اسلام آباد:

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ دنیا میں تیل کے سب سے بڑے کنویں کویت اور ایران میں ہیں، اسرائیل ایران جنگ کی وجہ سے دنیا کی معیشت کو بہت فرق پڑے گا۔

اپوزیشن رہنماؤں کی پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ ایران پر اسرائیل کا حملہ دہشت گردانہ حملہ تھا، ایران کی لیڈر شپ پر حملہ کیا گیا اور جنگ بندی میں لیڈر شپ ہی کردار ادا کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں 10 کڑور 40 لاکھ بیرل دن کی کنزمپشن ہے، دنیا میں کچھ ہوتا ہے تو تیل کا ذخیرہ 12 روز سے زیادہ نہیں ہے، جاپان تک تیل بھی مشرقی وسطیٰ سے ہی آتا ہے۔

عمر ایوب نے کہا کہ آج پاکستان کے ساتھی ایم این ایز اور ورلڈ بینک کی ٹیم کی ملاقات ہوئی ہے، موجودہ حکومت گروتھ پر انحصار کر رہی تھی لیکن ان کے ماڈل میں خرابی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس سے ڈیٹا لیا جا رہا ہے، لیبر پورٹ سروے نہیں کیا گیا، پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کا ڈیٹا ہی فالٹی ہے، امریکا میں لابی موجود ہے جو ٹیرف بڑھا رہی ہے۔

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ موجودہ بجٹ ڈیڈ آن ارائیول بجٹ ہے، 6 ہزار 500 ارب کا بجٹ خسارہ بتایا گیا ہے اور تین ہزار ارب پرائیوٹ بینک سے اٹھایا جائے گا، صنعت اور محنت کشوں کو قرضہ کہاں سے دیا جائے گا، 7 ہزار ارب سود کی رقم بن جاتی ہے اور روپے کی قیمت گرنے سے سود کی قیمت بڑھ جائے گی۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ صرف 55 کڑور روپے صوبہ کے پی کے لیے مختص کیے گئے ہیں، اس بجٹ سے بینک مالکان ارب پتی نہیں بلکہ کھرب پتے بن رہے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ میں آج پاکستان تحریک انصاف کا موقف ایران کے معاملے پر قوم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ پی ٹی آئی اسرائیل کے ایران پر حملے کی شدید مذمت کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کی بین الاقوامی کمیونٹی کے ساتھ میٹنگز جاری تھیں لیکن اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کیا۔ ایران کا حق ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے، ہم ایران کی حمایت کرتے ہیں اور پی ٹی آئی ایران کی حمایت کرتی رہے گی۔

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ عرب لیگ اور او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے، سیز فائر کرایا جائے، پاکستان ایران کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔

علامہ ناصر عباس

علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیل اکیلے نہیں لڑ سکتا، ابھی جو اس نے حملہ کیا ہے وہ اسے امریکا کی طرف سے سگنل ملا ہے۔ ایران کا سارا ڈیفنس سسٹم اپنا ہے، ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا لیکن وہ ترقی کر رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے اور یہ دشمن کو قابل قبول نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام اس وقت مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ پاکستان، چین اور روس کی مشترکہ ڈیمانڈ پر اجلاس ہو رہا ہے، ہمیں پتا ہے ایران کے بعد پاکستان کی باری آنی ہے، انہوں نے کڑوروں لوگوں کا قتل کیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایران کی عمر ایوب رہا ہے

پڑھیں:

کیا غزہ میں جاری جرائم کی مذمت کافی ہے؟

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیشہ بڑے بڑے سانحات پر ایک طبقہ مذمت کرتا ہے اور اپنی ذمے داری سے فراغت حاصل کر لیتا ہے۔ یعنی اس طبقہ نے یہ احساس پیدا کر لیا ہے کہ شاید کسی بھی انسانی المیہ یا کسی حادثے پر مذمت کردی جائے توکافی ہے۔

