ایران کو امریکی مہلت کے بعد تیل کی عالمی منڈی بے یقینی کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے خلاف ممکنہ فضائی کارروائی کے فیصلے کو 2 ہفتے تک مؤخر کرنے کے اعلان نے تیل کی عالمی منڈی میں فوری ردعمل پیدا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کے پاس فیصلے کے لیے 2 ہفتے آخری مہلت ہے، ٹرمپ کا انتباہ
صدر ٹرمپ نے اس مہلت کا مقصد ایران کو مذاکرات کا ایک آخری موقع دینا قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر بات چیت میں کوئی سنجیدہ پیشرفت نہ ہوئی تو وہ 2 ہفتوں سے پہلے بھی کارروائی کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس سیاسی تذبذب نے توانائی کی منڈی میں غیر یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے۔
قیمتوں میں کمی اور ممکنہ بحالیعرب نیوز کے مطابق ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد برینٹ خام تیل کی قیمت میں 2.
امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (WTI) کی قیمت 75.19 ڈالر فی بیرل پر مستحکم رہی۔ اگرچہ ان قیمتوں میں یومیہ کمی واقع ہوئی، لیکن مجموعی طور پر اس ہفتے کے دوران نرخوں میں تقریباً تین فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اتار چڑھاؤ صرف وقتی ہے، کیونکہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تو قیمتیں دوبارہ تیزی سے اوپر جا سکتی ہیں۔
جغرافیائی خدشات اور سپلائی پر اثرمارکیٹ میں بنیادی تشویش خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کے سب سے اہم بحری راستے، آبنائے ہرمز، کے ممکنہ متاثر ہونے کی ہے۔ ایران بارہا یہ اشارہ دے چکا ہے کہ اگر اس پر حملہ ہوا تو وہ اس راستے کو بند کر سکتا ہے، جس سے عالمی تیل ترسیل میں شدید خلل پڑ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران جنگ دوسرے ہفتے میں داخل، یورپی ممالک اور تہران کے درمیان سفارتی رابطے جاری
اگر ایسا ہوا تو تیل کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل سے بھی تجاوز کر سکتی ہیں، جس کا اثر عالمی معیشت پر بھی پڑے گا۔
یورپی ثالثی کی ناکامیٹرمپ نے یہ بھی واضح کیا کہ ایران یورپی ممالک سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کے نمائندے ایرانی وزیر خارجہ سے مذاکرات کر چکے ہیں، لیکن صدر ٹرمپ کے مطابق یہ کوششیں بے نتیجہ رہیں۔ ان کے مطابق ایران براہ راست امریکا سے مذاکرات چاہتا ہے، اور یورپ اس بحران کے حل میں کوئی کلیدی کردار ادا نہیں کر سکتا۔
اسرائیل اور ایران کے تناظر میں امریکی مؤقفصدر ٹرمپ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے مطالبے پر اسرائیل سے اپنے حملے روکنے کا کہہ سکتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت ممکن نہیں۔ اگر کوئی فریق جیت رہا ہو تو اس سے پیچھے ہٹنے کو کہنا قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔
ان کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اسرائیل کی کارروائیوں کو فی الوقت چیلنج کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
عوامی اور مارکیٹ کا ردعملاس تمام تر سیاسی کشیدگی اور مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے باوجود، بین الاقوامی سرمایہ کار حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹوں میں بھی احتیاط کا رجحان دیکھا جا رہا ہے، جبکہ توانائی کمپنیوں کے شیئرز میں عارضی ردوبدل دیکھنے کو ملا ہے۔
عالمی اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر موجودہ کشیدگی برقرار رہی تو صرف توانائی مارکیٹ ہی نہیں، بلکہ خوراک، ٹرانسپورٹ، اور صنعتوں کی لاگت میں بھی نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال دنیا بھر کے لیے ایک نازک لمحہ ہے۔ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور امریکا نے عملی فوجی اقدامات کیے، تو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری عالمی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔ آنے والے چند دن یا ہفتے تیل منڈی اور عالمی سیاست دونوں کے لیے فیصلہ کن ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آبنائے ہرمز امریکا امریکی صدر ایران ترمپ تیل ٹرمپ عالمی منڈیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی صدر ایران تیل عالمی منڈی ایران کے کے مطابق تیل کی یہ بھی کے لیے
