Express News:
2025-06-22@01:31:32 GMT

ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریاتی فاصلے

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

دنیا کے طاقتور ترین افراد میں شمار ہونے والے ایلون مسک اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کی شخصیات بے مثال اور اثر و رسوخ سے بھرپور ہیں۔ ایک طرف ایلون مسک، جو خلا، مصنوعی ذہانت اور ماحول دوست توانائی کے ذریعے انسانیت کو مستقبل کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ، جو قوم پرستی، صنعتی ترقی اور امریکی برتری کے نعرے کے ساتھ روایتی سیاسی دائرہ کار میں تبدیلی کے خواہاں رہے۔

ان دونوں شخصیات کا ایک وقت میں تعلقات کا آغاز قربت اور مشورے سے ہوا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان نظریاتی اور عملی فاصلے پیدا ہو گئے۔ جب 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر امریکی صدارتی انتخاب جیتا، تو دنیا بھر میں اس فیصلے پر بحث چھڑ گئی۔

بیشتر ماہرین اور ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد نے اس انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا، مگر ایلون مسک نے اس وقت ایک مختلف روش اپنائی۔ انھوں نے کہا کہ اگر حکومت میں مثبت تبدیلی لانی ہے تو باہر بیٹھ کر تنقید کرنے کے بجائے اندر آ کر بات چیت کرنا بہتر ہے۔

یہی سوچ انھیں ٹرمپ کی اکنامک ایڈوائزری کونسل اور مینوفیکچرنگ گروپ تک لے گئی۔ بظاہر یہ ایک مثبت شروعات تھی، مگر اختلاف کی چنگاری جلد ہی شعلہ بن گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ سے علیحدہ کر لیا یہ ایک عالمی معاہدہ تھا جس کا مقصد زمین پر بڑھتی ہوئی درجہ حرارت کو قابو میں رکھنا تھا۔

ایلون مسک نے اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ صرف سائنسی بنیادوں پر غلط نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی تباہ کن تھا۔ انھوں نے فوراً ٹرمپ کی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دے دیا اور ٹویٹر پر لکھا۔ ’’میں نے پوری کوشش کی، مگر ماحولیات کے تحفظ کے بغیر مزید مشورے نہیں دے سکتا۔‘‘ یہ استعفیٰ نہ صرف ایک علامتی قدم تھا بلکہ نظریاتی موقف کی واضح مثال بھی ثابت ہوا تھا ۔

2022 میں ایلون مسک نے Twitter (اب X) خرید لیا۔ ان کے بقول ان کا مقصد سوشل میڈیا کو مکمل ’’ آزادی اظہار‘‘ کا پلیٹ فارم بنانا تھا۔ اس تناظر میں انھوں نے سابق صدر ٹرمپ کا بند کیا گیا، اکاؤنٹ بحال کیا، جو 2021 کے Capitol Hill حملے کے بعد معطل کردیا گیا تھا۔

مسک نے کہا ’’ اگر ہم آزادی اظہار پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں ہر کسی کو بولنے دینا ہوگا، چاہے ہمیں اس کی بات پسند ہو یا نہیں۔‘‘ لیکن ٹرمپ نے اس کے باوجود ٹوئٹر پر واپسی سے انکار کر دیا اور اپنی سوشل میڈیا سائٹ Truth Social کو ترجیح دی۔

یہ عمل واضح کرتا ہے کہ جہاں مسک سوشل میڈیا کو مکالمے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہاں ٹرمپ اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

2024 کی صدارتی مہم میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ ٹرمپ نے ایک جلسے میں ایلون مسک کو ’’دھوکا باز‘‘ کہا اور دعویٰ کیا کہ مسک نے ان سے مختلف معاملات پر مدد مانگی تھی۔ اس کے جواب میں ایلون مسک نے نہایت وقار کے ساتھ بیان دیا۔ ’’ ٹرمپ ایک دلچسپ شخصیت ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کو ایک نئی نسل کی قیادت کی ضرورت ہے۔‘‘

یہ بیان صرف ذاتی اختلاف نہیں، بلکہ دو نظریاتی نظاموں کے بیچ خلیج کا اظہار ہے۔

ٹرمپ اور ایلون مسک تنازع میں سب سے بڑا نقصان خود ایلون مسک کو ہی ہوا ہے، جس کی دولت محض ایک دن میں 34 ارب ڈالر سے زیادہ کم ہو گئی ہے۔

گزشتہ سال صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد مسک کی دولت تقریباً 500 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور دونوں کی قربت کو ’’سنہری دن‘‘ قرار دیا جا رہا تھا، لیکن حالیہ اختلاف اور باہمی الزام تراشی کے بعد الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ’’ ٹیسلا‘‘ کو 152 ارب ڈالر کا تاریخی نقصان ہوا۔

سوال ہے کہ اس لڑائی کا نتیجہ کیا ہوگا؟ کانگریس میں موجود ریپبلکنز کے لیے ٹرمپ کے بل کی حمایت کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ مسک ان کی مالی معاونت کر رہا ہے۔