یہاں تک کہ آج کل ماڈرن دنیا میں جہاں نیشن اسٹیٹ کا تصور پیش کیا گیا ہے، ان ریاستوں کے سربراہان بھی بڑے بڑے قومی اور بین الاقوامی سانحات پر صرف مذمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جب کہ ایک نظریہ ہے کہ ان سربراہان مملکت کو عام آدمی سے الگ ہونا چاہیے، یعنی ان کو مذمت کرنے کی جگہ عملی اقدامات انجام دینے چاہئیں لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دنیا ایسی ہی دنیا بن چکی ہے جہاں ریاستوں کے سربراہان مملکت ہوں یا افواج کے سربراہ ہوں سب کے سب سانحات اور انسانی المیوں پر مذمت سے کام چلاتے ہیں۔

اس کالم میں یہی سوال ہے کہ کیا غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس معاملے پر بھی مذمت کافی ہے؟ کیا دنیا کے حکمرانوں کی ذمے داری یہاں تک ہے کہ وہ صرف اور صرف ایک جملہ مذمت کے لیے ادا کر دیں اور پھر یہ مذمت ان کو اپنی اصل ذمے داری سے آزاد کردے۔ پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ان سربراہان مملکت کی جانب سے غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر مذمت سے مسئلہ حل ہوگیا ہے یا ہو جائے گا؟

سات اکتوبر کے بعد سے غاصب اسرائیل غزہ میں امریکا اور مغربی حکومتوں کی مدد سے مسلسل معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس قتل عام کو ایک منظم نسل کشی قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی اس کو نسل کشی قرار دیا ہے۔ دنیا بھر میں بالخصوص مغربی دنیا میں عوام غاصب صیہونیوں کے اس ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کر رہے ہیں اور ایک مہذب انداز میں احتجاج کیے جا رہے ہیں، بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں جاری ہیں، مسلمان ممالک کے عوام بھی احتجاج اور ریلیاں نکال رہے ہیں، ہر عنوان سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کے اقدام سے باز رکھا جائے اور غزہ میں جارحیت کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔

دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل یہ بات جانتی ہے کہ امریکا سمیت مغرب دنیا کی بیشتر حکومتیں اسرائیل کے ساتھ ہیں اور انھوں نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کو جرم ہی قرار نہیں دیا اور نہ ہے نیتن یاہو جیسے جنگی مجرم کی مذمت کی ہے تو بس غاصب اسرائیلی گینگ یہ سمجھتی ہے کہ اس کا حق ہے وہ جیسے چاہے جب چاہے فلسطینیوں کو قتل کرتی رہے، ان کو بھوک اور پیاس کے ذریعہ بھی قتل کرے اور گولہ بارود کے ساتھ بھی۔ یہ سب کچھ آج پوری دنیا اپنی اسکرین پر براہ راست مشاہدہ کر رہی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا صرف احتجاج اور ریلیوں اور دیگر طریقوں سے غاصب صیہونی حکومت پر دبائو بنایا جا سکتا ہے؟ یا اب تک جو بڑے بڑے احتجاج دنیا میں ہو رہے ہیں وہ کیوں اسرائیل پر دبائو قائم نہیں کر سکے۔

یقینا اس کا جواب یہی ہے کہ جہاں مغربی حکومتیں اسرائیل کا کھل کر ساتھ دے رہی ہیں وہاں مسلم دنیا کے حکمران بھی اسرائیل کو کسی نہ کسی طرح مدد فراہم کر رہے ہیں اور غاصب اسرائیل اس بات سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جنگی جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب جب یہ بات واضح ہو چکی ہے تو ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ یقینی طور پر غزہ میں جارحیت کے خاتمے کے لیے ہر ممکنہ اقدام اٹھانے کی کوشش جاری رکھی چاہیے اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