پڑھیں:
سعودی عرب کو اسرائیل کے مقابلے میں کم درجے کے ایف 35 طیارے دیئے جائیں گے، امریکی حکام
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکام نے کہا کہ سعودی طیاروں میں وہ اعلیٰ خصوصیات شامل نہیں ہوں گی جو اسرائیلی بیڑے میں موجود ہیں، جن میں جدید ہتھیاروں کے نظام اور الیکٹرانک وار فیئر آلات شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی حکام اور دفاعی ماہرین نے کہا ہے کہ امریکا سعودی عرب کو ایف 35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کا جو منصوبہ بنا رہا ہے، وہ اسرائیل کے زیرِ استعمال طیاروں کے مقابلے میں کم تر درجے کے ہوں گے، کیونکہ ایک امریکی قانون اسرائیل کی خطے میں عسکری برتری کی ضمانت دیتا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکام نے کہا کہ سعودی طیاروں میں وہ اعلیٰ خصوصیات شامل نہیں ہوں گی جو اسرائیلی بیڑے میں موجود ہیں، جن میں جدید ہتھیاروں کے نظام اور الیکٹرانک وار فیئر آلات شامل ہیں۔ اسرائیل کو اپنے ایف 35 طیاروں میں ترمیم کے خصوصی اختیارات حاصل ہیں، جن میں اپنے ہتھیاروں کے نظام کو ضم کرنے اور ریڈار جیمنگ کی صلاحیتیں اور دیگر اپ گریڈ شامل کرنے کی اجازت ہے، جن کے لیے امریکا کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود، جیسا کہ منگل کو ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا، اسرائیلی فضائیہ اس مجوزہ فروخت کی مخالفت کرتی ہے اور اس نے سیاسی رہنماؤں کو ایک دستاویز میں خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام خطے میں اسرائیل کی فضائی برتری کو کمزور کرے گا۔
مچل انسٹیٹیوٹ فار ایرو اسپیس اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈگلس برکی کے مطابق اگرچہ سعودی عرب کو یہ طیارے مل بھی جائیں، امکان ہے کہ اسے AIM-260 جوائنٹ ایڈوانسڈ ٹیکٹیکل میزائل (JATM) نہ دیا جائے جو اگلی نسل کے لڑاکا طیاروں کے لیے تیار کی جانے والی اگلی نسل کا فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے۔ JATM کے 120 میل سے زیادہ کے فاصلے کو ایف-35 پلیٹ فارم سے وابستہ سب سے حساس میزائل ٹیکنالوجی سمجھا جاتا ہے, یہ میزائل غالباً اسرائیل کو ہی فراہم کیے جائیں گے۔ ایف-35 ہر ملک اور ہر پائلٹ کے لیے تخصیص کردہ ہوتا ہے۔ امریکا کے پاس سب سے زیادہ قابل ورژن موجود ہیں، جبکہ دیگر تمام ممالک کو اس سے کم تر درجے کے طیارے ملتے ہیں، سعودی طیاروں کو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اسرائیلی طیاروں کے مقابلے میں کم مضبوط رکھنا ممکن ہے، جس کا انحصار اس سافٹ ویئر پیکیج پر ہے جس کی طیاروں کے لیے اجازت دی جائے۔
رپورٹ کے مطابق صلاحیت کے فرق کے علاوہ، اسرائیل عددی برتری بھی رکھتا ہے، کیونکہ وہ اس وقت ایف-35 کے دو اسکواڈرن چلا رہا ہے اور تیسرا آرڈر پر ہے، سعودی عرب کو دو اسکواڈرن تک محدود رکھا جائے گا جن کی فراہمی میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اسرائیل گزشتہ تقریباً آٹھ برسوں سے خطے میں ایف 35 کا واحد استعمال کنندہ رہا ہے۔ امریکی حکام نے کہا کہ فروخت کو حتمی شکل دینے سے قبل اسرائیل کی معیاری عسکری برتری کا باضابطہ جائزہ ضروری ہو گا، سعودی عرب کو ہونے والی ہر فروخت کی کانگریس سے منظوری درکار ہوتی ہے، ایک اہلکار نے اشارہ دیا کہ کانگریس میں اسرائیل کی مضبوط حمایت اس منظوری میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ حکام نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اسرائیل، سعودی عرب کو ابراہیمی معاہدوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ خطے میں تعلقات کو معمول پر لایا جا سکے اور ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی سے بچا جا سکے۔
کانگریس کی جانب سے ویٹو پروف مشترکہ قرارداد کے ذریعے اس کی مخالفت کرنے کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی تاکہ صدر کے ویٹو کو کالعدم قرار دیا جا سکے، جو ایک مشکل ہدف سمجھا جاتا ہے۔ یہ فروخت سعودی عرب کو قطر اور متحدہ عرب امارات کے برابر لا کھڑا کرے گی، جنہیں ایف 35 طیاروں کی پیش کش کی گئی ہے، تاہم یہ معاہدے اب بھی ڈیلیوری شیڈول، طیاروں کی صلاحیتوں، اور ٹیکنالوجی تک چین کی ممکنہ رسائی پر تحفظات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