مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 2023 اور 2024 کے درمیانی عرصے میں جنگوں کے دوران 21,480 خواتین اور 16,690 بچے ہلاک ہوئے۔ ان میں 70 فیصد خواتین اور 80 فیصد بچوں کی ہلاکتیں غزہ میں ہوئیں۔
دنیا کے ہر بحران کا خمیازہ عوام بھگتتے ہیں، فولکر ترک
او ایچ سی ایچ آر نے بتایا کہ گزشتہ سال مسلح تنازعات میں انسانی حقوق کے 502 محافظ ہلاک اور 123 لاپتہ ہوئے۔
ایسے بیشتر واقعات جن ممالک میں پیش آئے ان میں زیادہ تر مغربی ایشیا، شمالی افریقہ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں لاطینی امریکہ اور کیریبیائی ممالک میں ہوئیں اور بیشتر متاثرین کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔(جاری ہے)
اقوام متحدہ کے ماہرین کا اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف سنگین جرائم کا الزام
او ایچ سی ایچ آر کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں خواتین کی تعداد 10 فیصد تھی تاہم انسانی حقوق کے لاپتہ ہونے والے کارکنوں میں ان کا تناسب 20 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
گزشتہ سال 82 صحافی ہلاک ہوئے جبکہ 2023 میں ان کی تعداد 74 فیصد تھی۔ ایسی بیشتر ہلاکتیں ایسے علاقوں میں ہوئیں جہاں مسلح تنازعات جاری ہیں۔ بڑھتی ہوئی تفریقاقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے کہا کہ ایسے تمام اعداد و شمار کے پیچھے دردناک داستانیں ہیں۔ ان سے زمانہ امن و جنگ میں کمزور ترین لوگوں کو تحفظ کی فراہمی میں ناکامی کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور دنیا بھر میں حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
2023ء امدادی کارکنوں کے لیے ہلاکت خیز ترین سال رہا، یو این
او ایچ سی ایچ آر کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک یا تفریق کی صورتحال میں بھی مزید بگاڑ آیا ہے اور ایسے لوگ اس مسئلے سے کہیں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جو پہلے ہی پسماندہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جسمانی معذوری کا شکار تقریباً ایک تہائی (28 فیصد) لوگوں نے بتایا ہے کہ انہیں تفریقی سلوک کا سامنا ہو چکا ہے جبکہ جسمانی طور پر صحت مند افراد میں یہ شرح 17 فیصد ہے۔
صنفی بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنے والی خواتین کی تعداد مردوں سے دو گنا زیادہ ہے۔ تفریق غریب ترین گھرانوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی اور غربت و نابرابری کے سلسلے کو دوام دیتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 15 تا 29 سال عمر کے لوگوں نے بتایا کہ انہیں اپنی مہاجرت، نسل، مذہب اور جنسی میلان کی بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ 60 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان سے عمر، معذوری اور طبی صورتحال کی بنا پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
تفریقی سلوک کے متعلق بیداری میں اضافہفولکر ترک نے کہا ہے کہ تفریق کوئی الگ واقعہ نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کی تفریق کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جسمانی معذور افراد ناصرف اپنی معذوری کی بنا پر تفریقی سلوک کا سامنا کرتے ہیں بلکہ انہیں دیگر وجوہات کی بنا پر بھی تفریق کا نشانہ بنائے جانے کا امکان ہوتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تفریقی سلوک کے حوالے سے اب 119 ممالک میں اس کے اعداد و شمار یکجا کیے جارہے ہیں، جو کہ 2015 میں تقریباً 15 تھے۔ اسی طرح، بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قومی انسانی حقوق کے اداروں میں سے 32 فیصد اب انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف حملوں کے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے او ایچ سی ایچ آر انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کا سامنا تفریق کا
پڑھیں:
افغانستان میں دہشتگردوں کو جدید اسلحے کی فراہمی امن کے لیے خطرہ، پاکستان کا اقوامِ متحدہ میں انتباہ
اقوامِ متحدہ میں پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کو جدید اور تباہ کن اسلحے تک رسائی خطے کے امن و استحکام کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔
سلامتی کونسل میں غیر قانونی چھوٹے اور ہلکے ہتھیاروں سے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ داعش خراسان، تحریکِ طالبان پاکستان (فتنہ الخوارج)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ جیسے گروہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف آزادانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: اقوام متحدہ: علاقائی تخفیف اسلحہ سمیت پاکستان کی 4 اہم قراردادیں منظور
سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ ان تنظیموں کو خطے کے ایک تخریبی عنصر کی مالی اور عملی حمایت حاصل ہے، یہ جدید اسلحہ پاکستانی عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، جس سے ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جدید اسلحے کے ذخائر میں اضافہ تشویشناک ہے اور عالمی برادری کو فوری طور پر دہشت گرد گروہوں کی اسلحے تک رسائی روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: اقوام متحدہ کے بعد امریکا نے بھی شامی صدر احمد الشرع پر پابندیاں ختم کر دیں
انہوں نے مزید کہا کہ افغان عبوری حکام کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے سے روک سکیں۔
پاکستانی مندوب نے ڈرونز، مصنوعی ذہانت پر مبنی ہتھیار، تھری ڈی پرنٹڈ بندوقیں اور نائٹ ویژن آلات جیسے جدید جنگی اوزاروں کو نئے خطرات کی مثالیں قرار دیتے ہوئے کہا کہ روایتی اسلحہ کنٹرول نظام کو ان جدید چیلنجوں کے مطابق ڈھالنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
انہوں نے غیر قانونی اسلحہ کی عالمی تجارت کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی، اور کہا کہ ایسے ہتھیار دنیا بھر میں تنازعات کو بھڑکانے، ترقی کے عمل کو روکنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کے مطابق، چھوٹے ہتھیار دہشت گرد حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: صدر زرداری کی سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے ملاقات، خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر زور
آخر میں، سفیر عاصم افتخار احمد نے افریقہ میں غیر قانونی اسلحے کے پھیلاؤ پر بھی گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ رجحان براعظم میں دہشت گردی، منظم جرائم اور سیاسی تشدد کو فروغ دے رہا ہے، جو عالمی امن کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلحہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی ہتھیار