اسلام آباد:

ایف آئی اے نے انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کی 13 ویں ریڈ بک جاری کردی۔

ایف آئی اے کو مختلف مقدمات میں 143 انسانی اسمگلرز مطلوب ہیں جن میں 7 خواتین اسمگلر بھی شامل ہیں، ریڈ بک میں شامل انتہائی مطلوب خواتین  انسانی سمگلرز میں اسلام آباد زون کو 4، لاہور زون کو 2 اور گوجرانولہ زون کو ایک انسانی اسمگلر مطلوب ہے۔

انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کے خلاف ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلز میں متعدد مقدمات درج ہیں۔ ایف آئی اے لاہور زون کو 14، گجرانوالہ زون کو 70، فیصل آباد زون کو 13، ملتان زون کو 3 انسانی اسمگلرز مطلوب ہیں۔

اسلام آباد زون کو 25، کراچی زون کو 10، بلوچستان اور کے پی زون کو 1، 1 جبکہ کوہاٹ زون کو 6 انسانی اسمگلرز مطلوب ہیں۔

سال 2023 میں شامل انتہائی مطلوب 51 انسانی سمگلروں کو ابتک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ریڈ بک کے انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کی گرفتاری کے لئے خصوصی کریک ڈاون جاری ہے۔

ملزمان کی گرفتاری کے لئے خصوصی چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹس بھی بلیک لسٹ کئے گئے ہیں۔

بیرون ملک فرار ہونے والے انسانی اسمگلروں کی گرفتاری کیلئے ریڈ نوٹسز بھی جاری کئے گئے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز ایف آئی اے زون کو ریڈ بک

پڑھیں:

بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

-1تعارف:
بلوچستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود انسانی ترقی کے اشاریوں میں سب سے پسماندہ ہے۔ صوبے کے پہاڑوں کے نیچے چھپے کوئلے، تانبے، سونے اور گیس کے ذخائر پاکستان کی صنعتی و تجارتی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان وسائل کے دوہنے میں سب سے زیادہ حصہ کوئلے کی کان کنی کا ہے، جس نے ہزاروں مزدوروں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ تاہم، یہی شعبہ مزدوروں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور غیر منصفانہ بھی ہے۔ بلوچستان کے کوئلہ کان کن نہ صرف غربت، بیماری اور سماجی محرومی کا شکار ہیں بلکہ ریاستی و نجی اداروں کی مجرمانہ غفلت کے باعث ان کی زندگیاں ہر لمحہ خطرے میں رہتی ہیں۔

بلوچستان کی کوئلہ کان کنی کا نظام روایتی، غیر منظم اور غیر انسانی اصولوں پر قائم ہے۔ کان کن عموماً ایسے افراد ہوتے ہیں جو تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات سے محروم پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اجرت معمولی ہے، مگر ان کا کام جسمانی طور پر انتہا درجے کا مشکل اور خطرناک ہے۔ ان مزدوروں کو نہ تو مستقل ملازمت ملتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی سماجی تحفظ کی ضمانت۔ اکثر اوقات کانوں میں کام کرنے والے مزدور ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو انہیں حفاظتی سامان دینے کے بجائے پیداوار بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً کوئلے کے دھوئیں، زہریلی گیسوں اور زمین دھنسنے کے حادثات روزمرہ کے معمول میں شامل ہو چکے ہیں۔
یہ تحقیق اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ بلوچستان میں کان کنوں کے استحصال کے معاشی، سماجی اور سیاسی عوامل کیا ہیں، اور ریاستی ادارے اس استحصال کو کم کرنے میں کس حد تک ناکام رہے ہیں۔ اس مطالعے میں کوئلہ کان کنی کے تاریخی پس منظر، مزدوروں کی موجودہ حالت، حکومتی پالیسیوں، حادثات کے تجزیے اور مزدور یونینز کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیق میں اس امر پر بھی بحث کی گئی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے فقدان اور ناقص حفاظتی انتظامات نے انسانی جانوں کو کس طرح کمزور معیشت کے ایندھن میں بدل دیا ہے۔
یہ مضمون تحقیقی اور تجزیاتی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے، جس میں سرکاری اعداد و شمار، انسانی حقوق کی رپورٹس اور ذرائع ابلاغ کی معتبر دستاویزات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ تحقیق کا مقصد صرف استحصال کی نشاندہی نہیں بلکہ ان ممکنہ پالیسی اصلاحات کی نشاندہی بھی ہے جن سے کان کنوں کی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ چونکہ بلوچستان کی کان کنی ملک کی توانائی کا اہم ذریعہ ہے، لہٰذا اس کے انسانی پہلو کو نظر انداز کرنا نہ صرف سماجی ناانصافی ہے بلکہ معاشی استحکام کے لیے بھی خطرناک ہے۔