ٹرمپ نے پہلے ہی مسک کے سرکاری معاہدوں کو ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ڈیموکریٹس اس ساری صورتحال میں یہ سوچ رہے کہ وہ اس پرکیا اور کیسے ردعمل دیں۔ کچھ ڈیمو کریٹس مسک کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں، تاکہ اپنی پارٹی کے لیے ایک فنڈز فراہم کرنے والے کو واپس لے آئیں، مگر فی الوقت ڈیمو کریٹس پیچھے رہ کر دونوں کو آپس میں لڑتا دیکھ کر خوش نظر آتے ہیں۔

ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس نے پاکستان میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے کی درخواست دی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے اس درخواست پر غور شروع کیا ہے، لیکن ابھی تک مکمل منظوری نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ مسک کے حالیہ متنازعہ بیانات ہیں، جو اس نے پاکستان کی مخالفت میں دیے ہیں، جن سے پاکستان میں عوامی ردعمل آیا ہے۔

پاکستانی قانون سازوں نے مسک سے معافی کا مطالبہ کیا ہے، جس کے بغیر لائسنس جاری کرنے کا امکان کم ہے۔ ایلون مسک کے کہنے پر ہی ٹرمپ نے یو ایس ایڈ کی مد میں پاکستانی امداد کو روکا تھا۔

 ٹرمپ اور مسک کی راہیں بھی جدا ہوچکی ہیں، مگر ان دونوں شخصیات کے درمیان جاری سرد جنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ اقتدار، نظریات اور ذاتی مفادات کا ملاپ کبھی بھی سادہ یا مستقل نہیں ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ

پڑھیں:

ایران امریکی صدر کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہے: امریکی سینیٹر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 امریکی سینیٹر ٹیڈ کروز نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش میں مصروف ہے، اگر یہ بات درست ثابت ہوتی ہے تو امریکہ کو بلا تاخیر ایران پر حملہ کر دینا چاہیے۔

ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن رہنما ٹیڈ کروز نے یہ بات معروف امریکی اینکر ٹکر کارلسن کے شو میں گفتگو کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اگر ایران واقعی ڈونلڈ ٹرمپ کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ ایک ناقابلِ معافی اقدام ہے۔

جب ٹکر کارلسن نے ان سے شواہد کے بارے میں استفسار کیا تو ٹیڈ کروز کا کہنا تھا کہ یہ اطلاعات انہیں انٹیلی جنس اور عسکری ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں اور وہ گزشتہ دو سال سے اس خطرے سے آگاہ ہیں، یہ کوئی قیاس آرائی نہیں بلکہ مصدقہ اطلاعات ہیں، ایران مسلسل ڈونلڈ ٹرمپ کو ہدف بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ٹکر کارلسن نے متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ اس حوالے سے کوئی ایرانی ایجنٹ گرفتار کیوں نہیں کیا گیا اور اگر یہ منصوبہ بندی امریکہ کے اندر کی جا رہی ہے تو یہ تو آج کی سب سے بڑی خبر ہونی چاہیے۔ جواب میں سینیٹر کروز نے کہا کہ ہم فی الوقت یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی ایرانی کو پکڑا گیا ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ منصوبہ موجود ہے۔

سینیٹر کروز نے کہا کہ ایرانی قیادت کی جانب سے ایک ویڈیو بھی منظرِ عام پر آ چکی ہے جس میں سابق امریکی صدر کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی ہے۔ ان کے مطابق، جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے ایران کی اعلیٰ قیادت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے انتقام کا مرکزی ہدف قرار دے رکھا ہے۔

واضح رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی 2020 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے، جس کا حکم اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔ سینیٹر کروز نے کہا کہ ستمبر میں اُن کی ٹرمپ سے اس موضوع پر تفصیلی بات چیت ہوئی تھی اور سابق صدر نے تسلیم کیا تھا کہ انہیں سب سے بڑا خطرہ ایران سے محسوس ہوتا ہے۔

اس انکشاف نے واشنگٹن میں سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے اور یہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے کہ اگر واقعی ایران اس نوعیت کی سازش میں ملوث ہے تو بائیڈن انتظامیہ اس پر کیا ردعمل دے گی۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے پاس ایران کی جوہری طاقت تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں: ڈونلڈ ٹرمپ
  • میری انٹیلی جنس کمیونٹی غلط ہے؛ صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • فیلڈ مارشل کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اندرونی کہانی کیا ہے؟
  • ایران امریکی صدر کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہے: امریکی سینیٹر
  • ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ دو ہفتوں میں ایران سے مذاکرات پر فیصلہ کریں گے، ترجمان وائٹ ہاؤس
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری دی یا نہیں ؟اصل خبر سامنے آ گئی
  • ٹرمپ کا ایران پر حملے کی منظوری دینے کی خبر پر ردعمل سامنے آگیا
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ظہرانہ، مینیو میں کیا تھا؟
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملے کی منظوری دے دی، امریکی اخبار کا دعویٰ