’ساری توجہ، سرمایہ کاری اور وسائل کرکٹ کے لئے دستیاب ہیں، مگر ہماری ہاکی جو کہ ہمارا قومی کھیل ہے کو زندہ رکھنے کے لئے بھی مسلسل جدو جہد کرنی پڑ رہی ہے۔ کیا یہاں کوئی ایک بھی ایسا آدمی ہے جو صرف باتیں نہ کرے اور عملی کام پر توجہ دے۔ بطور کھلاڑی میرا دل انتہائی رنجیدہ ہے۔‘

یہ الفاظ ہیں پاکستان کی نیشنل ہاکی  ٹیم کے کپتان عماد بٹ کے، جو ایسی ٹیم کی قیادت کر ہے ہیں جو ملائشیا کے نیشنل ہاکی سٹیڈیم بکت جلیل میں کھیلنے جا رہے۔ نیشنز کپ ہاکی کے فائنل تک پہنچ چکی ہے، مگر کھلاڑیوں کو ابھی تک ٹی اے ڈی اے کی مد میں ادائیگیاں نہیں کی جا سکتی ہیں۔

پاکستان ہاکی کے مالی مسائل کا پائیدار حل کیا ہے؟ دنیا کے دیگر ممالک میں ہاکی بجٹ کی کیا صورت حال ہے اور اس حوالے سے پاکستان ہاکی کے کرتا دھرتا کیا کہتے ہیں۔

فنڈز کی کمی اپنی جگہ، مگر مسائل کے حل کیلے پی ایچ ایف کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل ہی موجود نہیں۔

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے اس پنج ستارہ ہوٹل کی لابی ہوٹل جس میں کھڑے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر طارق بگٹی اور سیکٹری رانا مجاہد سے جب یہ سوال کیا کہ ٹیم کو درکار اس ایونٹ میں شرکت کیلے فنڈز کا انتظام کیسے کیا تو ان کا جواب تھا ’بہت مشکل سے‘۔

یہ آج کی بات نہیں ہے، پاکستان ہاکی ٹیم طویل عرصے سے مالی مشکلات کا شکار ہے، مگر مسائل کے حل کیلے پی ایچ ایف کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔

پاکستان انڈیا کے ری سٹرکچر نگ ماڈل کو اختیار کر سکتا ہے جس میں پرائیویٹ لیگ، میگا سپانسر شپ، کھلاڑیوں کی بریڈنگ شامل ہے۔ مگر ہاکی فیڈریشن کے موجودہ ذمہ داران کے پاس ایسا کوئی نسخہ دستیاب نہیں، جو ائی سی یو میں موجود پاکستان ہاکی کی اکھڑی سانسیں بحال کر سکے۔

وسائل کی کمی: پاکستان اور فرانس ایک ہی صف میں کھڑے ہیں

مالی مسائل اور فنڈز کی کمی پاکستان ہاکی ٹیم کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ فرنچ کوچ جوہان ڈوھمین جو خود بھی ہاکی لینڈ ہیں اور متعدد اولمپکس بیلجیم کی طرف سے کھیل چکے ہیں نے بھی ایسی ہی رواداد سنائی۔

ڈوھمین کے مطابق گزشتہ 5 میں سے 2 اولمپکس جیتنے کے باوجود ان کی ٹیم کو بھی معاشی مشکلات درپیش ہیں۔ ہاکی فرانس کی ترجیحی گیمز میں شامل نہیں۔ جہاں فٹ بال، والی بال، رگبی سمیت دیگر کھیلوں کو کہیں زیادہ وسائل دستیاب نہیں، وہیں مالی مسائل کے باوجود پاکستان اور فرانس کی ٹیموں کو دستیاب فنڈز، انفراسٹرکچر اور مواقع کا دور دور تک کوئی مقابلہ نہیں۔

