ڈونلڈ ٹرمپ نے رجب طیب اردوان سے ملاقات کو انتہائی شاندار ملاقات قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
امریکی صدر نے اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں اردوان کو اپنا پرانا دوست قرار دیا اور کہا کہ اردوان نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ پورے یورپ اور دنیا میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے شاندار فوج تیار کی ہے۔ انہیں وائٹ ہاؤس میں خوش آمدید کہنا ہمارے لیے اعزاز ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ترک صدر رجب طیب اردوان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی، صدر ٹرمپ نے اردوان سے ملاقات کو "انتہائی شاندار ملاقات" قرار دیا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اہم ملاقات کی۔ تقریباً دو گھنٹے بیس منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے نہ صرف اپنے ترک ہم منصب کو دروازے تک چھوڑا بلکہ گاڑی میں سوار ہونے تک ان کے ہمراہ رہے اور گرمجوشی سے الوداع کہا۔
ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں کی موجودگی میں ترکیہ اور امریکا کے مابین توانائی کے شعبے میں اہم معاہدے پر دستخط ہوئے۔ ترکیہ کی جانب سے دستخط وزیرِ توانائی و قدرتی وسائل آلپ ارسلان بایراکتار نے کیے۔ اس معاہدے کو دونوں ممالک کے تعلقات میں نئے دور کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے۔ ترک صدر اردوان نے ملاقات سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس دورے کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ساتھ منسلک ایک اہم موقع تصور کرتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں اردوان کو اپنا پرانا دوست قرار دیا اور کہا کہ اردوان نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ پورے یورپ اور دنیا میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے شاندار فوج تیار کی ہے۔ انہیں وائٹ ہاؤس میں خوش آمدید کہنا ہمارے لیے اعزاز ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ترکیہ کے ساتھ وسیع پیمانے پر تجارتی تعلقات موجود ہیں اور آئندہ ان تعلقات کو مزید بڑھایا جائے گا۔ ان کے بقول "ترکیہ ایف-16 اور ایف-35 سمیت کئی دفاعی منصوبوں میں دلچسپی رکھتا ہے اور ہم اس پر بھی گفتگو کریں گے۔" صدر ٹرمپ نے اردوان کو "سخت مزاج مگر نتیجہ خیز شخصیت" قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں عام طور پر ضدی لوگوں کو پسند نہیں کرتا، مگر اردوان ہمیشہ مجھے اچھے لگے ہیں، وہ اپنے ملک کے لیے شاندار خدمات انجام دے رہے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران غزہ بحران پر سعودی عرب، قطر، ترکیہ اور دیگر مسلم رہنماؤں کے ساتھ مفصل بات چیت ہوئی ہے۔ ان کے مطابق ہم کسی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں، تمام قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے امکانات روشن ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ شام پر عائد پابندیاں صدر اردوان کی درخواست پر ختم کی گئیں، کیونکہ وہ وہاں کے حالات میں بنیادی کردار ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں کامیابی اردوان کی مرہونِ منت ہے۔ یہ ترکیہ کے لیے ایک بڑی جیت تھی اور اسی بنا پر ہم نے شام پر عائد سخت پابندیاں ختم کیں، تاکہ وہاں کے لوگ سکون کا سانس لے سکیں۔ امریکی صدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایف-35 منصوبے پر بھی تبادلۂ خیال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ترکیہ ایف-35 چاہتا ہے، ہم اس کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کی کچھ مخصوص ضروریات ہیں، ہماری بھی کچھ توقعات ہیں، جلد ایک نتیجہ سامنے آئے گا۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین امن عمل کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا کہ اردوان کا خطے میں غیر معمولی اثر و رسوخ ہے۔ انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا کہ ترکیہ پر عائد CAATSA پابندیاں جلد ختم ہوسکتی ہیں۔ روس یوکرین تنازع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اردوان کو ماسکو اور کیف دونوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ غیر جانب داری کو پسند کرتے ہیں اور اگر وہ چاہیں تو اس تنازع میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر سے ملاقات کے لیے آئے ترک وفد میں وزیرِ خارجہ حقان فیدان، وزیرِ دفاع یاشار گولر، وزیرِ توانائی آلپ ارسلان بایراکتار، ایم آئی ٹی کے سربراہ ابراہیم قالن اور صدارتی مشیر برائے خارجہ و سلامتی امور عاکف چاتائے بھی شامل تھے۔ واشنگٹن میں ترکیہ کے سفیر صادات اونال بھی اجلاس میں موجود تھے۔ صدر اردوان کے لیے وائٹ ہاؤس کے سبزہ زار پر باقاعدہ سرکاری استقبالیہ تقریب بھی منعقد کی گئی، جہاں صدر ٹرمپ نے پرتپاک انداز میں ان کا خیرمقدم کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کہا کہ اردوان ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر وائٹ ہاؤس اردوان کو ترکیہ کے کہ ترکیہ قرار دیا کے لیے
پڑھیں:
جنوبی افریقہ میں جی 20 اجلاس میں کوئی امریکی عہدیدار شریک نہیں ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں ہونے والے جی 20 سربراہ اجلاس میں امریکا کا کوئی سرکاری نمائندہ شرکت نہیں کرے گا، جنوبی افریقہ میں افریکانر آبادی کے خلاف سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ جنوبی افریقہ میں افریکانرز جو ڈچ، فرانسیسی اور جرمن نسل سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، ان کے قتل اور ان کی زمینوں پر قبضے کے واقعات افسوسناک ہیں، یہ ایک مکمل شرمناک بات ہے کہ جی 20 اجلاس جنوبی افریقہ میں منعقد ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ افریکانرز کو مارا جا رہا ہے، ان کی زمینیں اور فارم غیر قانونی طور پر چھینے جا رہے ہیں، جب تک یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہیں گی، کوئی امریکی سرکاری اہلکار اجلاس میں شریک نہیں ہوگا، وہ 2026 کا جی 20 اجلاس میامی میں منعقد کرنے کے خواہشمند ہیں اور اگر وہ اُس وقت بھی منصبِ صدارت پر رہے تو اجلاس کی میزبانی امریکا کرے گا۔
خیال رہے کہ جنوبی افریقہ رواں ماہ 22 اور 23 نومبر کو جی 20 اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، جو دنیا کی بڑی معیشتوں پر مشتمل اس فورم کی روایتی سالانہ میٹنگ ہے، ٹرمپ کے اس مؤقف نے نہ صرف سفارتی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے بلکہ جنوبی افریقہ کی میزبانی کے حوالے سے بھی بین الاقوامی سطح پر توجہ مبذول کرائی ہے۔