ایران کے خلاف امریکی حکمت عملی پر اثر انداز ہونے والا طاقتور جنرل کون ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران سے متعلق حکمت عملی پر اثر انداز ہونے والا ایک طاقتور جنرل منظر عام پر آیا ہے، جسے ایران کے جوہری مقامات پر ممکنہ امریکی حملے کی منصوبہ بندی کی غیر معمولی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ امریکی اخبار “پولیٹیکو” کی رپورٹ کے مطابق وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے مشرق وسطیٰ کی حالیہ کشیدگی کے دوران جنرل ایرک کوریلا کو غیر معمولی اختیارات دیے ہیں۔ جنرل کوریلا ایران کے حوالے سے سخت گیر موقف رکھتے ہیں اور فوجی طاقت کے استعمال کے حامی ہیں۔
وہ امریکی سینٹرل کمانڈ (United States Central Command – CENTCOM) کے موجودہ سربراہ ہیں۔ جنرل مائیکل ایرک کوریلا (Michael Erik Kurilla) ایک تجربہ کار اور سینئر فوجی افسر ہیں جنہوں نے عراق اور افغانستان سمیت کئی جنگی محاذوں پر قیادت کی۔ وہ اپنی سخت گیر سوچ، مضبوط جسمانی ساخت اور جنگی حکمت عملی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں اور امریکی فوجی و دفاعی حلقوں میں ان کا بڑا اثر و رسوخ ہے۔
جنرل کوریلا، جو امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ہیں، ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی درخواست پر خطے میں مزید طیارہ بردار بحری جہاز، جنگی طیارے اور دیگر فوجی ساز و سامان تعینات کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر دفاع نے کوریلا کی تقریبا تمام سفارشات منظور کی ہیں۔ کوریلا کو پنٹاگون کے دیگر اعلیٰ افسران پر فوقیت حاصل ہے اور وہ خاموش مگر فیصلہ کن انداز میں امریکی پالیسی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
کوریلا کو صدر ٹرمپ سے دیگر جرنیلوں کے مقابلے میں زیادہ براہ راست رسائی حاصل ہے۔ وہ اپنی مدتِ قیادت کے اختتام کے قریب ہونے کے باعث پالیسی میں سخت موقف اپنانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ان کے مشورے پر امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں دوسری طیارہ بردار کشتی، ایف-22، ایف-35 اور ایف-16 طیارے تعینات کیے ہیں، جس سے بحرالکاہل سے ان طیاروں کی واپسی ہوئی اور مشرق وسطیٰ ایک بار پھر امریکی توجہ کا مرکز بن گیا۔
پینٹاگون کے حکام کا کہنا ہے کہ کوریلا اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ جنرل ڈین کین کے درمیان اختلاف کی بات درست نہیں اور دونوں مل کر صدر کو مشورے دیتے ہیں۔ کوریلا، جو عراق جنگ کے دوران زخمی ہوئے اور برونز اسٹار حاصل کر چکے ہیں، اپنی سخت گیر شخصیت اور جنگی مہارت کے باعث ٹرمپ انتظامیہ کی نظر میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت، مضبوط جسمانی ساخت اور دبدبہ انہیں ایسا جرنیل بناتا ہے جیسا کہ ٹرمپ اور ان کے وزیر دفاع دیکھنا چاہتے ہیں۔
ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی تیسری قوت ایران اور اسرائیل کے درمیان تصادم میں مداخلت کرے گی تو اسے بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امریکی فوجی مداخلت کی صورت میں ایسے نقصانات ہوں گے جو ناقابل تلافی ہوں گے اور ایرانی قوم کسی کے سامنے جھکنے والی نہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ دو ہفتے امریکی فیصلے کے لیے اہم ہوں گے کہ آیا ایران پر حملہ کیا جائے گا یا نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
غزہ؛ زوردار دھماکے میں 4 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 3 زخمی
غزہ کے جنوبی شہر رفح میں ایک ملٹری آپریشن کے دوران ہونے والے دھماکے میں اسرائیلی فوج کے 4 اہلکار ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بتایا کہ دھماکا سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے ہوا جب وہاں سے فوجی قافلہ گزر رہا تھا۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی شناخت 26 سالہ میجر اومری چائی بن موشے، 20 سالہ لیفٹیننٹ رون اریئلی، 22 سالہ لیفٹیننٹ ایتان آونر بن اتزحاک اور (23) سالہ رامات یوحانان کے ناموں سے ہوئی۔
اس دھماکے میں تین اسرائیلی فوجی زخمی بھی ہوئے جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے جب کہ دو کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان کے بقول یہ واقعہ صبح 9 بج کر 15 منٹ پر رفح کے جنینہ محلے میں پیش آیا، جہاں فوجی دستے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو کلیئر کر رہے تھے اور ایک بھاری D9 بلڈوزر قافلے کی قیادت کر رہا تھا جبکہ پیچھے دو فوجی گاڑیاں تھیں۔ انہی میں سے ایک دھماکہ خیز آلے سے ٹکرا گئی۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اس یونٹ نے صبح کے وقت عسکریت پسندوں سے تین مختلف جھڑپوں میں حصہ لیا تھا۔ یہ بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ دھماکے سے پہلے کہیں حماس کے اسنائپر کی فائرنگ تو نہیں ہوئی۔
ترجمان اسرائیلی فوج نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے فوجی ڈیكل بٹالین (Dekel Battalion) سے تعلق رکھتے تھے، جو اسرائیلی فوج کے افسران کے تربیتی اسکول بہاد 1 (Bahad 1) کا حصہ ہے۔ یہ یونٹ گزشتہ تین ہفتوں سے غزہ میں آپریشنز میں مصروف تھا۔
یاد رہے کہ حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے میں 1500 افراد مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر فوجی اہلکار تھے۔
اس کے بعد غزہ میں حماس کے ساتھ سرحد پر یا اندرون شہر دوبدو جنگ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 879 ہے۔