جی 20 ممالک نے امریکی شمولیت کے بغیر اعلامیہ منظور کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
جنوبی افریقہ میں جی 20 رہنماؤں کے اجلاس نے ہفتے کے روز ایک اعلامیہ منظور کیا ہے، جس میں ماحولیاتی بحران اور دیگر عالمی چیلنجز پر بات کی گئی ہے، تاہم یہ اعلامیہ امریکی شمولیت کے بغیر تیار کیا گیا ہے، جسے وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے ’شرمناک‘ قرار دیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اعلامیے میں وہ زبان استعمال کی گئی ہے، جس کی واشنگٹن طویل عرصے سے مخالفت کرتا رہا ہے، اور اسے ’دوبارہ مذاکرات کے لیے نہیں کھولا جا سکتا‘۔
ترجمان نے کہا کہ ہم نے اس منظوری کے لیے پورا سال کام کیا ہے اور گزشتہ ہفتے خاصا دباؤ رہا۔
ہفتہ وار اجلاس کی میزبانی کرنے والے صدر رامافوسا نے اس سے قبل کہا تھا کہ اعلامیے کے لیے بھاری اکثریت میں اتفاقِ رائے موجود تھا۔
4 ذرائع کے مطابق جو اس معاملے سے واقف ہیں، جی 20 کے ایلچیوں نے جمعے کے روز یہ مسودہ امریکی شرکت کے بغیر تیار کیا۔
دستاویز میں وہ زبان استعمال کی گئی ہے جسے ٹرمپ انتظامیہ ناپسند کرتی رہی ہے، یعنی موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی اور اس سے نمٹنے کی بہتر حکمت عملیوں کی ضرورت پر زور دینا، اس میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے بلند اہداف کی تعریف کی گئی اور غریب ممالک کی جانب سے قرضوں کی بھاری ادائیگیوں کے بوجھ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے متعلق زبان کا شامل کیا جانا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ’سفارتی دھچکے‘ کے طور پر دیکھا گیا، جو اس سائنسی اتفاقِ رائے پر شکوک کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ عالمی حدت انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہوتی ہے، امریکی اہلکار پہلے ہی اشارہ دے چکے تھے کہ وہ اس طرح کے حوالوں کی مخالفت کریں گے۔
اپنے افتتاحی خطاب میں رامافوسا نے کہا کہ ہمیں کسی بھی چیز کو پہلے افریقی جی 20 صدارت کی قدر، وقار اور اثر کم کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
ان کا یہ پُر اعتماد لہجہ اگست میں وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران ان کے نسبتاً خاموش رویے کے برعکس تھا، جب انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے غط دعوے کو برداشت کیا تھا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام کسانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، بعد میں ٹرمپ نے کہا کہ امریکی حکام اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے کیوں کہ میزبان ملک پر سفید فام اقلیت کو دبانے کے الزامات ہیں۔
جغرافیائی سیاسی تقسیم
امریکی بائیکاٹ کے باوجود رہنماؤں نے خبردار کیا کہ معاشی بحران حل کرنے میں جی 20 کا کردار جغرافیائی سیاسی تقسیم کے باعث خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
رامافوسا نے ٹرمپ کی غیر موجودگی کو کم اہمیت دی اور مؤقف اختیار کیا کہ جی 20 اب بھی بین الاقوامی تعاون کے لیے کلیدی فورم ہے۔
تاہم فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اجلاس کے دوران خبردار کیا کہ جی 20 شاید اپنے ایک دور کے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، افتتاحی خطاب میں میکرون نے کہا کہ رہنما اس میز پر ’بڑے عالمی بحرانوں کے حل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘۔
دوسری جانب، یورپی یونین کی کمشنر ارسلا وان ڈیر لین نے اپنی تقریر میں ’انحصار کے ہتھیار بننے‘ کے خطرے سے خبردار کیا، جو چین کی جانب سے توانائی کی منتقلی کے لیے ضروری نایاب معدنیات کی برآمدات پر پابندیوں کی طرف اشارہ تھا۔
اگرچہ امریکا نے اجلاس میں شرکت نہیں کی، مگر اس نے آئندہ جی 20 اجلاس میں صدارت سنبھالنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، ٹرمپ 2026 میں اگلا اجلاس فلوریڈا کے ایک گولف کلب میں منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جو ان کی ذاتی ملکیت ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے کہا کہ کی جانب کے لیے کی گئی
پڑھیں:
غزہ کے حوالے سے امریکی قرارداد کی حمایت شرمناک ہے، تنظیم اسلامی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(نمائندہ جسارت)پاکستان کا سلامتی کونسل میں غزہ کے حوالے سے عالمی فورس پر امریکی قرارداد کی حمایت کرنا انتہائی تشویش ناک ہے۔غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے دوران امریکا کی اسلام دشمنی دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔ نیٹو طرز کا مسلم ممالک کا عسکری اتحاد بننے تک ابلیسی اتحادِ ثلاثہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ رکھے گا۔ ان خیالات کا اظہار تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کا سعودی عرب کیساتھ دفاعی معاہدہ کرنا، نان نیٹو اتحادی بنانا اور F-35 طیاروں جیسی مراعات کی فراہمی کا مقصد اسرائیل کو تسلیم کروانا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پرجوش مصافحوں، مسکراہٹوں اور بیانات کی شہ سرخیوں میں امریکی مفادات اور تضادات واضح نظر آتے ہیں۔ غزہ میں قیام امن کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاس ہونے والی قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے امیر تنظیم اسلامی نے کہا کہ ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ غزہ میں قیام امن کا فارمولا فلسطینی مسلمانوں کی خواہشات اور امنگوں کا ترجمان نہیں اورحکومتِ پاکستان کا اس قرارداد کی حمایت کرنا انتہائی شرم ناک ہے۔ لہٰذا اس قرارداد کے نتیجے میں پاکستان کو مختلف ممالک کی افواج پر مشتمل بین الاقوامی استحکام فورس کا ہرگز حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نہاد امن معاہدے سے غزہ میں امن قائم نہیں ہو سکا کیونکہ اس معاہدے کا ایک فریق، ناجائز صہیونی ریاست سرائیل، مسلسل ہٹ دھرمی، وعدہ خلافی اور جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی فورسز کے مظالم کی وجہ سے آج بھی غزہ میں اسپتالوں کے ملبے سے فلسطینی شہدا کی لاشیں برآمد ہو رہی ہیں۔ جب تک مسلم ممالک متحد ہو کر نیٹو طرز کا عسکری اتحاد نہیں بنائیں گے اس وقت تک اسرائیل، امریکہ اور بھارت پر مشتمل ابلیسی اتحاد ثلاثہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیے رکھے گا۔