کیا پاکستان سمیت دنیا بھی ہاکی کا کھیل زوال کا شکار ہے؟ پاکستانی ہیڈ کوچ کی رائے

کیا دنیا بھر میں ہاکی کا کھیل وسائل کی فراہمی کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہے؟ پاکستان ہاکی ٹیم کے ہیڈ کوچ طاہر زمان کے مطابق ہر ملک کی اپنی ترجیحا ت ہیں۔ کہیں کرکٹ، کہیں فٹ بال، رگبی، والی بال اور باسکٹ بال سمیت کو ترجیحی سپورٹس کا درجہ حاصل ہے، مگر پاکستان کا معاملہ الگ ہے یہاں ہاکی قومی کھیل ہے۔

ہماری ایک تاریخ ہے، ہمیں اس کھیل کے ساتھ نہ صرف جڑے رہنا ہے، بلکہ اس کو اوپر بھی لے کر جانا ہے۔ طاہر زمان کے مطابق مغربی ممالک کے کھلاڑیوں کو بھی حکومتوں سے اتنا تعاون نہیں ملتا۔

نیشنز کپ میں بھی کئی ایسی ٹیموں کے کھلاڑی موجود میں جو اس ایونٹ کیلئے ملائشیا کا ٹکٹ تک خود کروا کر آئے ہیں، مگر ان کا اور ہمارا کلچر مختلف ہے وہ ایک ایسی معاشرت کا حصہ ہیں جہاں پر ذمہ داریاں کم ہیں، مگر پاکستان میں کھلاڑی کو میدان میں پرفارمنس دینے کے علاوہ اپنے خاندان کو بھی سپورٹ کرنا ہوتا ہے۔

اگر وہ کل وقتی کھلاڑی ہیں تو اس کیلئے یہ ناممکن ہوگا کہ وہ پی ایچ ایف سے فنڈز نہ ملنے کے باوجود زندگی کی گاڑی رواں دواں رکھ سکے۔

ہاکی ویور شپ، سپانسر شپ اور سٹارڈم کے حوالے سے پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا میں گراوٹ کا شکار ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں ہاکی کی عالمی باڈی کے ممبرز کی تعداد 138 سے زائد ہے مگر ویور شپ کے حوالے سے فٹبال، والی بال، باسکٹ بال، رگبی، ٹینس سائکلنگ اور کرکٹ کہیں آگے ہیں۔

اسی طرح انفرادی طور پر کوئی ایک بھی ایسا میگا سٹار ہاکی پلیئر موجود نہیں ہے جس کے  ہاکی کھیلنے والے چند بڑے ممالک میں بھی مداح موجود ہیں۔

فوربز کی زیادہ کمائی والے کھلاڑیوں کی ابتدائی 500 لسٹ میں بھی کوئی بھی ہاکی کھلاڑی موجود نہیں ہے۔ اسی طرح عالمی سطح پر سپانسر شپ کے حوالے سے بھی ہاکی ابتدائی لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ جو اس بات کی عکاسی ہے کہ ہاکی صرف پاکستان میں ہی نہیں۔

پوری دنیا میں زوال پذیر ہے، سپانسر شپ، ویورشپ، سٹارڈم دلانے کیلئے صرف پی ایچ ایف نہیں، بلکہ آئی ایچ ایف کی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اویس لطیف

اولمپکس کھیل ہاکی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اولمپکس کھیل ہاکی پاکستان ہاکی کے حوالے سے موجود نہیں سپانسر شپ بھی ہاکی نہیں ہے کا شکار کی کمی کی ٹیم

پڑھیں:

خاموش کیوں ہو بھائی ۔۔۔

’کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں

پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں‘

مہدی حسن کی خوبصورت آواز میں یہ گیت یقیناً آپ نے سنا ہو گا، یہ ہے بھی حقیقت، اکثر انسان کشمکش میں پڑ جاتا ہے کہ کرے  تو کرے کیا، بولے یا خاموش رہے۔

