اسرائیل جنگ پر یورپی ممالک سے مذاکرات احترام اور سنجیدگی کیساتھ ہوئے، ایرانی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
جنیوا میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کی برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی سربراہ سے ہونے والے مذاکرات کو ایران میں سراہا گیا۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے "ایرنا" کے مطابق اسرائیل کے ساتھ جنگ کے آٓغاز کے بعد پہلی بار یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات جنیوا میں ہوئے۔
ایرانی سرکاری میڈیا کا مزید کہنا تھا کہ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات احترام اور سنجیدگی" پر مبنی تھے۔
ایرانی میڈیا کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات تقریباً ساڑھے تین گھنٹے جاری رہے، جن میں ایران کے جوہری پروگرام پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ عراقچی نے مذاکرات کے دوران تمام فریقین کے مؤقف کو سنا اور سنجیدہ تبادلہ خیال کیا۔
ایرانی میڈیا کے بقول اگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو کچھ نکات مزید واضح ہو سکتے ہیں، جس سے سفارت کاری کی راہ ہموار ہو گی۔"
ان مذاکرات سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین اب بھی امید رکھتے ہیں کہ وہ تاریخی کردار ادا کر کے سفارتی عمل کو آگے بڑھانے کا ایک اور موقع حاصل کر سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایران اسرائیل تنازعہ: یورپی ممالک کی سفارتی حل کی کوششیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) گزشتہ جمعے کو اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف اچانک حملے کے بعد سے کشیدگی میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب یہ بحران دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔
کشیدگی میں کمی کے بہت کم آثار نظر آ رہے ہیں، جبکہ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی مہم میں شامل ہونے کے آپشن پر غور کر رہا ہے۔
یورپ کی سفارتی حل کی کوششایران اسرائیل تنازعے پر بات چیت کے لیے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ جمعے کے روز اپنے ایرانی ہم منصب سے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس کا مقصد ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر سفارت کاری کی طرف واپسی کا راستہ بنانا ہے۔
ان مذاکرات میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی، فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نول بیروٹ، جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس شامل ہوں گے۔
(جاری ہے)
’جارحیت کی جنگ میں‘ آئی اے ای اے اسرائیل کی شراکت دار، ایرانی الزام
برطانوی وزیر خارجہ لیمی نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور پھر انہوں نے کہا کہ تہران کے ساتھ سفارتی حل تک پہنچنے کے لیے ابھی بھی وقت ہے۔
لیمی نے واشنگٹن میں برطانیہ کے سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا، "مشرق وسطیٰ کی صورتحال بدستور خطرناک ہے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "ہم نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ ایران کو گہرے ہوتے تنازعے سے بچنے کے لیے کس طرح ایک معاہدہ کرنا چاہیے۔ سفارتی حل کے حصول کے لیے اب ایک ونڈو اگلے دو ہفتوں تک موجود ہے۔"
ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیلی حملوں کی مہم جاری ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف حملوں میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں، اس تناظر میں یورپی ممالک تنازعے کو کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایرانی قیادت کو نشانہ بنانے کے خلاف آیت اللہ سیستانی کی وارننگ
اگلے دو ہفتوں میں ایران کے خلاف کارروائی کا فیصلہامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات پر تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ آیا زیر زمین جوہری تنصیبات پر بمباری کر کے وہ ایران پر اسرائیل کے حملے میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔ ان کے سیاسی حامی بھی اس معاملے پر منقسم ہیں۔
ٹرمپ نے بذات خود اپنی انتخابی مہم کے دوران اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ غیر ملکی جنگوں میں ملوث نہیں ہوں گے۔
جمعرات کی شام کو وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ صدر ٹرمپ آئندہ دو ہفتوں میں ایران پر حملہ کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔
پوٹن جرمن چانسلر اور یوکرین کے صدر سے ملاقات کے لیے تیار
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کو اب بھی ایک موقع نظر آتا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات امریکی اور اسرائیلی مطالبات کو حاصل کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی افزودگی کے عمل اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے دیگر امکانات کو بند کر دے۔
لیویٹ نے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ "اس حقیقت کی بنیاد پر کہ ایران کے ساتھ مستقبل قریب میں مذاکرات کا بہت امکان ہے یا نہیں بھی ہو سکتا ہے، میں اپنا فیصلہ اگلے دو ہفتوں کے اندر کروں گا کہ جنگ میں شامل ہونا ہے یا نہیں۔
"امریکہ اس بات پر غور کرتا رہا ہے کہ آیا وہ فردو کے مقام پر ایران کی محفوظ ترین یورینیم افزودگی کی تنصیب پر حملہ کر کے اسرائیل کے حملے میں شامل ہو یا نہ ہو۔ یہ تنصیب ایک پہاڑ کے نیچے واقع ہے اور اسے امریکی "بنکر بسٹر" بموں سے ہی تباہ کیا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جمعرات کو کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ٹرمپ "وہ کریں گے جو امریکہ کے لیے بہتر ہو گا۔
"نیتن یاہو نے کہا کہ "میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ وہ پہلے ہی بہت مدد کر رہے ہیں۔"
آبنائے ہرمز عالمی تیل کی سپلائی کے لیے اہم کیوں؟
ایران میں موجود افغانوں کو خوف اور بے یقینی کا سامناپناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کا اندازہ ہے کہ تقریباً ساڑھے چار ملین افغان شہری ایران میں مقیم ہیں۔
بعض دوسرے ذرائع کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای تنہا پڑتے جا رہے ہیں؟
تاہم اطلاعات ہیں کہ ایران میں افغان مہاجرین کے لیے حالات ابتر ہو چکے ہیں۔
انہیں صرف انتہائی مہنگی قیمتوں پر خوراک خریدنے کی اجازت ہے اور ان پر تہران چھوڑنے پر پابندی بھی عائد ہے، جبکہ طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں ان کے لیے واپس جانا بھی کوئی آپشن نہیں ہے۔
ایران اسرائیل کے درمیان موجودہ خطرناک تنازعے کے سبب ایسے افغانوں کی زندگی مزید بہت مشکل ہو گئی ہے۔
ادارت: جاوید اختر