Express News:
2025-06-22@01:30:43 GMT

چو مکھی میں پھنسا ہوا امریکا

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ غزہ کے بے گھر اور در بدر ہونے والے خاندان اپنی بے کسی پر اور معصوم بچوں کے لاشے اٹھانے والے ماں باپ حماس اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور غزہ کے قتل و غارت پر اسرائیل کے قہر کا ساتھی حماس کو بھی سمجھ رہے ہوں گے،جب کہ بے گھر ہونے اور جوان لاشے اٹھانے والوں کی نظر میں اسرائیلی ظلم اور بمباری کے مجرم حماس اور اسرائیل ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ہوں گے۔

حماس کے ضمن میں یہ بات یاد رہے کہ 1986 میں امریکا نے فلسطین کی مضبوط ’’الفتح تنظیم‘‘ کو کمزور کرنے کے لیے شیخ یاسین کی سربراہی میں اپنی پراکسی حماس کو مذہبی بنیاد پر کھڑا کیا تھا،مگر پھر وقت اور حالات کے جبر نے الفتح تنظیم کو امریکا کی بہترین اتحادی بنا دیا،جس کے بعد فلسطین کے امور میں حماس کی وہ اہمیت و حیثیت نہ رہی جو 90 کے عشرے تک رہی۔

اسی وجہ سے فلسطین کی آزادی کی جنگ میں حماس نے الفتح کے اقتدار کے خلاف مذہبی بنیاد پر اختلاف کیا اور دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وہ امریکا کی پراکسی نہیں بلکہ فلسطین کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والی فلسطین کے مفادات کی تنظیم ہے۔

مگر فلسطین کے حالات اور اسرائیلی بربریت نے ثابت کیا کہ امریکا/اسرائیل گٹھ جوڑ نے اسماعیل ہانیہ کی حماس میں ایک متبادل قیادت ابھار کر اسے اپنی پراکسی بنایا اور پھر حماس اسی پراکسی کے ذریعے اسرائیل کی مدد سے اسماعیل ہانیہ سمیت لبنان کے حزب اسلامی کے سربراہ نصراللہ،ایرانی کمانڈر باقر اور ایرانی صدر رئیسی کا خاتمہ کرکے مشرق وسطیٰ میں نہ صرف اسرائیل کی بالادستی کو مضبوط کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی ایران کی دفاعی اور خفیہ صلاحیتوں پر بھی سوالات کھڑے کیے۔ 

اور اسرائیل کو فلسطین و غزہ کی طرح ایران پر حملہ کرنے کے مواقعے بھی فراہم کیے،جب کہ اسی اثنا ایران میں اسرائیل اور بھارت کے نیٹ ورک کے ذریعے موساد کا ایران میں اثر و نفوذ بھی بڑھایا،جس نے اسرائیل کو ایران کے خلاف نیو کلیئر بم رکھنے کے بہانے ایران پرحملہ کرنے کا جواز بھی فراہم کیا۔

یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ایران پہلے ہی جوہری ہتھیار نہ بنانے کے NPTمعاہدے اور IAEA کے معائنے کرنے کی دستاویز پر عمل پیرا ہوکر عالمی طاقتوں سے جوہری ہتھیاروں پر مذاکرات کے لیے راضی بھی تھا اور اسرائیل کے حملے سے پہلے امریکا سے مذاکرات کرنے کا دن اور تاریخ بھی طے کر چکا تھا،سوال یہ ہے کہ پھر اسرائیل نے تماتر مثبت اشاروں کی موجودگی میں بھی اچانک ایران پر کیوں حملہ کیا اور اس کے اعلیٰ فوجی جنرل اور سائنسدانوں کو کس لیے مارا؟اسرائیل کی جانب سے حملہ آور ہونے کی یہ کوشش کیوں ہوئی یا اس کے مقاصد کیا رہے یا ابھی تک ہیں؟