کچھ افراد تو اتنا بولتے ہیں کہ ان کے لیے چپ رہنا مشکل ہوتا ہے، تو دنیا میں ایسے افراد بھی کئی ہیں جو یہ ہی سوچتے ہیں کہ بولیں تو آخر بولیں کیا، ہمارا آج کا موضوع بھی اس سے ملتا جلتا ہے اور وہ ہے خاموشی۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اپنی بات کو خوبصورت اور پراثر الفاظ کا پیراہن پہنا کر پیش کرنا ایک فن ہے، مگر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جو بات الفاظ نہیں کہہ سکتے، وہ خاموشی کہہ دیتی ہے۔

آپ نے یہ گیت ضرور سنا ہو گا، ابھی خوبصورت بول پڑھ کر گزارا کیجئے

’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے‘۔

یہ بات کچھ غلط بھی نہیں، مگر یہ خصوصیت ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں، وہ کہتے ہیں نا کہ  خاموشی ایک ایسا فن ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا۔ خاموشی میں ایک گہرائی اور ایک سکون ہوتا ہے، مگر  کبھی کبھی یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔

سمندر کی لہریں شور مچاتی ہیں، باتیں کرتی ہیں مگر اس کے اندر کتنی خاموشی اور گہرائی ہے، کوئی نہیں جانتا، انسان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے، اور کچھ انسان خوب بولتے ہیں، مگر ان کے اندر حقیقت میں کیا خاموشی ہے، اسے جانچنا باہر کی دنیا کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

کہتے ہیں شاعر معاشرے کا ایک حساس طبقہ ہوتے ہیں، شعرا نے خاموشی کو کئی خوبصورت رنگوں میں الفاظ کے موتیوں میں پرویا ہے۔

شاعروں کے شاعر جون ایلیا نے کیا خوب کہا ہے،

’مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے‘

ندا فاضلی کا خوبصورت خیال پڑھیے

’ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے‘

کئی افراد کے لیے خاموشی کی زبان سمجھنا مشکل نہیں بہت مشکل ہے، اس کا مطلب کوئی کچھ نکالتا ہے تو کوئی کچھ اور ۔ خلیل الرحمن اعظمی کا یہ شعر ہی دیکھ لیجئے

نکالے گئے اس کے معنی ہزار

عجب چیز تھی اک مری خامشی‘

خاموشی صرف اردو شاعری میں ہی نہیں، اسے محاوروں میں بھی خوب استعمال کیا گیا ہے، جیسے’ایک چُپ سو سُکھ‘ اور یہ بات حقیقت بھی ہے، اگر انسان یہ سیکھ لے کہ کہاں بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا بہتر ہے تو اس کی زندگی ہی سنور جائے۔

یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ خاموشی کو نیم رضامندی سمجھا جاتا ہے،

یا پھر یہ بات بھی تو سمجھائی جاتی ہے کہ پہلے تولو پھر منھ سے بولو، یعنی بولیں ضرور مگر بولنے سے پہلے سوچ لیں تو بہتر ہے، ورنہ اکثر نقصان بھی ہوتا ہے۔

چپ کا روزہ رکھنا، یہ محاورہ بھی ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے خاموشی اختیار کرنا اور کچھ نہ بولنا۔

خاموشی پر اس لطیفے سے بھی لطف اندوز ہوں

ماں بچے سے، جب 2 بڑے بات کر رہے ہوں تو تم خاموش رہا کرو،

ایک دن ماں کھانا بنا رہی تھی اور ساتھ موبائل پر کسی سے بات بھی کر رہی تھی کہ اچانک آگ لگ جاتی ہے، قریب کھڑے بچے کو فوراً پتہ چل جاتا ہے لیکن وہ خاموش رہتا ہے، ماں کو آگ کا پتہ چلتا ہے تو وہ فوراً  بجھانے میں کامیابی ہو جاتی ہے، پھر بیٹے سے پوچھتی ہے کہ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ آگ لگی ہے۔

