سیکیورٹی اداروں سے گہرے تعلقات نے اسے ایران کی نظر میں ایک جائز عسکری ہدف بنا دیا، خاص طور پر کیوں کہ یہ ادارہ ایسی ٹیکنالوجی کی تیاری میں شریک ہے جو شہریوں کو نشانہ بنانے والے ہتھیاروں میں استعمال ہوتی ہے۔ پروفیسر شارل فلیش مین (جن کی لیب اس حملے میں محفوظ رہی) نے تسلیم کیا کہ نقصان ناقابلِ تلافی ہے۔
ان کا کہنا تھا لائف سائنسز کی لیبارٹریز ایسے مواد پر انحصار کرتی ہیں جنہیں کئی سال کی محنت سے جمع اور محفوظ کیا جاتا ہے، جب ایک لیب تباہ ہو جاتی ہے، تو وہ تمام مواد بھی ضائع ہو جاتا ہے، جو ناقابلِ تلافی ہے۔ ایک اور اسرائیلی محقق، پروفیسر اورن شلڈینر نے ’دی مارکر‘ کو بتایا کہ ایسا لگا جیسے لیب ہوا میں تحلیل ہو گئی ہو، شلڈینر کے مطابق متاثرہ لیبارٹریوں کو دوبارہ تعمیر کرنے اور ان کی صلاحیتیں بحال کرنے میں کم از کم 2 سال لگیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وائزمین انسٹیٹیوٹ کی تباہی تہران کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے، اسرائیلی قبضے کے ادارے جو تحقیق کے ساتھ ساتھ فوجی سرگرمیوں میں بھی شریک ہیں، وہ اب سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: استعمال ہو اس حملے جاتا ہے تباہ ہو کی لیب
پڑھیں:
حماس کو عسکری اور سیاسی شکست نہیں دی جاسکتی: اسرائیلی آرمی چیف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ غزہ پر قبضہ کرکے بھی حماس کو عسکری و سیاسی شکست نہیں دی جا سکتی۔
عالمی خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کو بتایا ہے کہ غزہ شہر پر مکمل قبضے کے لیے چھ ماہ درکار ہوں گے، تاہم اس کے باوجود حماس کو عسکری اور نہ ہی سیاسی طور پر شکست دی جا سکتی ہے۔
یہ بریفنگ ایسے وقت میں دی گئی جب نتن یاہو کی ہدایت پر اسرائیلی فوج غزہ شہر میں کارروائیاں بڑھاتے ہوئے پورے کے پورے رہائشی علاقے تباہ کر رہی ہے اور اس انتباہ کو نظر انداز کر رہی ہے کہ اس سے قیدیوں کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
چینل کے مطابق ایال زامیر نے سیاسی قیادت پر واضح کیا کہ مجوزہ زمینی کارروائی سے کوئی فیصلہ کن نتیجہ حاصل نہیں ہو گا، وہ حکومت کے ساتھ نتائج کے بارے میں حقیقت پسندانہ توقعات شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
ایال زامیر نے بند کمرہ اجلاس میں کہا کہ حتمی فیصلہ کن کامیابی کے لیے غزہ کے دیگر علاقوں اور مرکزی کیمپوں تک کارروائی پھیلانی ہو گی، لیکن اس سے اسرائیل کو ایسے شہری چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جنہیں فوج برداشت نہیں کرنا چاہتی۔
اسرائیلی سکیورٹی اداروں کے اندازوں کے مطابق غزہ پر قابو پانے کے لیے کئی ماہ سے لے کر نصف سال تک کا وقت درکار ہوگا، جس کے بعد علاقے کی مزید وسیع کارروائی شروع کی جا سکے گی۔
چینل نے بتایا کہ نتن یاہونے سکیورٹی اجلاس میں زور دیا کہ طے شدہ وقت کے مطابق کارروائی شروع کی جائے، حالانکہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ اس زمینی آپریشن سے حماس کے زیر قبضہ قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نتن یاہونے وزرا اور سکیورٹی حکام کے ساتھ یہ بھی غور کیا کہ اگر حماس نے قیدیوں کو نقصان پہنچایا یا انہیں قتل کیا تو اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے تاہم چینل نے یہ نہیں بتایا کہ اسرائیلی حکومت کن اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
آٹھ اگست کو اسرائیلی کابینہ نے نتن یاہوکے اس منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے تحت بتدریج پورے غزہ پر دوبارہ قبضہ کیا جانا ہے، جس کا آغاز غزہ شہر سے کیا جائے گا۔
تین ستمبر کو اسرائیلی فوج نے عربات جدعون 2 کے نام سے آپریشن شروع کیا جس کا مقصد غزہ شہر پر مکمل قبضہ ہے۔ اس فیصلے نے خود اسرائیل کے اندر شدید احتجاج کو جنم دیا ہے کیونکہ اس سے قیدیوں اور فوجیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
ادھر امریکی ٹی وی چینل سی این این کے مطابق دو اسرائیلی حکام نے اتوار کو بتایا کہ غزہ شہر پر اسرائیلی زمینی حملہ آئندہ چند دنوں میں شروع ہو سکتا ہے۔
زمینی یلغار سے قبل اسرائیلی فوج نے غزہ میں بلند و بالا عمارتوں اور اہم عمارتوں کو تیزی سے تباہ کرنا شروع کر دیا ہے جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ حماس انہیں استعمال کرتی ہے۔