صدر ٹرمپ کی جانب سے ٹک ٹاک کو 90 دن کی مہلت، پابندی تیسری مرتبہ مؤخر
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے چین کی ملکیتی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کو امریکا میں مزید 90 دن کے لیے کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے، اس اقدام کا مقصد ایپ کو امریکی ملکیت میں منتقل کرنے کے لیے کسی ممکنہ معاہدے کے لیے وقت حاصل کرنا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان انہوں نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر کیا، جبکہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر نے یہ توسیع اس لیے دی ہے تاکہ معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
’ٹک ٹاک بے حد مقبول ایپ ہے، لیکن ساتھ ہی صدر امریکی شہریوں کے ڈیٹا اور پرائیویسی کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں مقاصد بیک وقت حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں:
یہ تیسری مرتبہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے پابندی کی ڈیڈلائن میں توسیع کی ہے۔ پہلی مرتبہ انہوں نے 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ توسیع کی تھی، جب کانگریس اور سپریم کورٹ کی منظوری کے بعد ایک قومی پابندی عارضی طور پر نافذ ہوئی تھی۔
دوسری توسیع اپریل میں کی گئی، جب وائٹ ہاؤس ایک معاہدے کے قریب تھا، جس کے تحت ٹک ٹاک کو امریکی ملکیت میں تبدیل کیا جانا تھا، لیکن چین کی جانب سے ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں پر اعتراض کے بعد یہ معاہدہ ناکام ہو گیا۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ صدر اس پابندی کو کتنی بار مزید مؤخر کر سکتے ہیں، یا قانونی بنیاد پر یہ توسیع کب تک ممکن ہے، اگرچہ اس فیصلے کو قانونی چیلنج درپیش نہیں لیکن اسے کچھ حلقوں میں تنقید کا سامنا ضرور ہے۔
مزید پڑھیں:
ٹک ٹاک، جو چین کی کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے، اس وقت امریکا میں 170 ملین صارفین اور 75 لاکھ کاروباروں کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔ کمپنی نے ایک بیان میں صدر کے اقدام کو سراہتے ہوئے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ہے۔
’ہم صدر ٹرمپ کی قیادت اور حمایت کے شکرگزار ہیں جن کی بدولت ٹک ٹاک امریکی صارفین کے لیے دستیاب ہے، ہم نائب صدر وینس کے دفتر کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود بھی اس پلیٹ فارم پر خاصے مقبول ہو چکے ہیں اور ان کے فالورز کی تعداد 1.
مزید پڑھیں:
دوسری طرف، سینیٹ انٹیلیجنس کمیٹی کے ڈیموکریٹک رکن سینیٹر مارک وارنر نے صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی ہی حکومت کے سیکیورٹی خدشات اور امریکی قوانین کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ’ایک ایگزیکٹو آرڈر قانون کا متبادل نہیں بن سکتا، لیکن صدر یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق ای مارکیٹر کے تجزیہ کار جیریمی گولڈ مین کے مطابق، امریکا میں ٹک ٹاک کی صورتحال اب ڈیڈلائن کے ایک ساکت دائرے جیسی ہو چکی ہے۔ ’یہ سب اب گھڑی کی ٹِک ٹِک کی بجائے ایک لوپ شدہ رنگ ٹون جیسا لگنے لگا ہے۔‘
فاریسٹر کی تجزیہ کار کیلسے چکرنگ کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک اپنے مستقبل کے حوالے سے پُراعتماد ہے، اسی لیے انہوں نے حالیہ دنوں میں فرانس کے شہر کان میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس ویڈیو ٹولز بھی متعارف کرائے۔
مزید پڑھیں:
فی الحال، ایپل، گوگل اور اوریکل جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی ٹک ٹاک کی سپورٹ جاری رکھے ہوئے ہیں، اس وعدے پر کہ امریکی محکمہ انصاف ان پر بھاری جرمانے عائد نہیں کرے گا۔
ٹک ٹاک پر امریکی رائے بھی خاصی منقسم ہے، پیو ریسرچ سینٹر کے حالیہ سروے کے مطابق صرف ایک تہائی امریکی شہری ایپ پر پابندی کے حامی ہیں، جبکہ 2023 میں یہ شرح 50 فیصد تھی۔ ایک تہائی پابندی کے مخالف ہیں، جبکہ باقی غیر یقینی کیفیت میں ہیں۔
ٹک ٹاک پر پابندی کے حامیوں میں سے 80 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کے فیصلے کی بنیادی وجہ صارفین کے ڈیٹا سیکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی محکمہ انصاف اوریکل ایپل بائٹ ڈانس ٹک ٹاک ڈیٹا سیکیورٹی ڈیڈلائن سپریم کورٹ سوشل میڈیا ایپ صدر ٹرمپ کانگریس گوگلذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی محکمہ انصاف اوریکل ایپل بائٹ ڈانس ٹک ٹاک ڈیٹا سیکیورٹی ڈیڈلائن سپریم کورٹ سوشل میڈیا ایپ کانگریس گوگل انہوں نے ٹرمپ کی ٹک ٹاک کے لیے کہ صدر
پڑھیں:
ٹرمپ اور ممدانی کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات، نیتن یاہو کی گرفتاری پر کیا بات ہوئی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیویارک کے نو منتخب میئر ظہران ممدانی کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق اس ملاقات کو عمومی طور پر انتظامی معاملات پر مبنی ایک رسمی نشست قرار دیا جا رہا تھا، مگر اس کی پس منظر میں موجود سیاسی حساسیت اور بین الاقوامی معاملات نے اسے معمول سے کہیں زیادہ توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ممدانی کے ساتھ ان کی نشست مؤثر، خوشگوار اور مستقبل کے لیے امید افزا رہی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی کوشش ہوگی کہ ممدانی کو تمام ممکنہ تعاون فراہم کیا جائے تاکہ وہ نیویارک شہر کے انتظامی چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔
گفتگو کا رخ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ممکنہ احتساب اور گرفتاری سے متعلق سوال کی طرف موڑا گیا تو ٹرمپ نے صاف الفاظ میں بتایا کہ اس معاملے پر ملاقات کے دوران کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
ٹرمپ کا یہ جواب کئی نئے سوالات کو جنم دیتا ہے، خصوصاً اس لیے کہ ظہران ممدانی امریکا کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے کھلے ناقد سمجھے جاتے ہیں اور فلسطین کے حق میں واضح مؤقف رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ ٹرمپ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ممدانی کے چند فیصلے قدامت پسند حلقوں کے لیے حیرت کا باعث بن سکتے ہی۔
ٹرمپ نے گفتگو کے دوران مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسیوں کا دفاع بھی کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں خطے میں امن کی راہ ہموار ہوئی۔ انہوں نے دنیا کے 8 بڑے امن معاہدوں کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے خاتمے کو بھی وہ انہی کوششوں کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ملاقات کے دوران ظہران ممدانی نے نام لیے بغیر کہا کہ امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے ایسے ممالک کی مدد میں استعمال نہیں ہونے چاہییں جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہے ہوں۔ ان کا یہ موقف نہ صرف امریکی سیاست میں ایک جرات مندانہ اظہار سمجھا جا رہا ہے بلکہ اسرائیل کے لیے امریکی مالی معاونت پر جاری بحث میں بھی ایک نئی شدت پیدا کر رہا ہے۔
ٹرمپ نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ ان کے حامی ممدانی کی حمایت کریں، کیونکہ دونوں کا ایک مشترکہ مقصد ہے جسے وہ جنگوں کا خاتمہ قرار دیتے ہیں۔