ایران پر بلا اشتعال صیہونی حملہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
13جون2025 طلوعِ فجر سے کچھ دیر پہلے تہران سمیت ایران کے متعدد شہر اور مقامات اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں دھماکوں سے لرز اُٹھے۔حملے سے ایران کی اعلیٰ ترین فوجی قیادت اور اس کے بہت تجربہ کار نیوکلیئر سائنس دان لقمہء اجل بن گئے۔
حملے میں فوجی تنصیبات کے علاوہ نیوکلیئر مقامات اور پٹرولیم تنصیبات بھی نشانہ بنیں۔حملے سے پہلے امریکا اور ایران مذاکرات کر رہے تھے۔امید کی جا رہی تھی کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے اور مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا۔مذاکرات کے اگلے راؤنڈ سے دو تین دن پہلے اسرائیل نے بلا اشتعال حملہ کر دیا۔حالات جو بھی رُخ اختیار کریں لیکن یہ طے ہے کہ اسرائیل اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکے گا۔
ابھی تک کی آمدہ اطلاعات کے مطابق دونوں طرف سے حملے کیے جا رہے ہیں ایران نے جوابی حملوں میں ڈرونز اور مختلف میزائلوں سے اسرائیل پر حملہ جاری رکھا ہوا ہے۔ایران کے میزائل اس کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔اگر ایران کی طرف سے فائر کیے گئے صرف 20فیصد میزائل بھی نشانے پر پہنچ رہے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔اسرائیل کا Invincibleہونے کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل کے ابتدائی حملے کے موقع پر ایرانی دفاعی نظام مکمل طور پر فعال نہیں تھا پچھلے سال ایران،اسرائیل جھڑپ میں اسرائیل نے روسی ساختہ دفاعی نظام S-300کو نشانہ بناکر ناکارہ کر دیا تھا۔جو بچا کھچا فضائی دفاعی نظام تھا اس کو اتنے بڑے اور حقیقی خطرے کے باوجود فعال نہ رکھا گیا۔ایرانی قیادت شاید یہ سمجھتی رہی کہ ابھی امریکا کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔
اس لیے فی الحال حملہ نہیں ہو گا۔تمام اعلیٰ ترین عسکری قیادت اور مایہء ناز نیوکلیئر سائنس دان مزے سے اپنے اپنے گھروں میں محوِ استراحت تھے کہ حملہ ہو گیا اور ان میں سے اکثر سوتے میں اپنے رب سے جا ملے۔جنگ کی حقیقی تیاری سے آنکھیں چرانے کا اس سے بڑا اور کوئی ثبوت نہیں ہو سکتا۔
جن اہم اور اعلیٰ شخصیات نے ابتدائی اسرائیلی حملے میں داعی اجل کو لبیک کہا ان میں حسین سلامی پاسدارانِ انقلابِ ایران کے کمانڈر ان چیف،جنرل محمد باقری ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف ، فریدون عباسی ایرانی اٹامک آرگنائیزیشن کے سابق سربراہ شامل ہیں۔ اسرائیل نے ایران کی کئی نیوکلر سائٹس پر حملہ کر کے بہت نقصان پہنچایا ہے لیکن شاید ابھی تک ایرانی ایٹمی پروگرام مکمل تباہی سے بچا ہوا ہے۔بظاہر ایران بہت مشکل میں ہے اور اس پر بہت دباؤ ہے لیکن ایرانی جنگ کرنا اور موت کو گلے لگانا جانتے ہیں۔
چونکہ ایران اسرائیل جنگ جاری ہے اس لیے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اتنے بڑے خطرے اور مخاصمت کے باوجود ایران نے صحیح سمت میں اقدام نہیں اُٹھائے۔ایران خطے کے ممالک میں اپنی ذیلی تنظیمیں کھڑا کرتا اور انھیں مسلح کرتا رہا۔ایران ہمسایہ مسلمان ممالک کو اپنا انقلاب ایکس پورٹ کرتا رہا۔جس سطح کی انٹیلی جنس ایجنسی اور فوج کی ضرورت تھی اس سے نظریں چرائی گئیں۔
