دنیا بھر میں 2024 کے دوران تنازعات میں 48 ہزار افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
80 فیصد بچوں کی اموات اور 70 فیصد خواتین کی اموات صرف غزہ میں ریکارڈ کی گئیں،اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں 2024 کے دوران تنازعات میں 48 ہزار 394 افراد ہلاک ہوئے۔
عرب ٹی وی کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران عالمی سطح پر مسلح تنازعات کے باعث 48 ہزار 394 افراد مارے گئے،
جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی جبکہ 2024 میں دنیا بھر میں مسلح تنازعات کے نتیجے میں شہریوں کی اموات میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں گزشتہ دو سال کے دوران خواتین اور بچوں پر مسلح تشدد کے تباہ کن اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 اور 2022 کے مقابلے میں 2023 اور 2024 کے دوران تنازعات میں تقریبا 4 گنا زیادہ خواتین اور بچے مارے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2023 اور 2024 میں تنازعات والے علاقوں میں 21 ہزار 480 خواتین اور 16 ہزار 690 بچے مارے گئے جن میں سے 80 فیصد بچوں کی اموات اور 70 فیصد خواتین کی اموات صرف غزہ میں ریکارڈ کی گئیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
فلسطینی بچوں پراسرائیلی مظالم، دل دہلادینے والی رپورٹ سامنے آگئی،
اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینی بچوں کی بھاری اکثریت کو جان بوجھ کر سر یا سینے میں گولیاں مارکر قتل کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے، 2023 میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے آپریشن کے دوران بچوں کو گولیاں ماری گئیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے( بی بی سی)کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق میں انکشاف کیا گیاکہ نومبر 2023 میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے آپریشن کے دوران 2 کم سن بچیوں، دو سالہ لیان المجدلاوی اور 6 سالہ میرا طنبوہ، کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
دونوں واقعات ایسے علاقوں میں پیش آئے جہاں اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کارروائیوں میں مصروف تھیں۔
برطانوی اخبار نے ان دونوں واقعت کے علاوہ مجموعی طور پر 160 سے زائد ایسے بچوں کے کیسز کی تفصیل اکٹھی کی ہے جنہیں غزہ کی جنگ کے دوران گولیاں ماری گئیں۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 95 بچوں کو سر یا سینے پر گولیاں لگیں، جن میں سے 59 واقعات میں عینی شاہدین کی براہِ راست یا انسانی حقوق کی تنظیموں اور طبی عملے کے ذریعے گواہیاں حاصل کی گئیں۔
ان گواہیوں کے مطابق 57 بچوں پر فائرنگ کا الزام اسرائیلی فوج پر لگا جبکہ دو بچوں کو فلسطینیوں کی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، ایک خوشی میں کی گئی فائرنگ کے دوران اور دوسرا ایک مقامی گروہی تصادم میں۔
شہید بچوں کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ یہ بچے نہتے تھے، انکے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے، اور وہ زیادہ تر کھیل رہے ہوتے تھے یا حملوں سے بچنے کے لیے بھاگ رہے ہوتے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان بچوں میں سے اکثر کی عمر بارہ سال سے کم تھی۔
رپورٹ سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اس معاملے پر جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
باقی 36 کیسز کے بارے میں کوئی واضح معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے غیر ملکی صحافیوں کے لیے غزہ میں آزادانہ رپورٹنگ پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جس سے تفصیلات تک رسائی مزید مشکل ہو گئی ہے۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ دنیا کو ایسے جنگی رویے کو ”نارمل“ تسلیم نہیں کرنا چاہیے، جس میں بڑی تعداد میں بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہو۔