امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کی وجہ سے پاکستان کا قد کاٹھ بہت بڑھ گیا ہے اور اب ہمارے لیے موقع ہے کہ پاک امریکا تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: فیلڈ مارشل کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اندرونی کہانی کیا ہے؟

وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں مسعود خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان ہونے والی ملاقات غیر معمولی تھی۔ انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر امریکی صدور دوسرے ممالک کے فوجی سربراہان سے ملاقاتیں نہیں کرتے لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات جو غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کی اہمیت ایسے وقت میں اور بڑھ گئی جب حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوئی ہے اور مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ چھڑ چکی ہے۔

مسعود خان نے کہا کہ سنہ 2018 سے ہم یہ کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان فوجی رابطے بحال ہوں اور فوجی قیادت کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے ہوں اور دونوں ملکوں کے درمیان معاشی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس چیز کے  لیے اسٹیج پہلے ہی سیٹ ہو چکا تھا جب صدر ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھاتے ہوئے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں پاکستان کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا۔

’اس ملاقات کے آپٹکس بہت اہم ہیں‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ اس ملاقات کے نظری تاثرات (آپٹکس) بہت اہمیت کے حامل ہیں اور صدر ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد اعادہ کیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیے: صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی غیرمعمولی ملاقات پر بھارت میں بے چینی، پروپیگنڈا فیکٹریاں سرگرم

انہوں نے کہا کہ ایران اسرائیل جنگ کے وقت پاکستان کا وائٹ ہاؤس میں موجود ہونا بھی اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ پاکستان اس خطّے کا اہم ملک ہے اور ہمارا ایک یہ بھی پیغام ہے کہ ایران اسرائیل جنگ بند کروائی جائے۔

ایران اسرائیل جنگ بندی میں پاکستان کردار ادا کر سکتا ہے؟

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ ماضی میں بھی ایران عراق جنگ میں پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے دونوں ملکوں میں جنگ بندی کرانے کی کوشش کی اور یہ ہم دوبارہ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں گے کیونکہ ایران ہمارا برادر، ہمسایہ ملک ہے۔ لیکن یہ جنگ بہت ہی الجھی ہوئی جنگ ہے کیونکہ اس میں اسرائیل کے ساتھ امریکا کھڑا ہے۔

’اسرائیل غزہ سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے‘

مسعود خان نے کہا کہ ایران جنگ کے ساتھ اسرائیل غزہ سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے جو کہ بہت حد تک ہٹ بھی چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے گزشتہ روز راشن کے لیے اکٹھے ہونے والے درجنوں فلسطینیوں کو مار دیا اور یہ خبر زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکی۔

’یورپی یونین مذاکرات میں اسرائیل مطمئن نہیں ہو گا‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ اس وقت جنیوا میں یورپی یونین اور ایران کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں اگر امریکا مطمئن ہو بھی گیا تو اسرائیل نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ظہرانہ، مینیو میں کیا تھا؟

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل صرف اس صورت مطمئن ہوگا جب ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر ختم کر دی جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر امریکا مطمئن نہ ہوا تو یہ جنگ بہت خوفناک صورت اختیار کر جائے گی لیکن امریکا کی کوشش ہے کہ ایک طرف اسرائیلی حملے جاری رہیں جس سے ایران دباؤ میں آئے گا۔

’اسرائیل کا امریکا نظام پر تسلط بہت گہرا ہے‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ وہ 14 برس امریکا میں رہے ہیں اور اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کا امریکی نظام پر گہرا تسلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس، امریکی انتظامیہ، امریکی میڈیا اور امریکی مالیاتی ادارے سب اسرائیل کی گرفت میں ہیں اور اس لیے مجھے اسرائیل کے لیے امریکا کے روّیے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب بھی جن کے پاس اقتدار ہے وہ سب اسرائیل کے حامی ہیں اور سابق صدر جو بائیڈن نے بھی ایک بار کہہ دیا تھا کہ ہمیں اسرائیل کا ممنون ہونا چاہیے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ہمارا کام کر رہا ہے اور اگر اسرائیل نہ ہوتا تو ہمیں ایجاد کرنا پڑتا لہٰذا اسرائیل کی حمایت امریکا کی پالیسی کا بہت بڑا حصّہ ہے۔

