بجٹ کی منظوری سے قبل مشورے اور عالمی یوگا ڈے
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
بجٹ 2025-26 اپنی منظوری کے آخری مراحل طے کر رہا ہے۔ بجٹ پر اتحادیوں کے درمیان مشاورت ہو رہی ہے۔ چند روز قبل پٹرول کی قیمت میں اضافہ بھی ہوگیا۔ بجٹ کا اعلان ہوتے ہی ہر شے کی قیمت بڑھنے لگی۔ مکان مالکان نے 10 فی صد اضافے کا تقاضا شروع کردیا، بس مالکان نے کرائے بڑھا دیے، حکومت 12 لاکھ سالانہ آمدن پر ٹیکس کا بوجھ لادے گی جو پہلے ہی 50 ہزارکرائے کی مد میں 30 ہزار روپے بجلی کے بلوں کو تھام کر ہزاروں روپے کے گیس کے بلوں اور پانی کے بلوں کو تھام کر یا دل تھام کر ڈگمگاتے لڑکھڑاتے قدموں سے اپنی قسمت کا شکوہ بیان کررہے ہیں۔
ایسے میں ان پنشن ہولڈرز پرکیا گزر رہی ہے، جسے اپنا دل چیرکر اس بات کا انتخاب کرنا ہے کہ دوا پوری خریدوں یا کم کر کے ایک عدد آم بھی خرید لوں تاکہ اہل خانہ کو ایک ایک ٹکڑا آم کا قیمتی نذرانہ پیش کروں۔ کروں تو کیا کروں؟ اب حکومت ہی کچھ کر لے مشاورت ہی کر لے، کم از کم 10 فی صد پنشن میں اضافہ کر دے، تاکہ بوڑھے لرزتے ہوئے جسم میں خوشی کی چند لہریں دوڑ جائیں۔
سولر پینلز پر 18 فی صد ٹیکس کم کرکے 10 فی صد کر دیا گیا ہے، جہاں تک جامعات کے لیے فنڈز بڑھانے کا تعلق ہے تو صرف ایک صوبے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ پورے ملک کی جامعات اور HEC کو دیے گئے فنڈز کو بڑھایا جائے۔ ریسرچ اور تحقیقی منصوبوں کو مزید ترقی دی جائے۔ جب ایک قوم اپنے تعلیمی اور اعلیٰ تعلیم پر ریسرچ کرنے والے اداروں کے فنڈز میں کمی لے کر آتی ہے تو وہ دراصل طالب علموں کو ذہن، دریافت، جستجو کی دنیا آباد کرنے سے روک دیتی ہے۔ تعلیم پر جی ڈی پی کا خرچ پاکستان میں سب سے کم ہے۔
یہاں تک کہ بھارت کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے اور ایران کے بجٹ کا ایک تہائی ہے جب کہ عالمی بینک یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، میتھس اور دیگر علوم میں تیزی سے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں کیا ہم اپنے تعلیمی اداروں کو ایسا بجٹ دے سکتے ہیں جس سے کمرے اور کرسیاں اور امتحان کے ساتھ ذہن دریافت اور جستجو ریسرچ کی دنیا بھی آباد کر سکیں، آپ ملک کے مختلف شہروں میں یونیورسٹیزکی پتلی مالی حالت کی خبریں اکثر سنتے رہتے ہیں، کہیں اساتذہ کی کمی ہے کیونکہ فنڈز نہیں ہیں، چند اساتذہ پر لیکچرز کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ ریسرچ گرانٹس کہیں کم یا کہیں منجمد کیے جا رہے ہیں، اس طرح کی باتیں بتا رہی ہیں کہ ہم طلبا کو صرف امتحانی پرچوں تک محدود کر رہے ہیں۔ ان پر تحقیقی، سائنسی یا تکنیکی سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں، لہٰذا اعلیٰ تعلیم پر ترقیاتی فنڈز کے ساتھ وفاقی اور صوبائی تعلیمی بجٹوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔
ہر سال 21 جون کو ’’ عالمی یوگا ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا آغاز 2015 سے ہوا۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ ’’ یوگا‘‘ ان کا تحفہ قدیم ہے لیکن نیپال، چین اور یہاں تک کہ ایرانی و ترک قدیم روایات بھی یوگا سے مشابہ طرز و فکر کی نشان دہی کرتی ہیں۔ یوگا کا اصل مطلب ہے ’’جوڑنا‘‘ یعنی سانس کو شعور سے، جسم کو روح سے اور انسان کو کائنات سے جوڑنا۔
یوگا کا تقریباً ہر آسن Posture جن سے بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے یعنی بغیر دوا کے۔ اس طرح اس کے اصول طب اسلامی کے قریب بھی دکھائی دیتے ہیں، جیسے ابن سینا اور امام رازی نے تنفس، سکون اور ذہنی طہارت کو ’’شفا کے اسباب ‘‘ قرار دیا ہے۔ اسی طرح یوگا میں سانس کی ترتیب، خاموشی پر زور دیا جاتا ہے۔ مشہور عالمی شہرت یافتہ ’’ یوگا‘‘ کے استاد ڈاکٹر بشیر شیخ یوگا مشقوں کے دوران خاموشی اور مراقبے کے ذریعے اللہ کی طرف دھیان دینے کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔
پاکستان جہاں مہنگائی کے سبب ذہنی دباؤ، ہر شخص اپنی کسی نہ کسی بیماری کا ذکر کرتا ہے، اس کے ساتھ مثبت خیالات کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسے میں اپنی صحت کے مسائل سے یوگا کے ذریعے نبردآزما ہو سکتے ہیں اور یوگا کے ماہرین اس فن کے اساتذہ یوگا کو اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور کر سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
وفاقی حکومت کے تعلیمی اخراجات تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت پاکستان کی جانب سے تعلیم کے شعبے کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کے بچوں کی تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سیو دی چلڈرن تنظیم نے بچوں کی تعلیم سے متعلق تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس میں بتایا گیا ہےکہ وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ برس تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے باوجود تقریبا 2 کروڑ 60 لاکھ بچے یا پھر ہر 3 میں سے ایک بچہ اسکول سے باہر ہے۔