اس مذکورہ حملے اور اس کے مقاصد پر دنیا بھر میں خیال آرائی اور جائزے پیش کیے جارہے ہیں،کچھ کا خیال ہے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کے لیے امریکی صدر ٹرمپ بہت زیادہ جلدی میں ہیں،کسی کا اندازہ ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہونے کے بیان کے بعد اسرائیل اس جنگ کو امریکی آشیرباد کے سہارے جاری رکھنے کی کوشش ایران کی رجیم چینج کی وجہ سے کر رہا ہے جب کہ کچھ کی رائے ہے کہ امریکا اور اسرائیل مشرق وسطی کو کمزور کرنے کے بعد اپنی بالا دستی وسط ایشیائی خطے پر حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا فائدہ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ امریکا کو اپنی عالمی ساکھ قائم رکھنے کا ہوسکتا ہے یا کہ امریکا چین اور روس کے اثر کو خطے سے مکمل ختم کرکے خطے میں امریکی بالادستی چاہنے کے علاوہ امریکا چین کی مضبوط عالمی معیشت کو نقصان پہنچا کر اس خطے کو مکمل اپنی کالونی بنانا چاہتا ہے۔

ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں جنگ رکوانے کی کوششوں میں عالمی طور پر اکثریت روس اور چین کے موقف کے ساتھ ہے جس کے تحت فوری جنگ بندی کے ساتھ مسائل کا حل سفارتی سطح پر طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے جس کی ایک کڑی جینوا میں فرانس ،جرمنی ،برطانیہ اور ایران کا انسانی حقوق سلامتی کونسل اجلاس میں مذاکرات جاری رکھنے کا مشترکہ لائحہ عمل ہے۔

انسانی حقوق کونسل میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایران کا موقف رکھتے ہوئے کہا ہے کہ’’ہم اسرائیل کی بلا جواز جارحیت کا شکار ہیں جس میں ہم نے اپنے پیاروں کی قیمتی جانیں گنوائی ہیں،ہم جنگ نہیں چاہتے مگر اسرائیل کی سفاکانہ اور بلا جواز جارحیت کو بھی قبول نہیں کریں گے اور اسرائیلی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کریں گے،عراقچی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھوایا جائے،ہم پہلے بھی مذاکرات سے حل پر آمادہ تھے اور اب بھی ہم جوہری اور علاقائی مسئلے مذاکرات سے حل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ایران کے وزیر خارجہ کے مذکورہ بیان کو روس اور چین کے موقف کا پرتو کہا جاسکتا ہے،اس سے قبل اسرائیل کے نیتن یاہو اور امریکی صدر ٹرمپ ایران کے سپریم کمانڈر کو قتل کرنے کے بیان پر اکٹھے تھے،پھرامریکا اور اسرائیل رجیم چینج پر ایک آواز ہوئے جب کہ عالمی دباؤ کے نتیجے میں اب امریکا اور اسرائیل نہ سپریم کمانڈر کے قتل پر آمادہ نظر آتے ہیں اور نہ رجیم چینج پر ایک آواز ہیں،جب کہ دوسری جانب امریکا کے اس جنگ میں شامل ہونے کی بڑھکیں بھی آہستہ آہستہ دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔

جب کہ ایران کی رجیم چینج کی جب سے مخالفت ایران کی سب سے طاقتور اپوزیشن ’’تودہ پارٹی/کمیونسٹ پارٹی‘‘ روس اور چین کی جانب سے ہوئی ہے تو امریکا اور اسرائیل ایران کی یکجہتی اور تودہ پارٹی کے اصولی موقف کی روشنی میں کم از کم رجیم چینج کے بے سروپا مطالبے پر ٹکتے نظر نہیں آتے،اس میں اس خیال کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ امریکا اور اسرائیل کی کسی بھی حماقت سے اقتدار تودہ پارٹی یا گرین تحریک کے ریفارمسٹ کی جانب نہ چلا جائے یا ان کے حوالے کر دیا جائے۔

اسرائیل کی ایران پر جارحیت کے خلاف دنیا کی اکثریت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے جنرل سیکریٹری نے واضح طور پر کہا ہے کہ’’ہم دنیا کو امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں اور خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ایران اسرائیل کا تنازعہ بڑھا تو پھر یہ کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں رہے گا‘‘ ایران پر جنگ مسلط کرنے کے ماحول میں ایرانی عوام کی یکجہتی امریکا کے لیے ایران کی موجودہ حکومت سے زیادہ مہلک ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔

جب کہ عالمی برادری خطے میں امریکا اسرائیل کے کردار اور گٹھ جوڑ کو سمجھتی ہے اور اسی خطرے کے پیش نظر امریکا عالمی مخالفت کو سر دست اپنے حصے میں ڈال کر ویتنام کی شکست کو شاید دہرانا نہیں چاہتااور شاید یہی وجہ ہے کہ پینٹاگون اور امریکی کانگریس کے بیشتر ارکان اس جنگ میں امریکا کی براہ راست مداخلت کے حق میں نہیں ہیں اور اسی کے ساتھ امریکا کے سامنے چین کی مضبوط معیشت کو کمزور کرنے کا خواب،ایران کی رجیم چینج،ایران کی یکجہتی ختم کرنے یا ایران کے سپریم کمانڈر کا قتل ایسے مشکل اہداف ہیں جن میں سے وہ فوری طور سے نکل کر اپنی عالمی ساکھ بچاناچاہتا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا پہ اس چومکھی کشمکش کے لالوں کے اثرات کتنے گلے پڑتے ہیں؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا اور اسرائیل اسرائیل کے اسرائیل کی رجیم چینج کہ امریکا ایران کی ایران پر ایران کے کہ ایران کے ساتھ کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

ایران، اسرائیل جنگ

دنیا اس وقت مفادات کے ٹکراؤ میں گھری ہوئی ہے،اقوامِ عالم پرجنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایران بڑا ملک ہے اور اسرائیل چھوٹا۔البتہ اسرائیل ایک بھرپور فوجی طاقت ہے ۔اسرائیل کی معیشت ایران کی بہ نسبت بہت مضبوط ہے۔

شاہ ایران کے دور میں ، ایران مغرب بلکہ یوں کہیے کہ کیپٹلسٹ لیڈر یعنی امریکا کا اتحادی تھا اورآج خامنہ ای کا ایران روس اور چین کا اتحادی ہے۔اسرائیل مغرب کا اتحادی ہے۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ، مغربی مفادات کی فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے۔

روس کو اپنے قومی بیانیے میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کا بڑا غم تھا۔سوویت یونین ان ریاستوں کا مجموعہ تھا جو زار بادشاہت نے مختلف ادوار میں ہتھیائی تھیں۔ ان ریاستوں میں بہت سی فارسی بولنے والی مسلم ریاستیں اور بالٹک اسٹیٹ تھیں۔

سوویت یونین جس کا محور تھا روس اور ان کی دوسری بڑی ریاست تھی یو کرین۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین دنیا کی سب سے بڑی طاقت تو بنا لیکن معاشی اعتبار سے ان کا ماڈل ناکام رہا،وہ چل نہ سکا۔اس کے سامنے کھڑی مغربی ریاستیں مارکیٹ اکانومی پر کھڑی تھیں، جمہوری تھیں، آزاد تھیں، انسانی حقوق کی پاسداری کی حامی تھیں،ان کے پاس ایجادات اور تحقیق تھی،سوویت یونین ان اقوام کے سامنے ٹھہر نہ سکا۔دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین نے بہت سے یورپی ممالک پر قبضہ کیا۔

جرمنی بھی دو ٹکڑے ہوا۔جرمنی ایک حصہ سوویت یونین کے ساتھ ہوا اور دوسرا یورپ میں۔جن یورپی ممالک پر سوویت یونین نے قبضہ کیا ان کو اپنا اشتراکی نظام دے کر اپنے اتحاد کا حصہ بنایا۔1990 جب یہی کام عراق نے کیا اور کویت پر حملہ کیا تو عراق کو اس حملے کے دور رس نتائج بھگتنا پڑے۔