اس سوال کے تناظر میں کہ آیا مذمت کافی ہے؟ راقم الحروف سمجھتا ہے کہ کچھ مزید عملی اقدامات ہیں جو ہمیں انجام دینے کے لیے اپنی اپنی حکومتوں کو دبائو دینا پڑے گا کہ وہ ان اقدامات کی طرف آئیں، تاکہ غزہ میں باقاعدہ غاصب اسرائیل کی جارحیت اور نسل کشی کے اقدامات کو فی الفور روکا جائے۔ دراصل ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل نے ریلیوں اور مظاہروں کے دبائو سے خود کو باہر کر لیا ہے اب چاہے کتنا ہی احتجاج ہو اسرائیل مسلسل قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ کچھ عملی نظریات جو غزہ کی صورتحال پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں عوامی سطح پر حکومتوں سے مطالبات کی حد کو بڑھانا چاہیے اور مزید سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

یہاں کچھ مثالیں ہیں جیسا کہ ایک مہم چلائی جانی چاہیے جس میں شمالی افریقی ممالک سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ شمالی افریقی ممالک غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے لیے بحیرہ روم کے راستے کو بند کردیں، جیسا کہ یمن نے بحیرہ احمر میں کیا ہے۔ایک اور مہم بھی چلائی جا سکتی ہے کہ لیبیا، الجزائر، مصر، تیونس اور مراکش ایک ہی دن اردن، مصر اور شام میں مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کی طرف مارچ کریں اور اسرائیل پر دبائو بڑھائیں۔اردن اور مصر میں بڑے پیمانے پر مارچ کیے جانے چاہئیں، تاکہ یہاں پر موجود امریکی ایجنٹ اور خود امریکا اپنے آپ کو ان ممالک میں غیر محفوظ محسوس کرے اور ان ممالک سے امریکی بالا دستی کا خاتمہ ہو۔

امریکا جوکہ غزہ میں جاری نسل کشی کا برابرکا شریک جرم ہے، عوامی سطح پر مطالبات اٹھائے جانے چاہئیں کہ حکومتیں امریکا کے ساتھ تعلقات منقطع کردیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جائیں، تاکہ امریکی حکومت کی فلسطین اور انسان دشمن پالیسیوں کو آشکار کیا جا سکے۔

 مصر میں بین الاقوامی شخصیات اور علماء کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علماء اور بین الاقوامی شخصیات سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ رفح کراسنگ پر دھرنا دیں۔
 اسرائیل کے ساتھ براہ راست تعلق رکھنے والے مسلمان ممالک کی حکومتوں سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ شدت کے ساتھ کیا جائے۔ عوام کو چاہیے کہ امریکا اور غاصب صیہونیوں سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کے خلاف بائیکاٹ کی ایک وسیع مہم جاری رکھیں۔ اسی طرح مطالبات کی حد کو بڑھانے کے لیے اسلامی ممالک سے فوجی مداخلت کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔

یہ وہ چند عملی اقدامات ہیں کہ جو انجام دیے جانے چاہیے اور یہ سب اقدامات عمل کے محتاج ہیں نہ مذمت کے بیانات کے۔ غزہ میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مذمت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • بزنس کمیونٹی اور حکومت
  • ایرانی صدر کا دورہ ثبوت ہے کہ پاکستان نے ایران، اسرائیل جنگ میں مثبت کردار ادا کیا، عرفان صدیقی
  • عتیقہ اوڈھو کا متنازع بیانات پر دو ٹوک مؤقف: ’’ہر بات کو تماشا نہ بنایا جائے‘‘
  • دنیا مسجد اقصی کی بے حرمتی پر خاموش نہ رہے، اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرائے، پاکستان کا مطالبہ
  • دنیا مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر خاموش نہ رہے، اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرائے: پاکستان
  • آرٹیفشل انٹیلی جنس میں ترقی،دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
  • اسرائیلی حملے کا خطرہ برقرار ہے، ایرانی آرمی چیف
  • برطانیہ اور فرانس میں فلسطینی ریاست بنانے کی صلاحیت نہیں ہے، یہ صرف اسرائیل کی منظوری سے ممکن ہے: مارکو روبیو
  • گورننگ کونسل میں ایران کیخلاف قرارداد کے 1 روز بعد ہی تہران پر حملہ محض اتفاق نہیں، ماسکو
  • کیا غزہ میں جاری جرائم کی مذمت کافی ہے؟