امریکا کی نئی پابندیاں ایران کو کتنا متاثر کر سکتی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
امریکا نے ایران کے خلاف ایک اور سخت قدم اٹھاتے ہوئے 20 ایرانی اداروں، 5 افراد اور 3 بحری جہازوں پر انسداد دہشت گردی کے تحت نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران جنگ دوسرے ہفتے میں داخل، یورپی ممالک اور تہران کے درمیان سفارتی رابطے جاری
ان پابندیوں کا مقصد ایران کی عسکری اور دفاعی سرگرمیوں کو محدود کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد میں پاسداران انقلاب اسلامی کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایران کو خطے میں کشیدگی بڑھانے سے روکنے کی کوشش کا حصہ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کے پاس ممکنہ امریکی فضائی حملے سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ 2 ہفتے کا وقت ہے، اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ (ٹرمپ) اس مدت سے پہلے بھی فیصلہ لے سکتے ہیں۔
ایران یورپی ممالک سے بات چیت نہیں کرنا چاہتاٹرمپ نے کہا کہ ایران یورپی ممالک سے بات چیت نہیں کرنا چاہتا، اور جنیوا میں یورپی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کو بھی خارج از امکان قرار دیا۔ ان مذاکرات کا مقصد اسرائیل اور ایران کے مابین جاری تنازع کو ختم کرنا ہے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ فی الحال اسرائیل سے حملے روکنے کی درخواست کرنے کے امکان کو کمزور سمجھتے ہیں، خاص طور پر اس کے بعد جب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ جب تک اسرائیل جارحیت نہیں روکتا، تہران امریکا سے بات چیت دوبارہ شروع نہیں کرے گا۔
انہیں ایک مہلت دی ہےٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے انہیں ایک مہلت دی ہے، اور میں کہوں گا کہ 2 ہفتے اس کی زیادہ سے زیادہ حد ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کیا لوگ عقل سے کام لینا شروع کرتے ہیں یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:’ایرانی میزائلوں کی تباہ کن طاقت میں مسلسل اضافہ‘
یاد رہے کہ گزشتہ جمعرات کو جاری بیان میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اگلے 2 ہفتوں کے اندر فیصلہ کریں گے کہ کارروائی کرنی ہے یا نہیں، کیونکہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے امکانات موجود ہیں۔
ٹرمپ کے اس بیان کو وسیع پیمانے پر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ختم کرنے کے لیے 2 ہفتے کی سفارتی مہلت کے طور پر دیکھا گیا تھا، جس کے بعد یورپی طاقتوں نے تہران سے فوری مذاکرات شروع کر دیے تھے۔
یورپ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتاتاہم، اپنے تازہ ترین بیان میں ٹرمپ نے واضح کیا کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر پیش رفت نہ ہوئی تو وہ 2 ہفتوں کا انتظار کیے بغیر بھی فیصلہ لے سکتے ہیں۔
انہوں نے یورپ کے کردار کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کے سفارتکاروں کی ایرانی وزیر خارجہ سے بات چیت بے سود رہی۔ ایران یورپ سے نہیں بلکہ ہم سے بات کرنا چاہتا ہے۔ یورپ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا۔
دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہےجب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے مطالبے پر اسرائیل سے حملے روکنے کی درخواست کریں گے، تو انہوں نے کہا کہ اس وقت ایسا کہنا بہت مشکل ہے۔ اگر کوئی فریق غالب ہو رہا ہو تو یہ درخواست کرنا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن ہم تیار ہیں، بات چیت کے لیے بھی آمادہ ہیں، اور دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا امریکی پابندیاں ایران ٹرمپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا امریکی پابندیاں ایران سے بات چیت ایران کے نہیں کر یہ بھی نے کہا کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-20
تہران( مانیٹرنگ ڈیسک) ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران کو جوہری پروگرام پرامریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے‘نہ ہم جوہری پروگرام پر پابندی کو قبول کریں گے ۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایران نے امریکا کے ساتھ ممکنہ مذاکرات اور جوہری پروگرام سے متعلق واضح پالیسی بیان جاری کر دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں تاہم بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ہم ایک منصفانہ معاہدے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن امریکا نے ایسی شرائط پیش کی ہیں جو ناقابل قبول اور ناممکن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کریں گے۔ اور کوئی بھی سمجھدار ملک اپنی دفاعی صلاحیت ختم نہیں کرتا۔ عباس عراقچی نے کہا کہ جو کام جنگ کے ذریعے ممکن نہیں وہ سیاست کے ذریعے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مخالفین کے خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن یورینیم افزودگی نہیں روکیں گے۔انہوں نے کہا کہ جون میں اسرائیل اور امریکا کے حملوں کے باوجود جوہری تنصیبات میں موجود مواد تباہ نہیں ہوا۔ اور ٹیکنالوجی اب بھی برقرار ہے۔ جوہری مواد ملبے کے نیچے ہی موجود ہے اور اسے کہیں دوسری جگہ منتقل نہیں کیا گیا۔ اسرائیل کے کسی بھی جارحانہ اقدام کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