data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ آئینی بینچ نے ججز کی سینیارٹی اور ٹرانسفر سے متعلق اہم کیس کی سماعت آج جمعرات کومکمل کرکے مختصر فیصلہ جاری کرنے کا عندیہ دیاہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں ججز وکلا کو کہتے رہے کہ جلدی دلائل مکمل کر لیں تاخیرنہ کریں، وکلا کے طویل دلائل کے سبب کیس تاخیر کا شکار ہوتا رہا، ججز ریٹائر ہوتے رہے، یوں ججز ریٹائر ہونے کے سبب ججز کی کمپوزیشن ہی تبدیل ہوگئی۔ اس کیس میں سوال یہ ہے کہ 14 ججز کو چھوڑ کر 15ویں نمبر والے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟ جوڈیشل کونسل یا آرٹیکل 6 کے تحت بننے والی اسپیشل کورٹ کے ججز مخصوص مدت کے لیے ہوتے ہیں، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 200 کے تحت جج کا تبادلہ مستقل ہے یا عارضی؟۔جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، عدالت نے کہا کہ پہلے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب دلائل دے لیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل پر شاید جواب الجواب دینا پڑے۔اس لیے بانی تحریک انصاف کے وکیل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے بعد دلائل دیں۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے دلائل میں کہاکہ 1955ء میں پاکستان گورنر جنرل آرڈر سے مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا۔ تمام ہائیکورٹس کی سطح کی عدالتوں کو یکجا کرکے ایک کر دیا گیا۔ججز کے تقرر کی تاریخ پر ایک سنیارٹی لسٹ ترتیب دی گئی۔1970ء میں ون یونٹ تحلیل ہوا تو ججز کو مختلف ہائیکورٹس میں ٹرانسفر کیا گیا۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ اس کیس میں صورتحال مختلف ہے۔ون یونٹ پر نئی عدالتیں تشکیل ہوئیں،ون یونٹ کی تحلیل پر بھی نئی ہائیکورٹس تشکیل ہوئیں۔یہاں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے پر کوئی تشکیل یا تحلیل نہیں ہوئی۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا میری دلیل اتنی ہے کہ ماضی میں ہمیشہ ججز کی گزشتہ سروس کو اور ٹرانسفر کو تسلیم کیا گیا۔پرویز مشرف کے سنگین غداری ٹرائل کے لیے اسپیشل کورٹ تشکیل ہوئی۔ 3 ہائیکورٹس کے ججز کو اسپیشل کورٹ کا جج بنایا گیا۔ تینوں ججز میں جو سینئر ترین جج تھا اس کو عدالت کا سربراہ بنایا گیا۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ جوڈیشل کونسل یا آرٹیکل 6 کے ٹرائل کی اسپیشل کورٹ میں ججز خاص مدت کے لیے جاتے ہیں۔یہاں سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 200 کے تحت جج کا تبادلہ مستقل ہوگا یا عارضی۔اٹارنی جنرل نے تو کہہ دیا کہ ججز کا تبادلہ مستقل کیا گیا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا سمری پر عام آدمی نے نہیں بلکہ ججز نے رائے دی۔جسٹس شکیل احمد نے کہاکہ ٹرانسفر کے عمل میں سمری میں کہیں بھی پبلک انٹرسٹ کا لفظ نہیں لکھا ہوا،جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں ججز وکلا کو کہتے رہے جلدی دلائل مکمل کر لیں، تاخیر نہ کریں، وکلا کے طویل دلائل کے سبب کیس تاخیر کا شکار ہوتا رہا، ججز ریٹائر ہوتے رہے، یوں ججز ریٹائرڈ ہونے کے سبب ججز کی کمپوزیشن ہی تبدیل ہوگئی۔بعدازاں سماعت آج جمعرات تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جسٹس نعیم اختر افغان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اسپیشل کورٹ ون یونٹ کیا گیا ا رٹیکل کیس میں ججز کی کے لیے ججز کو کے سبب

