افغانستان کو آزاد اور پُرامن ریاست بنانے پر پاکستان، ایران، چین اور روس متفق
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر روس کی میزبانی میں منعقد ہونے والے چوتھے 4 فریقی وزرائے خارجہ اجلاس کے بعد پاکستان، چین، ایران اور روس نے افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر ایک اہم مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے۔
اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ چاروں ممالک افغانستان کو ایک آزاد، متحد، خودمختار اور پُرامن ریاست کے طور پر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ افغانستان میں دہشت گردی، جنگ اور منشیات سے پاک معاشرے کا قیام پورے خطے کے امن اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
اس موقع پر افغان حکام پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گرد گروہوں کے بنیادی ڈھانچوں کا خاتمہ یقینی بنائیں تاکہ نہ صرف افغانستان بلکہ ہمسایہ ممالک بھی پُرامن ماحول میں ترقی کی جانب بڑھ سکیں۔
شرکا نے افغانستان کی بگڑتی ہوئی معیشت پر گہری تشویش ظاہر کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ خطے میں اقتصادی روابط کو وسعت دینا اور علاقائی تعاون کو فروغ دینا حالات کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔
اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کو جاری رکھا جائے گا اور افغان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی میں سہولت فراہم کی جائے گی تاکہ ان کی مشکلات میں کمی لائی جا سکے۔
مشترکہ اعلامیے میں یہ نکتہ بھی واضح کیا گیا کہ خواتین اور بچیوں کو تعلیم، روزگار اور معاشی مواقع فراہم کیے بغیر افغانستان میں پائیدار ترقی ممکن نہیں۔
یاد رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان کا اقتدار سنبھالا تھا، لیکن اب تک بیشتر ممالک نے ان کی حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان، ایران، چین اور روس اگرچہ بارہا طالبان کو علاقائی فریم ورک میں تعاون کی پیشکش کر چکے ہیں، تاہم ان کا مؤقف یہی رہا ہے کہ طالبان کو دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے اور ایسی حکومت تشکیل دینا ہوگی جس میں تمام طبقات کو نمائندگی دی جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: گیا کہ
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی، سترہ طالبان جنگجو ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 ستمبر 2025ء) صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی سکیورٹی دستوں نے عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے کے خلاف کارروائی شروع کی، تو ان کی وہاں چھپے ہوئے طالبان جنگجوؤں کے ساتھ باقاعدہ جھڑپ شروع ہو گئی۔
صوبائی پولیس کے مطابق جمعہ 26 ستمبر کو ہونے والی اس جھڑپ میں ٹی ٹی پی کے 17 عسکریت پسند مارے گئے۔
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کے علاقائی سربراہ شہباز الہٰی نے بتایا کہ کڑک میں ہونے والی اس مسلح جھڑپ میں تین پولیس اہلکار زخمی ہو گئے، جن کا علاج جاری ہے۔ دو روز قبل بھی تیرہ طالبان جنگجو مارے گئے تھےشہباز الہٰی نے مزید تفصیلات بتائے بغیر بس اتنا کہا کہ مارے جانے والے شدت پسند ''خوارج‘‘ تھے۔
(جاری ہے)
اسلامی تاریخی پس منظر کی حامل یہ وہ اصطلاح ہے، جو ملکی حکام اور سکیورٹی فورسز پاکستانی طالبان کی ممنوعہ تنظیم ٹی ٹی پی کے ارکان کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقوں، خاص طور پر افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب اور ماضی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے یا فاٹا کہلانے والے خطوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار عسکریت پسندوں کے خلاف اکثر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
جمعے کے روز ایک خفیہ اطلاع ملنے کے بعد طالبان کے ایک ٹھکانے پر کیے جانے والے آپریشن سے دو روز قبل بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بڑی مسلح جھڑپ ہوئی تھی، جس میں حکام کے مطابق 13 طالبان جنگجو مارے گئے تھے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کے خونریز حملوں میں پھر کافی تیزی آ چکی ہے۔ ایسا خاص طور پر ہمسایہ ملک افغانستان میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہوا ہے۔ پاکستان میں ان خونریز حملوں کی ذمے داری اکثر تحریک طالبان پاکستان یا کچھ دیگر مسلح عسکریت پسند گروپ قبول کر لیتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی کی وجہپاکستانی طالبان اور ان کی ممنوعہ تنظیم ٹی ٹی پی کا افغانستان میں حکمران طالبان سے کوئی تعلق نہیں اور یہ دو مختلف گروپ ہیں، مگر دونوں کی سوچ اور نظریات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے حلیف ہیں۔
پاکستانی طالبان کے بارے میں سیاسی اور دفاعی حکام کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ 2021ء میں کابل میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی کے بہت سے رہنما افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں، جہاں سے وہ پاکستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
کابل میں طالبان کی حکومت اسلام آباد کے ان الزامات کی تردید کرتی ہے لیکن پاکستانی طالبان کی قیادت کی افغانستان میں موجودگی سے متعلق اطراف کے یہی متضاد دعوے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین مسلسل تناؤ کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔
ادارت: شکور رحیم