اسلام ٹائمز: امریکہ کی جانب سے دیگر خطّوں میں لڑی گئی سابق جنگوں کے تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ بات مشہور ہے کہ وہ جنگ کو تو پھیلا سکتا ہے، مگر اسے سمیٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور جب وہ جنگ کو پھیلاتا ہے، تو بالآخر اُسے وہاں سے کوچ کرنا پڑتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب امریکہ کو اس خطے سے نکلنا ہی پڑے گا۔" امریکہ نے ایران پر حملہ کر کے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے اس خطے سے نکلنا ہی پڑے گا۔ تحریر: ایس این سبزواری

امریکہ کا موقف اور دعویٰ شدہ نقصان
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اس نے ایران کے تین ایٹمی مقامات(فرڈو، نطنز اور اصفہان) پر  فضائی حملے کیے، اور  "کلیدی ایٹمی مقامات مکمل طور پر ختم" کر دیے گئے ہیں۔ اس آپریشن میں B‑2 بمباری جیٹ طیاروں سے 30,000‑پاؤنڈ کے “bunker-buster” (GBU‑57 MOP) بم استعمال کیے گئے، نیز Tomahawk میزائل بھی فائر کیے گئے۔ نقصان کی قطعی تفصیل قومی سکیورٹی ذرائع تک محدود ہے لیکن وائٹ ہاؤس کا دعوی ہے کہ میزائل لگ بھگ 30 عدد، جبکہ Bunker-Buster Bombs (زیرزمین بنکروں کو تباہ کرنے والے بم) مکمل ڈراپ کئے گئے)۔

ایران کا موقف اور دعویٰ شدہ نقصان
ایران نے حملوں کی تصدیق کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ تابکاری کے اخراج یا کسی شہری متاثر نہیں ہوئے۔ تمام اثاثے محفوظ ہیں۔ ایرانی اٹامک انرجی آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ حملوں سے ان کے ایٹمی پروگرام میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ اس پر کام جاری ہے۔  اپنے ایک بیان میں کہا عظیم ایرانی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ دشمنوں کی ناپاک سازشوں کے باوجود، وہ ایٹمی شہداء کے خون سے پیدا ہونے والی اس قومی صنعت کی پرامن ترقی کو پٹڑی سے اترنے نہیں دے گی۔ AEOI کے مطابق، بین الاقوامی میکانزم کے ذریعے معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

ایرانی پارلیمنٹ میں قم شہر کی نمائندگی کرنے والے قانون ساز منان رئیسی نے تسنیم نیوز کو بتایا کہ حملے سے فردو میں صرف سطحی نقصان ہوا ہے۔ امریکہ کے دھوکے باز صدر کے جھوٹ کے باوجود، اہم انفراسٹرکچر برقرار ہے۔ جو کچھ متاثر ہوا وہ زیادہ تر زمین پر تھا اور مکمل طور پر بحال کر لیا جائے گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کسی تابکار رساو کی اطلاع نہیں ملی، اور سائٹ کو پہلے سے محفوظ کر لیا گیا تھا۔ فورڈو کو تباہ کرنے کے بارے میں ٹرمپ کی دھوکہ دہی ہنسنے والی ہے۔ رئیسی نے مزید کہا ہم اس حملے کو جنگ میں براہ راست امریکی داخلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایران نے اب فیصلہ کرنا ہے کہ کس طرح اور کب جوابی کارروائی کرنی ہے۔
لنک
https://www.

tasnimnews.com/en/news/2025/06/22/3339892/iran-condemns-us-israeli-attacks-on-nuclear-facilities-as-international-crime


1۔ نیویارک ٹائمز (New York Times)
The strike on Isfahan did not hit a uranium enrichment facility, as some initial U.S. statements implied, but rather a workshop used for assembling centrifuge components. Intelligence officials clarified that no active nuclear material was present at the site.
اصفہان پر حملے میں کسی یورینیم افزودگی (uranium enrichment) تنصیب کو نشانہ نہیں بنایا گیا، جیسا کہ کچھ ابتدائی امریکی بیانات میں دعویٰ کیا گیا تھا، بلکہ یہ ایک ایسی ورکشاپ تھی جہاں سنٹری فیوج کے پرزے تیار کیے جاتے تھے۔ انٹیلی جنس حکام نے واضح کیا کہ وہاں کسی قسم کا فعال ایٹمی مواد موجود نہیں تھا۔