امریکا نے حملہ کر کے کویت کو آزاد کرا دیا اوراس طرح دنیا میں یونی پولر سسٹم کا آغاز ہوا،جس کو نیو ورلڈ آرڈر کہا جاتا ہے جو اب تک قائم رہا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کو بلآخر چین کی ابھرتی طاقت نے چیلنج کردیا ہے۔ 1990 تک سوویت بلاک اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا ۔ امریکا اور نیٹو نے اس دنیا پر پینتیس سال تک راج کیا،یعنی دنیا یونی پولر سسٹم میں رہی۔

معاملات تب خراب ہوئے جب یو کرین نے یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بننا چاہا۔روس نے یوکرین پر حملہ کردیا،روس کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا۔توقع کے خلاف یو کرین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اب روس تھکاوٹ کا شکار ہے۔یوکرین کو امریکا اور یورپی یونین نے بھرپور فوجی امداد دی۔ایک طرف امریکا ، اس کے مغربی اتحادی اور اسرائیل تھے اور دوسرے بلاک میں تھے جو کہ نیا بنا ، چین، روس، ایران اور نارتھ کوریا وغیرہ۔

روس نے ایران کو یہ کہا کہ حماس ، مشرقِ وسطیٰ میں کچھ ایسا کرے کہ دنیا کا رخ اس طرف ہو اور ایسا ہی ہوا۔یہ ایک حیران کن بات تھی کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا جب کہ اس حملے سے پہلے ہمیشہ حماس نے دفاعی پوزیشن لی۔اسرائیل کو غزہ پر اپنی سفاکیت کا موقعہ مل گیا۔اسرائیل نے غزہ پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیے اور تمام عرب دنیا مجرمانہ خاموشی کے ساتھ اس ظلم کو دیکھتی رہی۔

ایران ایک بہت بڑی قوت تھا۔ ایران نے شام، یمن، حوثی باغی، حماس، حز ب اللہ جیسی بہت سی قوتیںبنائیں ،اسرائیل سے لڑنے کے لیے اور عرب دنیا جو ایران کی طرف جھکی ہوئی تھی ان سے توازن قائم کرنے کے لیے۔چند سال پہلے، عراق میں ایک پاسدارانِ انقلاب رہنما کو امریکا نے ڈرون حملے میں مار دیا تھا۔

پھر جب ایرانی صدر پچھلے سال ہیلی کاپٹر حادثے میںمارے گئے تو ان کی آخری رسومات میں حماس کے بڑے جلا وطن لیڈران نے شرکت کی۔ اسرائیل نے حماس کے لیڈر کا تہران میںڈرون حملے کے ذریعے ایسی جگہ پر نشانہ بنایا جس کا وہم و گمان کسی کو بھی نہیں تھا۔اس سے پہلے اسرائیل نے شام میںایران کی ایجنسی پر حملہ کر کے ان کے سینیئر جرنیل کو مارا۔ایران نے بھی ڈرون حملوں کے ذریعے اسرائیل پر اٹیک کیے لیکن کوئی خاص نقصان ان کو نہ پہنچا سکے۔

اسرائیل نے ایرانی اتحادیوں کو ایک ایک کرکے جنگ میں مصروف کیا اور ان کو تھکا دیا،حزب اللہ پر حملہ کیا، یمن پر حملہ کیا اور ایسا بھی ہوا کہ ایران کے اتحادی، جہاں روس نے اپنی فوجیں بھی بٹھائی ہوئی تھیں، شام کے صدر بشار الاسد کواچانک جہاز میں بیٹھ کر روس میں پناہ لینی پڑی۔

اس طرح ایران اور اسرائیل دو بدو ہوئے۔مودی اور نیتن یاہو نے پاکستان کے خلاف بھی محاذ بنایا ہوا ہے۔بہانے بناکر مودی نے پاکستان پر حملہ کیا۔جس میں اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔دنیا کے بہترین جہاز رافیل استعمال کیے گئے۔ پاکستان نے چین کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کے ہوش ٹھکانے لگا دیے۔

تیسرا راؤنڈ جو اس تسلسل کا حصہ ہے وہ اسرائیل اور ایران کی جنگ کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔یہ ٹکراؤ اب لمبا چلے گا۔اس خطے میں چین ایک بڑی طاقت کو طور پر ابھر رہا ہے۔ چین کو امریکا کی مدد کی ضرورت نہیں۔چین کی بہت سی کمپنیاں دنیا کی بہترین کمپنیوں میں شمار ہوتی ہیں۔امریکا کی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی دنیا کو لیڈ کر رہی ہے۔چین نہ صرف معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے بلکہ امریکا کے بعد ایک مضبوط فوجی طاقت بھی بن گیا ہے مگرچین براہِ راست کسی جنگ میں ملوث نہیں ہونا چاہتا۔

ایران کو اس وقت اپنے اتحادیوں کی مدد کی ضرورت ہے مگر وہ ایران کی مدد اس طرح سے نہیں کر پا رہے ہیں جس طرح سے امریکا ، اسرائیل کی کررہا ہے۔ عرب دنیا بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،بلکہ بہت سے عرب ممالک اندرونی طور پر اسرائیل کے حمایتی ہیں۔ایران ڈٹ کر اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہا ہے،مگر ایرانی حکومت پینتالیس سال سے ایران پر حکومت کر رہی ہے اور وہاں کی عوام میں غیر مقبول ہے۔دو مرتبہ ایران میں اس حکومت کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔اسرائیل کو اس جنگ سے بہت نقصان ہوا ہے مگر ایران اس رجیم کے ساتھ اس جنگ میں تھک جائے گا۔

ہندوستان اور اسرائیل مل کر پاکستان کی ایٹمی قوت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب پاکستان نے سی پیک میں شمولیت اختیار کی،ہماری معاشی آزادی کو نقصان پہنچایا گیا، ہمیں دیوالیہ ہونے کی حد تک لایا گیا۔

بلوچستان اور طالبان کے مسائل کو ابھارا گیا۔ہم نے خود وفاق کو پانی کے حوالے سے متنازعہ پروجیکٹ دے کر کمزور بنایا۔ان بیرونی قوتوں کے ساتھ یہاں کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔اس وقت ہم بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور دنیا سرد اور گرم جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔

ایران اگر اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے تو یہ یہ روس اور چین کے لیے تشویش کی بات ہوگی۔پیوتن روس کے اندر اپنی مضبوطی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ٹرمپ امریکا کے روایتی صدر نہیں۔وہ دنیا کو بحران کی طرف دھکیل سکتے ہیں اور ایسا بھی ہے کہ جو آج تک کوئی نہ کر سکا وہ ٹرمپ کر گزریں گے۔امریکا کے اندر اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کا کوئی مستقل حل نکالا جائے اور اس ٹکراؤ کا فائدہ چین اٹھا رہا ہے۔

ہم جس خطے میں ہیں وہ تیسری جنگ ِ عظیم کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔اس بار جنگ توپوں اور ٹینکوں سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی سے لڑی جائے گی۔اس جنگ کے کئی سرد نوعیت کے پہلو ہیں۔جیسا کہ سوویت یونین کو تنہا کر کے اقرباء پروروں نے اس کو کھوکھلا کردیا اور جنگ کے بغیر ہی سوویت یونین ٹوٹ گیا۔

متعلقہ مضامین

  • کیا یہودی امریکا کے وفادار ہو سکتے ہیں؟
  • ایران، اسرائیل جنگ
  • امریکا نے ایران کی زیر تعمیر جوہری تنصیبات تباہ کرنے کی صلاحیت کے حامل بی-2 بمبار بحرالکاہل منتقل کردیے
  • ایران اسرائیل جنگ اور پاکستان
  • ایران کو حساس مشینری کی فراہمی کے الزام پر امریکا نے 20اداروں پر پابندیاں عائد کردیں
  • امریکا، ایران اسرائیل جنگ کا حصہ نہ بنے: روس کا ایک بار پھر انتباہ
  • کیا امریکا چاہتا ہے اسرائیل کی تھوڑی بہت پٹائی ہو جائے؟
  • حماس اور ایران کے حملے، نیند کا بحران اور ذہنی دباؤ: اسرائیلیوں پر تحقیقاتی رپورٹ جاری
  • ایران معاملہ بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائیگی، غیرملکی میڈیا