لاہور ہائیکورٹ کا اہم فیصلہ: ٹرائل کورٹس میں گواہوں کے بیانات اردو میں لکھنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پریزائیڈنگ آفیسر سے انگلش ٹائپنگ کی غلطی ہوئی جس سے بیان میں تضاد پیدا ہوا۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ قانون کی منشا یہی ہے کہ ماتحت عدالتوں میں اردو زبان کا استعمال کیا جائے اور بیانات گواہوں کی مادری زبان میں درج کیے جائیں، تاکہ شفاف اور درست عدالتی کارروائی یقینی بنائی جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور ہائیکورٹ نے ایک اہم عدالتی فیصلے میں ٹرائل کورٹس کو ہدایت جاری کی ہے کہ گواہوں کے بیانات انگریزی کیساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کیے جائیں، تاکہ انصاف کے تقاضے پوری طرح پورے کیے جا سکیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ ماتحت عدالتوں میں اردو زبان میں بیانات درج کرنے کا نوٹیفکیشن پہلے سے موجود ہے، مگر تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ عدالت نے یہ فیصلہ محمد عرفان کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کرنے سے متعلق کیس میں سنایا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محمد عرفان پر شہری عبدالناصر کو فائرنگ کر کے قتل کرنے کا الزام ہے، تاہم مقدمے کے دوران اہم قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ گواہوں کے بیانات کا اردو ترجمہ عدالتی ریڈر نے ملزم کی عدم موجودگی میں کیا، جو قانونی خلاف ورزی ہے۔ مزید کہا گیا کہ پریزائیڈنگ آفیسر سے انگلش ٹائپنگ کی غلطی ہوئی جس سے بیان میں تضاد پیدا ہوا۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ قانون کی منشا یہی ہے کہ ماتحت عدالتوں میں اردو زبان کا استعمال کیا جائے اور بیانات گواہوں کی مادری زبان میں درج کیے جائیں، تاکہ شفاف اور درست عدالتی کارروائی یقینی بنائی جا سکے۔ عدالت نے کیس میں موجود تضادات اور ترجمے کی خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد عرفان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ ساتھ ہی رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ عدالتی فیصلے کی کاپی تمام ماتحت عدالتوں کے ججز کو فوری طور پر بھجوائی جائے تاکہ آئندہ ایسے نقائص سے بچا جا سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ماتحت عدالتوں فیصلے میں عدالت نے کیے جا
پڑھیں:
پاکستان کی تاریخ میں انسائیڈر ٹریڈنگ کے جرم میں پہلی سزا سنادی گئی
اسلام آباد:سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے دائر کیے گئے ایک کیس میں سندھ کی بینکوں میں جرائم سے متعلق اسپیشل کورٹ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انسائیڈر ٹریڈنگ کے جرم میں سزا سنا دی ہے۔
ایس ای سی پی کے مطابق عدالت نے حبیب میٹروپولیٹن بینک لمیٹڈ (ایچ ایم بی) کے اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ (اے وی پی) انویسٹمنٹس مسٹر ذاکر حسین سومجی کو سیکیورٹیز ایکٹ 2015 کے سیکشن 128 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسائیڈر ٹریڈنگ کا مرتکب پایا۔
ایس ای سی پی کے چیئرمین عاکف سعید نے قانونی ٹیم کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کی کیپٹل مارکیٹس میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو فروغ دے گا اور اس کے نتیجے میں کیپیٹل فارمیشن میں سہولت فراہم کرے گا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ فیصلہ انسائیڈر ٹریڈنگ اور مارکیٹ میں ہیرا پھیری کے زیر التوا کیسز اور جاری تحقیقات کے لیے ایک مثال قائم کرے گا، یہ کیس یکم جنوری 2014 سے 2 فروری 2016 تک کراچی آٹومیٹڈ ٹریڈنگ سسٹم (کے اے ٹی ایس) کے ڈیٹا کے تجزیہ کے ذریعے شناخت کی گئی مشکوک ٹریڈنگ سرگرمی کے ایس ای سی پی کے معائنے سے شروع ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ شبہ تھا کہ ملزم نے ایچ ایم بی میں اپنی حیثیت کی بنا پر بینک کے سرمایہ کاری اور ڈس انویسٹمنٹ کے فیصلوں سے متعلق اندرونی معلومات کا ذاتی فائدے کے لیے غلط استعمال کیا اور تحقیقات کے بعد ایس ای سی پی نے سیکیورٹیز ایکٹ 2015 کے سیکشن 128 کے تحت باضابطہ شکایت درج کی تھی، جو سیکشن 159 کے تحت قابل سزا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مکمل ٹرائل اور ایس ای سی پی کے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرز کے دلائل سننے کے بعد اسپیشل کورٹ نے 14 جون 2025 کو اپنا فیصلہ سنایا اور عدالت نے ملزم کو سیکشن 128 کے تحت انسائیڈر ٹریڈنگ کا مرتکب ٹھہرایا۔
خصوصی عدالت نے 85 لاکھ 99 ہزار 938 روپے کا جرمانہ عائد کیا جو غیر قانونی فائدے کا تین گنا ہے، یہ رقم سات دنوں کے اندر جمع کرانی ہوگی، بصورت دیگر مجرم کو مکمل ادائیگی تک جیل بھیج دیا جائے گا۔
عاکف سعید نےکہا کہ یہ فیصلہ مستقبل میں نفاذ کی کارروائیوں کے لیے ایک مضبوط مثال قائم کرتا ہے اور ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ مارکیٹ کے غلط استعمال اور ریگولیٹری خلاف ورزیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