اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے انٹرویو میں پوچھا جاتا ہے،سوال:’’اگلی نسل کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے، اور ہمیں اس حل کے لیے آج کیا کرنا چاہیے؟‘‘ نیتن یاہو کا جواب:’’یہ ایک بہت بڑا (اہم) سوال ہے لیکن میں نے تو ابھی اس کا جواب دے دیا ہے۔ میں نے کہا کہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ایک جنگجو اسلامی حکومت کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے یا جوہری ہتھیاروں کو ایسی جنگجو اسلامی حکومتوں کے ہاتھوں رہنے دیا جائے۔ہمارے لیے پہلا خطرہ ہے ایران ہے اور دوسرا ہے پاکستان۔ کیونکہ اگر ان انتہا پسند حکومتوں کے پاس جوہری ہتھیار ہوئے، تو وہ ان اصولوں کو نہیں مانیں گی جو پچھلے تقریبا 70 سال سے دنیا مانتی آئی ہے۔‘‘
صیہونی بدترین صیہونی نیتن یاہو کے اس متنازعہ بیان کے تناظر میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بالکل درست کہا ہے کہ ایران کو اقوام متحدہ کے آرٹیکل 51کے تحت دفاع کا حق حاصل ہے، شہباز شریف نے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پیزشکیان سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسرائیل کی بلا اشتعال اور بلاجواز جارحیت پرایرانی حکومت اور برادر عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے، صدر پیز شکیان نے اس مشکل وقت بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے ساتھ پاکستان کی حمایت اور یکجہتی پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب کیساتھ ایک گھنٹہ گفتگو میں اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اسرائیل ایران جنگ بند ہونی چاہئے،سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی ایرانی صدر سے گفتگو کی ہے، انہوں نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ، سعودی ولی عہد نے کہا کہ ایران کیساتھ تنازع کو بڑھا کر اسرائیل، امریکا کو جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے،پوری اسلامی دنیا آپ کیساتھ کھڑی ہے ، ترک صدر رجب طیب ایردوان نے علاقائی رہنماوں کو کی گئی ٹیلی فون کالزمیں خبردار کیا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان ’’تباہ کن جنگ‘‘ ہو سکتی ہے جو پناہ گزینوں کا بحران پیدا کر سکتی ہے۔ترک صدارتی دفتر کے ایک بیان کے مطابق، ایردوان نے ایرانی ہم منصب مسعود پیزشکیان کو بتایا کہ اسرائیل ’’پورے خطے کو آگ میں گھسیٹنے‘‘ کی کوشش کر رہا ہے۔ایردوان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ٹیلی فونک گفتگو کی ، انہوں نے کہا کہ ہمارا خطہ ایک اور بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ترک صدارتی دفتر کے مطابق ایردوان نے اسرائیل کو’’روکنے‘‘ کا بھی مطالبہ کیا اور اسے ’’خطے میں استحکام اور سلامتی کے لئے بنیادی خطرہ‘‘قرار دیا۔ترک صدر نے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی فون کرکے کہا کہ اسرائیل ایران تنازع کا حل جوہری پروگرام پر مذاکرات کے ذریعے سے نکالا جاسکتا ہے۔ کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ لیو چہاردہم نے اسرائیل اور ایران سے ذمہ داری اور سمجھداری دکھانے کا مطالبہ کیا۔پوپ نے ایک بیان میں کہا، ’’ایران اور اسرائیل میں صورتحال ایسے نازک لمحے میں سنگین طور پر خراب ہو گئی ہے۔ میں ذمہ داری اور سمجھداری کی اپیل کو پرزور طریقے سے دہرانا چاہتا ہوں۔‘‘
وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی، جو اس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں، اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہیں۔ایرانی صدر نے وزیراعظم کو اسرائیل کے ساتھ بحران پر ایران کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا اور عالمی برادری بالخصوص اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مل جل کر کام کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر کیساتھ گفتگو میں کہا کہ ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ حملوں میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر صدر پیزشکیان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ایران کے لیے پاکستان کی حمایت کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے اسرائیل کی اشتعال انگیزی اور مہم جوئی کو علاقائی اور عالمی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے بہادر فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ نسل کشی کی بلا روک ٹوک کارروائیوں کی بھی شدید مذمت کی۔ انہوں نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے جارحانہ رویے اور اس کے غیر قانونی اقدامات کے خاتمے کے لیے فوری اور قابل اعتبار اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کے فروغ کے لیے پوری طرح پرعزم ہے اور اس تناظر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔
ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے نے امریکاکو ’’بے ایمان‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے جبکہ واشنگٹن اور تہران جوہری مذاکرات میں مصروف ہیں۔ایرانی ایوان صدر کے مطابق، پیزشکیان نے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں کہا، ’’مذاکرات کے درمیان صہیونی حکومت کی ایرانی سرزمین کے خلاف جارحیت میں امریکا کے ساتھ ہم آہنگی امریکا کی بے ایمانی اور ناقابل اعتبار ہونے کی علامت ہے۔‘‘
دوسری طرف کئی سیاسی اتحادوں کے سربراہ رہنے والے پاکستان کے سرکردہ سیاسی ومذہبی قائد مولانا فضل الرحمن نے اتوار کی شام حیدرآباد میں ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ایران کی باری ہے،کل سعودی عرب یا پاکستان کی باری آئے گی،ہم صرف مذمت نہیں کررہے بلکہ اسرائیل کے خلاف ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان بھی کرتے ہیں، ان حالات میں محب وطن تجزیہ نگاروں کی یہ تشویش بالکل بجا ہے کہ اگلاہدف پاکستان بھی بن سکتا ہے .
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: شہباز شریف نے اقوام متحدہ ایرانی صدر کہ اسرائیل ایردوان نے نے اسرائیل پاکستان کی اسرائیل کی نے کہا کہ ٹیلی فون نے ایران انہوں نے ایران کے کے خلاف مذمت کی کے ساتھ اور اس کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
ڈاکٹر سلیم خان
اسرائیل کے وزیر اعظم نے قطر میں حملہ کرکے ہمام الحیہ سمیت پانچ لوگوں کو شہید تو کردیا مگر اپنے مقصد کی حصولیابی میں ناکام رہا کیونکہ اس کا اصل ہدف تو حماس رہنما خلیل الحیہ تھے جو اپنے ساتھیوں سمیت زندہ بچ گئے لیکن اس حماقت نے نیتن یاہو سمیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رسوا کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ آخرنیتن یاہو پر اچانک اس خودکش حملے کا جنون کیوں سوار ہوا؟ اسرائیل کے اندر ہونے والے احتجاج کا دباؤ کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے پہلے دن 9ستمبر کو اس حرکت کے لیے منتخب کیا گیا ۔امسال کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے تمام 193رکن ممالک کی نمائندگی ہو رہی ہے جنہیں ایک ملک، ایک ووٹ” کی بنیاد پر برابر کا حق حاصل ہے ۔جنرل اسمبلی کے علاوہ سلامتی کونسل میں سبھی اراکین کو قراردادوں پر ووٹ دینے کے یکساں اختیارات حاصل نہیں ہے اور سب برابر بھی نہیں ہیں۔ چند مستقل ارکان ممالک کے پاس ویٹو کا حق ہے جس استعمال کرکے وہ سارے لوگوں کی آواز دبا دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اجلاس کا اس سال موضوع ہے :بہتر ساتھ:امن، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے 80 سال اور اس سے بھی زیادہ۔یہ غیر معمولی اجلاس 29 ستمبر تک جاری رہے گا۔12 ستمبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے ‘نیویارک ڈیکلیئریشن’ کی منظوری دی تاکہ ‘مقررہ مدت کے اندر، ٹھوس، ناقابل واپسی اقدامات’ کیے جاسکیں ۔اجلاس میں اس قراراداد کے حق میں 142 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا ۔ یہ خوش آئند ہے کہ بڑے دنوں کے بعد ہندوستان نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ۔ 22ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران غزہ کے معاملے پر عالمی رہنماؤں کا اجلاس ہو گا جس میں امکان ہے کہ برطانیہ فلسطین کو بطورِ ریاست تسلیم کر لے گا۔فرانس سمیت برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک نے اس دوران فلسطین کو تسلیم کرکے دو ریاستی حل پر زور دینے کا فیصلہ کیا تھا اور چونکہ دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور ہوئی ہے اس لیے فلسطین کو مبصر سے رکن کا درجہ مل جائے گا۔