-2 تاریخی پس منظر:
بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی کا آغاز انیسویں صدی کے آخر میں برطانوی دورِ حکومت میں ہوا، جب انگریز حکام نے ہرنائی، مچ اور دکی کے علاقوں میں کوئلے کے ذخائر دریافت کیے۔ برطانوی سامراج نے اس خطے کے قدرتی وسائل کو اپنی ریلوے اور صنعتی ضروریات کے لیے استعمال کیا، مگر مقامی آبادی کو اس عمل سے کوئی فائدہ نہ پہنچا۔ کان کنی کے ابتدائی نظام میں مزدوروں کو نہ حفاظتی انتظامات میسر تھے، نہ اجرت کا باقاعدہ ڈھانچہ موجود تھا۔ یہ استحصال نوآبادیاتی دور میں شروع ہوا اور بدقسمتی سے آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔
قیامِ پاکستان کے بعد، حکومتِ بلوچستان نے کوئلے کی کانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی، مگر عملی سطح پر یہ نظام سرمایہ دارانہ ٹھیکیداری ڈھانچے میں جکڑا رہا۔ بیشتر کانیں نجی لیز پر مقامی یا غیر مقامی سرمایہ داروں کے حوالے کی گئیں۔ ان ٹھیکیداروں نے برطانوی نظامِ مزدوری کو برقرار رکھا جہاں محنت کش صرف ایک ’’پیداواری ذریعہ‘‘ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ 50 کی دہائی میں محکمہ مائنز اینڈ منرلز قائم ہوا، مگر اس کا کردار کاغذی حد تک محدود رہا۔

70 اور اسی کی دہائی میں کان کنی بلوچستان کی معیشت میں اہم کے دھماکوں سے ہلاکتیں عام ہیں۔ یہ استحصال اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب زخمی یا ہلاک مزدوروں کے اہلِ خانہ کو معاوضہ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
(جاری )

عبدالحکیم مجاہد گلزار

متعلقہ مضامین

  • بنوں میں سی ٹی ڈی نے فتنہ الخوارج کے انتہائی مطلوب 2 دہشتگرد ہلاک کردیے
  • بنوں، سی ٹی ڈی نے فتنہ الخوارج کے انتہائی مطلوب 2 ٹارگٹ کلرز ہلاک کردیے
  • بنوں، سی ٹی ڈی کارروائی، فتنہ الخوارج کے انتہائی مطلوب 2 ٹارگٹ کلرز ہلاک
  • طب کی دنیا میں انقلاب، 4000 میل دور بیٹھے ڈاکٹر نے مریض کی کامیاب سرجری کی ڈالی، ویڈیو جاری
  • پڈعیدن ، سنگین مقدمات میں مطلوب 2 ڈاکو پولیس مقابلہ میں زخمی حالت میں گرفتارکرلیے گئے
  • پڈعیدن ،سنگین مقدمات میں مطلوب دو ڈاکو پولیس مقابلے میں زخمی حالت میں گرفتار
  • بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ
  • غزہ کے سائے میں دنیا: امن معاہدوں سے آگے کی حقیقت
  • سوڈان کا المیہ
  • فخر زمان قومی اسکواڈ میں شامل، سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز اور سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کا شیڈول جاری