جس کامیابی سے اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد نے ایران کے اندر اپنے Assetsپیدا کیے اور ان کے ذریعے جتنا نقصان پہنچایا وہ حیران کن ہے۔اسرائیل کو ہر اہم ایرانی فوجی افسر اور سائنس دان کی رہائش گاہ اور موومنٹ کی آگاہی رہی ہے۔اسماعیل ہانیہ کو مروا کے بھی ایرانی انتظامیہ نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ اسرائیل نے تہران شہر کے بیچوں بیچ ایک جگہ پر اپنا اڈہ قائم کرکے ایرانی فوجی افسروں،ایٹمی تنصیبات اور پٹرولیم ڈپوز کو نشانہ بنایا اور ایرانیوں کو خبر تک نہیں ہوئی۔ایسے لگتا ہے کہ ایرانی انتظامیہ،ایرانی افواج ا،نیوکلیئر سائنس دانوں اور اہم اداروں میں ہر کوئی Compromised ہے۔موساد نے ہر جگہ نفوذ کیا ہوا ہے۔ایرانی انتظامیہ بے بس اور نا اہل نظر آتی ہے۔آج کے دور میں راز داری، ٹیکنالوجی اور برق رفتار انٹیلی جنس بہت بنیادی جنگی ہتھیار ہیں۔
ایران نے بہت ہمت دکھائی ہے لیکن ایران کی فضائیہ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے پاس کچھ بہت پرانے امریکی ساختہ طیارے ہیں۔پچھلی تقریباٍ 5دہائیوں سے بظاہر پابندیوں کی وجہ سے ایرانی فضائیہ کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔اگر روس ایران کو S-300ڈیفنس سسٹم دے سکتا تھا تو جدید طیارے بھی فراہم کرنے کو تیار تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
اسی طرح چین سے بھی فضائی دفاع کے معاہدے ہو سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔پاکستان نے ایک وقت میں ایران،لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی میدان میں مدد دی لیکن ایران نے اس راز کو فاش کر کے پاکستان کو انتہائی مشکل میں ڈال دیا۔اڑوس پڑوس کے ممالک کے لیے ایران ایک مشکل ہمسایہ بنا رہا۔ایران آبنائے ہرمز کو بند کر کے اور بین الاقوامی ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکل کر دنیا کو بہت مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
پاکستان میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ پاکستان ایران کی فوری مدد کرے ورنہ اسرائیل اگلی بار پاکستان کو ہدف بنائے گا۔پاکستانی سوشل میڈیا اس قسم کی پوسٹوں سے بھرا پڑا ہے۔ہم ہر فیک نیوز کو بلا سوچے سمجھے دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر بھارتی میڈیا کے ذریعے بیرونی میڈیا اس میں مرچ مسالہ لگا کر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ہمارے وزرا بھی احتیاط سے بات نہیں کرتے۔پاکستان اﷲ کی ایک انمول نعمت اور بہت قیمتی تحفہ ہے۔پاکستان کی ایٹمی و فوجی قوت صرف اور صرف پاکستان کے دفاع کے لیے ہے۔ہر ملک نے اپنی لڑائی خود لڑنی ہوتی ہے۔
بھارت پاکستان لڑائی میں ایران نے بھارت کی مذمت تک نہیں کی لیکن پاکستان نے بہت کھل کر ایران کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کی۔ ایران کلبھوشن جیسے بھارتی ایجنٹوں کو ہمارے خلاف لانچ کرتا رہا ہے لیکن پاکستان نے ایک بھائی کی طرح ایران کی بہت سفارتی مدد کی۔
پاکستان کو پاکستان سے باہر کسی بھی لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ہمیں از حد چوکس رہ کر اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانا چاہیے اور حالیہ پاک بھارت جنگ سے جن کمزوریوں کی نشان دہی ہوئی ہے ان پر قابو پانا چاہیے۔ہمیں ایران اسرائیل جنگ سے بھی سبق سیکھنا چاہیے۔ ہمارا دشمن بھارت بہت کمینہ اور مکار ہے اور کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے۔بھارتی ریاست بہار میں اکتوبر انتخابات سے پہلے مودی حکومت کوئی بھی کھلواڑ کر سکتی ہے۔ خدا ایران کی مدد اور حفاظت کرے اور پاکستان کو اغیار اور منافقوں کی ریشہ دوانیوں اور حملوں سے محفوظ رکھے۔آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیل نے پاکستان کو ایران نے ایران کی ایران کے ایران ا نہیں کی ہے لیکن