پاکستانی بچوں کا اتنی بڑی تعداد میں اسکولوں سے باہر ہونا دنیا میں سب سے متاثرہ ممالک میں سے ایک کی نشاندہی کرتا ہے۔
حالیہ قومی اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال میں جولائی 2024 سے مارچ 2025 کے دوران تعلیم پر اخراجات میں 29 فیصد تک کمی رپورٹ ہوئی ہے، سال 2018 کے بعد سے تعلیم کے لیے مختص بجٹ جی ڈی پی میں مسلسل کمی کا شکار ہے جو کہ 2 فیصد سے کم ہوتا ہوا اب 0.8 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ انچیون ڈیکلیریشن نے حکومتوں کو جی ڈی پی کا 4 سے 6 فیصد تک تعلیم کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔
بین الاقوامی غیرمنافع بخش تنظم ’سیو دی چلڈرن‘ نے مزید بتایا کہ حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر 2 کروڑ 60 لاکھ بچوں کو اسکولز میں لانے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
وفاقی حکومت نے 2024 میں سال 2029 تک تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کے 4 فیصد تک لے جانے کا ہدف ظاہر کیا تھا، حکومت پاکستان بچوں کے ساتھ کیے گئے اس وعدے کو توڑ نہیں سکتی۔
تنظیم کے مطابق پاکستان کے غربت کا شکار علاقوں میں رہائش پذیر بچے اس کمی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، ان بچوں کو پہلے ہی اپنی تعلیم کو جاری رکھنے میں بے پناہ مشکلات کاسامنا ہے، ایسے میں حکومت کی جانب سے بجٹ میں کٹوتیوں یا پھر رقم مختص ہونے کے باوجود خرچ نہ کرنے سے ان بچوں کو تعلیم کے حصول میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ اسکول سے باہر ان بچوں کو مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ ان بچوں کے لیے کمیونٹیز کو اس طرح سے بنا سکیں جو کہ مستقبل میں ممکنہ موسمیاتی تبدیلوں کا شکار ہو سکتی ہیں۔ تنظیم نے تعلیم کے شعبے اور خاص طور پر پسماندہ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ بچوں کے لیے اسٹیک ہولڈرز، حکومت، ڈونرز، اور سول سوسائٹی سے فنڈ کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
سیو دی چلڈرن تنظیم کے مطابق پاکستان میں تعلیم مفت اور 5 سے 16 سال کے بچوں کے لیے لازم قرار دی گئی ہے لیکن 38 فیصد بچے اسکولوں سے اب بھی باہر ہیں، جس میں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے، بلوچستان میں 75 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ برس مئی میں ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نفاذ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد اسکولوں میں بچوں کی حاضری کو بڑھانا تھا تاہم ملک میں صرف 60 فیصد لوگ پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسکول کی تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کے کم عمری میں مشقت کرنے اور شادی کے خطرے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
حکومت کے 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں 10 سے 14 سال کی عمر کے تقریباً ہر 10 میں سے ایک بچہ کام کر رہا ہے، اور اندازاً 1.9 کروڑ لڑکیاں اپنی اٹھارہویں سالگرہ سے پہلے شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں جو دنیا بھر میں کم عمری کی شادیوں کی چھٹی سب سے بڑی تعداد ہے۔
پاکستان میں اسکول مسلسل بند رہنے سے بھی بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی رہی ہے، بیشتر مواقع پر موسیماتی تبدیلیوں کے باعث اسکولز کو بند کرنا پڑا جس میں 2024 کی ہیٹ اسٹروک سرفہر ست ہے جس کی وجہ سے اسکولز کو بند رکھا گیا، سال 2022 کے بدترین سیلاب کے باعث بھی تقریب 29 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔
سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر خرم گوندل نے کہا کہ ’جب حکومت جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کرے گی تو یہ صرف فنڈز میں کٹوتی نہیں ہے بلکہ یہ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بھی برخلاف ہے جو انہوں نے گزشتہ برس ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے کیا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’تعلیم نسل در نسل غربت کو ختم کرنے کا سب سے موثر طریقہ کار ہے، بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا پاکستان کے مستقبل پر خرچ کرنے کے مترادف ہے‘۔
مزیدپڑھیں:وفاق نے صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگائی تو اسمبلی توڑ دیں گے، علی امین گنڈاپور