پڑھیں:

ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق اہم سماعت، بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو دلائل سے روک دیا گیا

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، جہاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو دلائل سے روک دیا گیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ پہلے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اپنے دلائل مکمل کریں۔

یہ بھی پڑھیں:ججز سنیارٹی کیس: وفاقی حکومت کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل پر شاید جواب الجواب دینا پڑے، اس لیے بانی پی ٹی آئی کے وکیل ایڈووکیٹ جنرل کے بعد دلائل دیں۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1955 میں پاکستان کے گورنر جنرل کے آرڈر سے مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا۔ اس وقت تمام ہائیکورٹس کے سطح کی عدالتوں کو یکجا کر کے ایک عدالت بنایا گیا، تاہم ججز کی سابقہ سروس کو برقرار رکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ججز کی تقرری کی تاریخ کی بنیاد پر ایک سینیارٹی لسٹ مرتب کی گئی۔ 1970 میں ون یونٹ کے خاتمے پر ججز کو مختلف ہائیکورٹس میں منتقل کیا گیا اور ان کی سابقہ سروس کو تسلیم کیا گیا۔

مزید دلائل دیتے ہوئے امجد پرویز نے کہا کہ 1976 میں سندھ اور بلوچستان کی ہائیکورٹس کو علیحدہ کیا گیا اور اس موقع پر بھی ججز کو ٹرانسفر کرتے ہوئے ان کی سینیارٹی برقرار رکھی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:‘ججز کے ٹرانسفر پر کسی جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی’، سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ اور سینیارٹی کیس کی سماعت

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں صورتحال مختلف ہے، کیونکہ ون یونٹ پر نئی عدالتی تشکیل ہوئی تھی اور اس کی تحلیل پر بھی نئی ہائیکورٹس وجود میں آئیں، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے پر کوئی نئی تشکیل یا تحلیل نہیں ہوئی۔

امجد پرویز نے کہا کہ ان کا مؤقف صرف اتنا ہے کہ ماضی میں ہمیشہ ججز کی سابقہ سروس کو تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے مثال دی کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے لیے اسپیشل کورٹ تشکیل دی گئی تھی جس میں پانچ ہائیکورٹس کے ججز کے ناموں میں سے تین کو عدالت کا جج بنایا گیا اور ان میں سے سینئر موسٹ جج کو عدالت کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کونسل یا آرٹیکل 6 کے تحت اسپیشل کورٹ میں ججز مخصوص مدت کے لیے تعینات ہوتے ہیں، تاہم یہاں معاملہ یہ ہے کہ آرٹیکل 200 کے تحت جج کا تبادلہ مستقل ہوگا یا عارضی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ججز کا تبادلہ مستقل کیا گیا ہے۔

امجد پرویز نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ ٹرانسفر کیے گئے جج کی مدتِ تعیناتی پر بھی دلائل دیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اٹارنی جنرل امجد پرویز ججز سنیارٹی کیس جسٹس نعیم اختر افغان عمران خان

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دے دیا
  • سپریم کورٹ آئینی بینچ: ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ، آج ہی سنایا جائے گا
  • ججز ٹرانسفر کیس: سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، مختصر فیصلہ آج سنایا جائے گا
  • ججز ٹرانسفر، سنیارٹی کیس: 14 جج چھوڑ کر 15ویں نمبر والے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا ؟ جج سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستیں کیس؛ سپریم کورٹ آئینی بینچ کے وکیل سلمان اکرم سے اہم سوالات
  • ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق اہم سماعت، بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو دلائل سے روک دیا گیا
  • پارلیمنٹ کیلئے 16 ارب کا بجٹ کیوں؟ بیرسٹر گوہر نے سوال اٹھادیا
  • ججز ٹرانسفر کیس؛ درخواست پر دیے گئے دلائل آپس میں ٹکرا رہے ہیں، جسٹس مظہر
  • ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سننے کا فیصلہ