پڑھیں:
صیہونی انتظامیہ کو اپنے لاکھوں غیر محفوظ شہریوں کی فکر لاحق ہوگئی
ریاستی محتسب نے 16 جون کو تل ابیب اور اس کے ان نواحی علاقوں کا دورہ کیا، جو ایرانی حملوں سے متاثر ہوئے تھے، وہیں انہون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا کہ لاکھوں اسرائیلی شہریوں کو ایرانی میزائل حملوں سے مناسب تحفظ حاصل نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ایرانی حملوں کے بعد صیہونی انتظامیہ کو اپنے لاکھوں غیر محفوظ شہریوں کی فکر لاحق ہوگئی، جنہیں زیر زمین محفوظ ٹھکانوں سمیت دیگر حفاظتی ٹھکانوں تک رسائی نہیں۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے تقریبا پورے ملک میں جنگ کی صورت میں حفاظتی ٹھکانے بنائے گئے ہیں، جنہیں ہنگامی حالات میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایرانی حملوں کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ کم سے کم 26 لاکھ اسرائیلی افراد محفوظ ٹھکانوں تک رسائی سے محروم ہیں۔
اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے ریاستی محتسب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کم سے کم 26 لاکھ اسرائیلی محفوظ ٹھکانوں تک رسائی سے محروم ہیں جو ایرانی حملوں میں آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔ ریاستی محتسب نے 16 جون کو تل ابیب اور اس کے ان نواحی علاقوں کا دورہ کیا، جو ایرانی حملوں سے متاثر ہوئے تھے، وہیں انہون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا کہ لاکھوں اسرائیلی شہریوں کو ایرانی میزائل حملوں سے مناسب تحفظ حاصل نہیں۔
ان کے مطابق 2020 میں حکومت نے رپورٹ شائع کی تھی جس میں ریاست اسرائیل میں تحفظ کے خلا کی نشاندہی کی گئی تھی، اس وقت تقریباً 26 لاکھ شہری ایسے علاقوں میں رہ رہے تھے جہاں انہیں مناسب پناہ میسر نہیں تھی۔ ان کے مطابق ایرانی حملوں کے وقت میں لاکھوں اسرائیلی شہری غیر محفوظ حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ بعض سرکاری سرکاری پناہ گاہیں ناکارہ ہیں۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق خصوصی طور پر جنوبی تل ابیب، نیگیو، اور عرب قصبوں میں لاکھوں اسرائیلی محفوظ ٹھکانوں سے محروم ہیں اور وہ اس وقت غیر محفوظ گھروں میں رہائش پذیر ہیں، حملے کی صورت میں وہاں زیادہ نقصان ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کےشمالی علاقوں میں محفوظ ٹھکانوں کی سخت ضرورر ہے، جہاں 39 بستیوں میں سے 23 بستیاں ایسی ہیں جہاں کوئی مناسب پناہ گاہ موجود نہیں اور اسرائیل پر حالیہ ایرانی حملوں کی وجہ سے انہی علاقوں میں زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ تمرا، سخنین، جدیدی، مکر، مجد الکروم، دیر الاسد، رامی اور نحف جیسی بستیوں میں جن کی آبادی تقریباً 1،50،000 ہے، وہاں ایک بھی محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں۔ اسی طرح نہریہ، عکا، صفد، اور کرمیئیل جن کی مجموعی آبادی تقریباً 2،00،000 ہے، وہاں درجنوں عوامی پناہ گاہیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں اسرائیلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بتایا گیا کہ مذکورہ علاقوں کے شہری جنگی خطرات کے مقابلے میں شدید غیر محفوظ حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