اسرائیل قطر میں حماس پر حملہ کرکے فلسطین کی رکنیت کو اور بھی زیادہ اہم اور آسان بنادیا ہے ۔پچھلے سال یعنی 2024 میں اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو نئے "حقوق اور مراعات دینے کے لیے ووٹ دے کر سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسے اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بنائے ۔اس قرارداد کو 143 بمقابلہ 9 ووٹوں کے فرق سے منظور کیا گیا جبکہ 25 ارکان غیر حاضر تھے ۔ مخالفین میں صرف امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ارجنٹینا، چیکیا، ہنگری، مائیکرونیشیا، ناؤرو، پلاوو اور پاپوا نیو گنی جیسے ممالک تھے لیکن اس ایک سال کے اندر غیر حاضر ممالک کی تعداد میں بڑی کمی ہوئی ہے اور اس میں فرانس و برطانیہ جیسے ویٹو والے ممالک ہوں گے ۔اسی طرح دو سال قبل 27 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کی غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کے حق میں 120کے خلاف صرف 14 ووٹ پڑے تھے لیکن 45کی غیر حاضری بڑی رکاوٹ تھی یہ اعدادو شمار فلسطین کے حق میں رائے عامہ کی ہمواری کا ثبوت ہیں۔
امریکہ نے فلسطین کی رکنیت کو روکنے کے لیے اسے اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی براہِ راست بات چیت ، سرحدوں پر امن و سلامتی اور
یروشلم کے مستقبل سمیت اہم مسائل کے حل سے جوڑ دیا ۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے ‘نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی’ اس طرح کی شرائط لگا کر
تو روس اور یوکرین کی رکنیت بھی ختم کردینی چاہیے لیکن اس کا تو تصور بھی محال ہے کیونکہ روس ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک ہے اور یوکرین
مغرب کا حلیف یا آلۂ کار ہے ۔ اس لیے ان پر امریکہ بہاد ر یہ شرائط نہیں رکھے گا۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت اسرائیل کی علامتی
شکست ہونے کے سبب اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی لیے امریکہ نے 18اپریل کو وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا ۔
سلامتی کونسل کی اس ووٹنگ میں، فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے بہت زیادہ حمایت ملی تھی ۔ اس کے حق میں 12ووٹ پڑے تھے مگر برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے حصہ نہیں لیا تھا اور ریاستہائے متحدہ نے قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔اس لیے کہنا پڑے گا کہ اقوام متحدہ کی ماں جمعیت اقوام کے بارے میں علامہ اقبال نے جو کہا تھا وہ اب بیٹی پر بھی صادق آتا ہے
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
یہ عجیب منافقت ہے کہ 144ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر اقوام متحدہ میں رکنیت کی حمایت نہیں کرتے ۔ اس سے قبل امریکی اتحادیوں میں سے فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، اسپین، آسٹریلیا، ایسٹونیا اور ناروے نے فلسطین حمایت کی تھی مگر یورپی ممالک اس پر آمادہ نہیں تھے ۔ یہ فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے روس اور چین، اس لیے بھی حامی ہیں کیونکہ اس طرح روس کے لئے کوسوو اور چین کے لئے تائیوان کو رکن بنانے میں آسانی ہوگی ۔ اس بار یوروپ کی برف پگھلی ہے ۔ جولائی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس اقوام متحدہ کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے اقوام متحدہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے سیاسی حل کا وقت آ گیا ہے لیکن اس کے لیے عالمی طاقتوں کو کام کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا تھا کہ ، ”یوروپی یونین کی جانب سے یوروپی کمیشن کو اپنی توقعات کا اظہار کرنا ہو گا۔ اسے یہ بھی دکھانا ہو گا کہ ہم اسرائیلی حکومت کی اس اپیل کو سننے کے لیے کس طرح حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔
جولائی کے اواخر میں اقوام متحدہ کے فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے منعقدہ مشترکہ اجلاس میں کی گئی تھی۔ عشروں پرانے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے پہلے دن پرفرانسیسی وزیر خارجہ باروٹ نے مندجہ بالابیان دیا تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت کرنے والے فرانس نے یوروپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل پر فلسطینیوں کے ساتھ دو ملکی حل پر رضامندی کے لیے دباؤ ڈالے ۔ یہ فرانس کی طرف سے ایک تیز حملہ تھا کیونکہ وہ فلسطین کو ایک قوم کے طور پر تسلیم کرنے کے وعدے کے چند دن بعد ہی غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہاہے ۔ فرانس کی جانب سے اس صدائے امن کے جواب میں ایک درجن سے زیادہ دیگر مغربی ممالک نے
دوسرے ملکوں سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بیلجیئم نے امسال 9 ستمبر سے شروع ہو رہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے خلاف سخت پابندیاں بھی عائد کردی ۔ بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غزہ میں رونما ہونے والے انسانی المیے کے پیش نظر کیا گیا ہے ، جہاں اسرائیلی جارحیت زیادہ تر آبادی کو کم از کم ایک بار بے گھر کر چکی ہے اور اقوام متحدہ نے قحط اور بھکمری کو تسلیم کیا ہے ۔
بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا، ”اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نسل کشی کے کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بیلجیئم کو اسرائیلی حکومت اور حماس کے ‘دہشت گردوں’ پر دباؤ بڑھانے کے لیے سخت فیصلے لینے پڑے ۔یہ اسرائیلی عوام کو سزا دینے کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں ہے کہ ان کی حکومت بین الاقوامی اور انسانی قانون کا احترام اور پاسداری کرے جو اس کے برعکس زمینی صورت حال کو تبدیل کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہے ۔امسال 31جولائی (2025)کو فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مالٹا نے طویل عرصے سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے اور ”ذمہ دار ملک کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم دو ریاستی حل کے تصور کو نظریہ سے عملی شکل دینے کے لیے کام کریں۔ کینیڈا کے صدر میک کارنی نے کہا کہ ”کینیڈا اس حقیقت کی مذمت کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں تباہی پھیلانے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ اس پر اسرائیل کو ایسی مرچی لگی کہ اس کے وزارت خارجہ نے لکھا ”کینیڈین حکومت کی پوزیشن میں تبدیلی حماس کے لیے انعام ہے اور غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے ۔
امریکہ کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی مغربی ممالک کے ان اعلانات کے خلاف اسرائیلی موقف کو اختیار کرتے ہوئے اسے حماس کے لیے انعام قرار دیا، نیز اسے غلط وقت میں اٹھایا گیا قدم بتایا۔ اپنے بین الاقوامی حلیفوں کے پیٹھ پھیر لینے سے بے چین ہوکربن یامین نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی ابتداء میں ہی قطر کے اندر یہ ناکام حملہ کرکے مغربی ہمدردوں کواور بھی دور کردیا ہے ۔ فرانس اور سعودی عرب کے مشترکہ صدارت سے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے نیویارک دفتر میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس نے اسرائیل کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جرمنی اور فرانس میں اپنے ہم منصبوں سے لڑائی کو روکنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے ۔ انہوں نے کہا تھاکہ جنگ بندی ”ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے راستے پر ڈالے گی۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے ناقدعالمی رہنما مل کر نیتن یاہو کے ذریعہ تباہ کرنے کی کوشش کا مقابلہ دو ریاستی حل سے کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔
٭٭٭