بیٹا جواب دیتا ہے کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جب بڑے بات کر رہے ہوں تو  خاموش رہنا سیکھو۔

بالی ووڈ ہو لالی ووڈ یا پھر ہالی ووڈ، خاموشی کا شوبز انڈسٹری سے بھی گہرا تعلق ہے، خاموشی کے نام سے کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

پاکستان میں خاموشی کے نام سے ڈرامے اور ٹیلی فلم بن چکی ہے، بالی ووڈ کی بات کریں تو اس نام سے کئی فلمیں بن چکی ہیں، خاموشی کو انگلش میں کہتے ہیں Silence اور اس نام سے ہالی ووڈ میں بھی کئی فلمیں بن چکی ہیں۔

خاموشی کے کئی فوائد بھی ہیں، تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ صرف 2  منٹ کی خاموشی انسان کے لیے بے حد مفید ہے۔ خاموشی اور پرسکون ماحول سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے، اعصابی نظام  کو سکون  ملتا ہے، خود کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ صرف دو منٹ کی خاموشی موسیقی سے زیادہ پُرسکون اثر ڈال سکتی ہے، خاموش  رہنے سے دماغ کو سوچنے، سمجھنے اور یاد رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ دماغ پر دباؤ نہ ہو تو ہم زیادہ تخلیقی کام کر سکتے ہیں۔

اب ذرا ہٹ کے سوچتے ہیں، موجودہ دور میں اکثریت کے پاس موبائل فون ضرور ہوتے ہیں، اکثر یوں بھی ہوتا ہے، کمرے میں یا کہیں باہر، دوست یا عزیز بیٹھے ہوں تو باتیں کم ہوتی ہیں اور ہاتھوں کی انگلیاں موبائل پر زیادہ چلتی ہیں، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ موبائل کی اس دنیا نے بھی لوگوں کی باتیں چھین لی ہیں۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اکثر مواقع پر خاموش رہنا ہی بہتر ہے، مگر بہت زیادہ خاموشی کبھی کبھی نقصان دہ بھی ہوتی ہے، خاص طور پر اپنے حق کے لیے ضرور بولنا چاہیے، اگر کوئی اپنا ناراض ہے تو منانے میں دیر  بھی نہ کریں اور اگر ممکن ہو تو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے، سب گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کریں، تنہائی  اور خاموشی  انسان کے لیے کسی زخم سے کم نہیں ہوتی۔

اور چلتے چلتے منیر نیازی کی اس  شاہکار نظم سے لطف اٹھائیے

’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

 

اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘

اور اگر آپ کے پاس اس بات کا جواب ہے تو ضرور دیں

’خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے

مگر یہ تو بتائیں، کہاں ہوتی ہے‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بہادر گائے نے جان پر کھیل کر اپنی ساتھی کو چیتے کا شکار بننے سے بچایا، ویڈیو وائرل
  • پولیس فورس کو مضبوط بنانے کیلئے وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں: طلال چوہدری
  • پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے: وزیراعظم
  • خاموش کیوں ہو بھائی ۔۔۔
  • پی سی بی کا WCL میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شرکت پر پابندی کا اعلان
  • خیبرپختونخواہ کے وسائل نہ کسی نے مانگے، نہ کسی کو دئیے اور نہ کسی کو دیے جائیں گے
  • اب تو پی ٹی آئی کو بہانہ مل گیا ہے، رانا ثنا کا طنز
  • بھارت پھر دھول چاٹنے پر مجبور، پاکستانی خالد محمود ایشین باکسنگ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن منتخب
  • لیجنڈز لیگ، اگلے سال پاکستان کا نام استعمال نہیں ہوگا، پی سی بی نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟
  • اپوزیشن والے ذہنی بیماری کا شکار، چیخ و پکار کا فائدہ نہیں: عطا تارڑ