’امریکا میں اسرائیل مخالف آوازیں توانا ہو رہی ہیں‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ امریکا میں اسرائیل مخالف آوازیں توانا ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ برنی سینڈرز کو نظر انداز کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی جھکاؤ بائیں بازو کی جانب ہے لیکن ٹکر کارلسن اور اسٹیو بینن کی آوازوں کو خاموش نہیں کر سکتے کیونکہ یہ صدر ٹرمپ کے بہت قریب اور ان کے حلقہ انتخاب کا حصّہ ہیں اور ان کے علاوہ بیسیوں دیگر بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ امریکا کو ایک انتہائی مہنگی جنگ میں پھر سے شامل نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے: فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ٹرمپ ملاقات، بھارت حیران و پریشان، کیا پاکستان ایران کا ساتھ دے گا؟

مسعود خان نے کہا کہ اسرائیل کے کہنے پر وہ عراق چلے گئے تھے جس پر 3 ٹریلین ڈالر اور ہزاروں امریکی جانیں گئیں اور اس کے ساتھ اسرائیل نے جو غزہ میں ہولناک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور اس سے بھی امریکا میں دباؤ بڑھا ہے۔

’امریکا کے لیے بہتر نہیں کہ اسرائیل ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے لے جائے‘

ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ ایران اسرائیل جنگ جلد ختم ہو جائے گی یا نہیں اس بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے لیکن اس کے بارے میں کوششیں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں کوشش کی جا رہی ہے، یورپی یونین اس وقت جنیوا میں مذاکرات کر رہی ہے جس میں جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے وزرائے خارجہ، یورپی یونین کے اعلیٰ سطحی نمائندگان اور ایران کے وزیر خارجہ آغا عباس عراقچی موجود ہیں جن کی پہلی ترجیح کسی ایسے حل پر پہنچنا ہے جو بیک وقت ایران اور امریکا دونوں کو مطمئن کر سکے۔

مسعود خان نے کہا کہ دوسرا صدر ٹرمپ کے اوپر ان کے اپنے حلقوں سے دباؤ ہے کہ اس راستے پر نہ چلیں کیوں کہ اس میں امریکا کے لیے تباہی ہے اور امریکا کے لیے یہ اچھا نہیں کہ اسرائیل اس کی ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے لے جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر امریکا کے کچھ ہدف نشانہ بن گئے اور امریکا جنگ میں شامل ہو گیا تو یہ جنگ بہت پھیل جائے گی اور سارے خلیجی ممالک کو لپیٹ میں لیتے ہوئے یہ جنگ عظیم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

’امریکا بھارت تعلقات میں دراڑ کے پیچھے بھارت کی دھوکے بازی ہے‘

صدر ٹرمپ کے پاکستان کے حق میں بیانات سے ہندوستان میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے اور بھارتی میڈیا اور سیاستدان امریکا کے بارے میں بہت برہم نظر آتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کو سمجھ میں آگیا تھا کہ بھارت کس طرح عیاری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تزویراتی شراکت دار وہ امریکا کا ہے لیکن یوکرین جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس سے سستا تیل خرید کر عالمی منڈیوں میں بیچ رہا ہے، دوسرے برکس تنظیم میں ایک ترقیاتی بینک کے قیام کے پیچھے بھی بھارت ہے اور وہ ڈالر کی اجارہ داری کو توڑنے کے لیے ایک نیا مالیاتی نظام لے کر آنا چاہتا ہے اور تیسرے نمبر پر امریکا کو سمجھ میں آگیا ہے کہ بھارت چین کے خلاف کھڑا نہیں ہو سکتا۔

مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی ملاقات پاک امریکا تعلقات میں ’سنگ میل‘ ہے، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف

مسعود خان نے کہا کہ امریکا کو وہ کہتا تو ہے کہ وہ چین کے خلاف کھڑا ہو گا لیکن چین کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں جبکہ پاک بھارت جنگ بندی میں ہم نے امریکا کا شکریہ ادا کیا لیکن بھارت صدر ٹرمپ کے بیانات پر مسلسل تنقید کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کو اس وقت سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے پہنچ رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل صدر ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکا اور ہندوستان کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے اور ہندوستان کو توقع تھی کہ اس بار ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بار پھر صدر بن جانے سے بھارت اور امریکا کے تعلقات زیادہ مضبوط ہوں گے کیونکہ امریکا میں کلیدی عہدوں پر یا تو بھارت نژاد امریکی ہیں یا بھارت نواز امریکی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایمبیسیڈر مسعود خان بھارت پاک امریکا تعلقات فیلڈ مارشل اور ڈونلڈ ٹرمپ کی میٹنگ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایمبیسیڈر مسعود خان بھارت پاک امریکا تعلقات فیلڈ مارشل عاصم منیر ایران اسرائیل جنگ انہوں نے کہا کہ ا فیلڈ مارشل جنرل میں پاکستان یورپی یونین میں اسرائیل نے کہا کہ اس صدر ٹرمپ کے اور امریکا کہ اسرائیل اسرائیل کے امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کا اس ملاقات کے درمیان سے ملاقات امریکا کے کہ امریکا کہ ایران نہیں ہو ہیں اور کے ساتھ ٹرمپ کی ہیں کہ تھا کہ یہ جنگ ہے اور اور اس کہ پاک رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود

قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تاثر جنم لے رہا ہے کہ بعض حلقے دانستہ اور بعض نادانستہ طور پر مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں کہا گیا کہ غزہ کی حکومت میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور اگر حماس کو ختم کر دیا گیا تو فلسطین دفاعی قوت سے محروم ہو جائے گا۔ مسعود خان نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں پہلے ہی یہودی بستیاں آباد ہیں اور اب منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں بسانے کی راہ ہموار کی جائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ تعریف رہا ہے اور ایران اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر کے دانشمندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں اور دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں نہ صرف خطے بلکہ ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ امریکا کو حملے کا صرف چند منٹ پہلے پتا چلا ہو۔ مسعود خان نے کہا کہ یہ حملہ عالمِ اسلام خصوصاً عرب دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور خطے میں ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80ء کی دہائی میں دفاعی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور اب دوبارہ مشترکہ دفاعی نظام بنانے پر غور کر رہے ہیں، لیکن امریکا کے زیر اثر ہونے کے باعث ان کے لیے اس پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔

ان کے مطابق خلیجی ممالک اس صورتحال میں روس اور چین کی طرف دیکھ سکتے ہیں، تاہم ان کے ساتھ موجودہ تعلقات زیادہ تر معاشی ہیں اور دفاعی تعاون محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کے پاس اربوں ڈالر کے سرمائے ہیں اور امریکا ہر سال انہیں اسلحہ فراہم کرتا ہے مگر اس سطح تک نہیں جو اسرائیل کی برتری کو چیلنج کر سکے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے لیے خلیجی ممالک کو کمزور کیا جائے گا یا ان کی سکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام سامنے آئے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کا ایجنڈا وہی ہو گا جو 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ملاقات میں طے پایا تھا، جسے اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں حتمی شکل دی گئی تھی اور اس تناظر میں پاکستان کے لیے کچھ مثبت فیصلے متوقع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن سے جوڑنا درست نہیں، کیونکہ اسامہ بن لادن کوئی مذاکرات نہیں کر رہا تھا جبکہ حماس رہنما خلیل الحیا قطر میں امریکا کی مرضی سے مذاکرات کے لیے آئے تھے۔ قطر پر حملے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کے فوری دورہ قطر کو انہوں نے ایک اہم فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ قطر کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں، وہاں بڑی تعداد میں پاکستانی اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور قطر خطے میں ایک اہم پل کا کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے حوالے سے سردار مسعود خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے، گزشتہ برس دہشت گردی میں چار ہزار افراد جان سے گئے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ کئی بار یقین دہانی کرا چکے ہیں مگر اس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور دہشت گردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودیہ معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کردار قابل ستائش ہے
  • گیم چینجر پاک سعودی دفاعی معاہدے کے پیچھے شہباز اور عاصم منیر کا ٹیم ورک
  • سعودیہ سے معاہدے کی تیاری و تکمیل میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار ہے
  • صدر ٹرمپ کا ’گولڈن ڈوم‘ منصوبہ حتمی منصوبہ بندی کے مرحلے میں داخل
  • غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
  • پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • بلوچستان کے اسکواش کھلاڑی شاہد مسعود خان نے یورپ و امریکا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑدیے