ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریاتی فاصلے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
دنیا کے طاقتور ترین افراد میں شمار ہونے والے ایلون مسک اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کی شخصیات بے مثال اور اثر و رسوخ سے بھرپور ہیں۔ ایک طرف ایلون مسک، جو خلا، مصنوعی ذہانت اور ماحول دوست توانائی کے ذریعے انسانیت کو مستقبل کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ، جو قوم پرستی، صنعتی ترقی اور امریکی برتری کے نعرے کے ساتھ روایتی سیاسی دائرہ کار میں تبدیلی کے خواہاں رہے۔
ان دونوں شخصیات کا ایک وقت میں تعلقات کا آغاز قربت اور مشورے سے ہوا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان نظریاتی اور عملی فاصلے پیدا ہو گئے۔ جب 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر امریکی صدارتی انتخاب جیتا، تو دنیا بھر میں اس فیصلے پر بحث چھڑ گئی۔
بیشتر ماہرین اور ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد نے اس انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا، مگر ایلون مسک نے اس وقت ایک مختلف روش اپنائی۔ انھوں نے کہا کہ اگر حکومت میں مثبت تبدیلی لانی ہے تو باہر بیٹھ کر تنقید کرنے کے بجائے اندر آ کر بات چیت کرنا بہتر ہے۔
یہی سوچ انھیں ٹرمپ کی اکنامک ایڈوائزری کونسل اور مینوفیکچرنگ گروپ تک لے گئی۔ بظاہر یہ ایک مثبت شروعات تھی، مگر اختلاف کی چنگاری جلد ہی شعلہ بن گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ سے علیحدہ کر لیا یہ ایک عالمی معاہدہ تھا جس کا مقصد زمین پر بڑھتی ہوئی درجہ حرارت کو قابو میں رکھنا تھا۔
ایلون مسک نے اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ صرف سائنسی بنیادوں پر غلط نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی تباہ کن تھا۔ انھوں نے فوراً ٹرمپ کی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دے دیا اور ٹویٹر پر لکھا۔ ’’میں نے پوری کوشش کی، مگر ماحولیات کے تحفظ کے بغیر مزید مشورے نہیں دے سکتا۔‘‘ یہ استعفیٰ نہ صرف ایک علامتی قدم تھا بلکہ نظریاتی موقف کی واضح مثال بھی ثابت ہوا تھا ۔
2022 میں ایلون مسک نے Twitter (اب X) خرید لیا۔ ان کے بقول ان کا مقصد سوشل میڈیا کو مکمل ’’ آزادی اظہار‘‘ کا پلیٹ فارم بنانا تھا۔ اس تناظر میں انھوں نے سابق صدر ٹرمپ کا بند کیا گیا، اکاؤنٹ بحال کیا، جو 2021 کے Capitol Hill حملے کے بعد معطل کردیا گیا تھا۔
مسک نے کہا ’’ اگر ہم آزادی اظہار پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں ہر کسی کو بولنے دینا ہوگا، چاہے ہمیں اس کی بات پسند ہو یا نہیں۔‘‘ لیکن ٹرمپ نے اس کے باوجود ٹوئٹر پر واپسی سے انکار کر دیا اور اپنی سوشل میڈیا سائٹ Truth Social کو ترجیح دی۔
یہ عمل واضح کرتا ہے کہ جہاں مسک سوشل میڈیا کو مکالمے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہاں ٹرمپ اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
2024 کی صدارتی مہم میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ ٹرمپ نے ایک جلسے میں ایلون مسک کو ’’دھوکا باز‘‘ کہا اور دعویٰ کیا کہ مسک نے ان سے مختلف معاملات پر مدد مانگی تھی۔ اس کے جواب میں ایلون مسک نے نہایت وقار کے ساتھ بیان دیا۔ ’’ ٹرمپ ایک دلچسپ شخصیت ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کو ایک نئی نسل کی قیادت کی ضرورت ہے۔‘‘
یہ بیان صرف ذاتی اختلاف نہیں، بلکہ دو نظریاتی نظاموں کے بیچ خلیج کا اظہار ہے۔
ٹرمپ اور ایلون مسک تنازع میں سب سے بڑا نقصان خود ایلون مسک کو ہی ہوا ہے، جس کی دولت محض ایک دن میں 34 ارب ڈالر سے زیادہ کم ہو گئی ہے۔
گزشتہ سال صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد مسک کی دولت تقریباً 500 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور دونوں کی قربت کو ’’سنہری دن‘‘ قرار دیا جا رہا تھا، لیکن حالیہ اختلاف اور باہمی الزام تراشی کے بعد الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ’’ ٹیسلا‘‘ کو 152 ارب ڈالر کا تاریخی نقصان ہوا۔
سوال ہے کہ اس لڑائی کا نتیجہ کیا ہوگا؟ کانگریس میں موجود ریپبلکنز کے لیے ٹرمپ کے بل کی حمایت کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ مسک ان کی مالی معاونت کر رہا ہے۔
ٹرمپ نے پہلے ہی مسک کے سرکاری معاہدوں کو ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ڈیموکریٹس اس ساری صورتحال میں یہ سوچ رہے کہ وہ اس پرکیا اور کیسے ردعمل دیں۔ کچھ ڈیمو کریٹس مسک کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں، تاکہ اپنی پارٹی کے لیے ایک فنڈز فراہم کرنے والے کو واپس لے آئیں، مگر فی الوقت ڈیمو کریٹس پیچھے رہ کر دونوں کو آپس میں لڑتا دیکھ کر خوش نظر آتے ہیں۔
ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس نے پاکستان میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے کی درخواست دی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے اس درخواست پر غور شروع کیا ہے، لیکن ابھی تک مکمل منظوری نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ مسک کے حالیہ متنازعہ بیانات ہیں، جو اس نے پاکستان کی مخالفت میں دیے ہیں، جن سے پاکستان میں عوامی ردعمل آیا ہے۔
پاکستانی قانون سازوں نے مسک سے معافی کا مطالبہ کیا ہے، جس کے بغیر لائسنس جاری کرنے کا امکان کم ہے۔ ایلون مسک کے کہنے پر ہی ٹرمپ نے یو ایس ایڈ کی مد میں پاکستانی امداد کو روکا تھا۔
ٹرمپ اور مسک کی راہیں بھی جدا ہوچکی ہیں، مگر ان دونوں شخصیات کے درمیان جاری سرد جنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ اقتدار، نظریات اور ذاتی مفادات کا ملاپ کبھی بھی سادہ یا مستقل نہیں ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ
پڑھیں:
بھارت کا ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں روس سے تیل کی خریداری جاری رکھنے کا عندیہ
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 اگست ۔2025 ) بھارت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پابندیوں کی دھمکیوں کے جواب میں روس سے تیل کی خریداری جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کے مطابق دو سینئر بھارتی حکام نے واضح کیا ہے کہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جبکہ ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ حکومت نے تیل کمپنیوں کو روسی درآمدات میں کمی کے حوالے سے کوئی ہدایات جاری نہیں کیں تاہم جریدا اس رپورٹ کی فوری طور پر تصدیق نہیں کرسکا.(جاری ہے)
اس معاملے پر وائٹ ہاﺅس، بھارت کی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ پیٹرولیم و قدرتی گیس نے جریدے کی تبصرے کے لیے کی جانے والی درخواستوں کا فی الحال کوئی جواب نہیں دیا یاد رہے کہ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں اشارہ دیا تھا کہ روسی ہتھیاروں اور تیل کی خریداری کرنے والے ممالک جن میں بھارت بھی شامل ہے، کو اضافی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا تاہم بعد ازاں انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بھارت روس کے ساتھ کیا کرتا ہے. گزشتہ ہفتے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ بھارت اب روس سے تیل نہیں خریدے گا برطانوی ادارے نے رپورٹ کیا تھا کہ جولائی میں روسی تیل پر دی جانے والی رعایتیں کم ہونے کے بعد بھارتی سرکاری ریفائنریوں نے حالیہ دنوں میں اس کی خریداری روک دی ہے. واضح رہے کہ 14 جولائی کو ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ جو ممالک روس سے تیل خریدتے رہیں گے انہیں 100 فیصد درآمدی ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک کہ روس یوکرین کے ساتھ کوئی بڑا امن معاہدہ نہ کر لے روس اس وقت بھارت کا سب سے بڑا تیل فراہم کنندہ ہے، جو اس کی مجموعی تیل ضروریات کا تقریباً 35 فیصد مہیا کرتا ہے‘بھارت ایران سے بھی سستا تیل خرید کر یورپ کو سپلائی کرتا رہا ہے دہلی کے علاوہ چین بھی روسی اور ایرانی تیل کا بڑا خریدار ہے.