2۔ رائٹرز (Reuters)
The facility in Isfahan struck by U.S. airstrikes was not an active enrichment plant, according to nuclear watchdogs. It had been previously identified as a workshop. Claims of 'obliteration' by U.S. sources appear to be overstated.
اصفہان میں امریکی فضائی حملے سے جو جگہ متاثر ہوئی، وہ کوئی فعال یورینیم افزودگی تنصیب نہیں تھی، جیسا کہ ایٹمی نگران اداروں نے بتایا۔ یہ پہلے سے ایک ورکشاپ کے طور پر شناخت شدہ مقام تھا۔ امریکی ذرائع کی طرف سے 'مکمل تباہی' کا دعویٰ مبالغہ آمیز لگتا ہے۔

ان دونوں اخبارات اور دیگر غیر ملکی جرائد اور ماہرین نے کہا ہے کہ اٹامک پلانٹ Fordow اور Natanz کو جزوی نقصان پہنچا ہے جو جلد ریکور کر لیا جائے گا۔

بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA)
 
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں سے کسی قسم کا تابکاری کا اخراج نہیں ہوا۔ جو بھی نقصان ہوا ہے وہ ظاہری عمارتوں کو اور اٹامک انرجی کو چلانے والی مشینری کو ہوا ہے۔

تجزیاتی خلاصہ
کل رات امریکہ نے اپنے B-2 اسٹریٹیجک بمبار طیاروں کے ذریعے ایران کے تین ایٹمی تنصیبات (نطنز، فردو اور اصفہان) پر حملہ کیا۔ ان حملوں میں زیر زمین اہداف کو نشانہ بنانے والے بنکر بسٹر بم استعمال کیے گئے، جو 300 فٹ سے زیادہ گہرائی میں جا کر دھماکہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر بین الاقوامی اداروں، نیوکلیر واچ ڈاگز، اور معتبر صحافتی ذرائع کی رپورٹس کو دیکھا جائے تو امریکہ کا یہ دعویٰ کہ اس نے ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔

امریکی دعویٰ حقیت سے زیادہ سیاسی اور نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے کیونکہ ابھی تک کوئی ناقابلِ تلافی نقصان ثابت نہیں ہو سکا۔ ایران کی جوہری تنصیبات کو جو نقصان پہنچا ہے وہ جزوی اور قابلِ مرمت ہے۔ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق نہ تو کسی قسم کی تابکاری کا اخراج ہوا اور نہ ہی ایران کے جوہری اثاثے مکمل طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت ایران کا جوہری پروگرام بدستور جاری ہے۔ اس حملے کے بعد کچھ اہم سوالات جنم لے رہے ہیں۔

1۔ امریکہ نے ایران پر براہِ راست حملہ کر کے خود کو اس جنگ میں فریق بنا لیا ہے، اس بنیاد پر ایران کو جوابی حملے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔
2۔ امریکہ کی طرف سے استعمال کیے گئے مہنگے اور تباہ کن ہتھیار، جیسے B-2 طیارے اور bunker-buster بم اگر اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے، تو خود امریکی دفاعی صلاحیتوں پر سوالات اٹھنا فطری ہیں۔
3۔ امریکہ نے یہ قدم اسرائیل کی پشت پناہی میں اٹھایا لیکن یہ فیصلہ شاید خود اس کے لیے بین الاقوامی دباؤ کا باعث بنے گا۔ آنے والے وقتوں میں اس کے خطرناک نتائج برامد ہوں گے۔

● ایران نے اس حملے کے ردعمل میں اسرائیل پر شدید میزائل حملے کیے، جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ایران دفاعی اور جارحانہ دونوں پہلوؤں سے تیار ہے۔
● امریکہ کا دعویٰ کہ ایران کے جوہری اثاثے مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے ہیں، بظاہر غیر مصدقہ ہے۔ IAEA اور دیگر عالمی اداروں کے مطابق، ایران کے زیادہ تر حساس جوہری ڈھانچے محفوظ ہیں۔
● یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ایران اس حملے کو جواز بنا کر اپنے جوہری پروگرام کو مزید تیز کرے اور حمایتی دوست ممالک بھی تائید کریں گے اور بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ ایٹمی دھماکہ کی جانب پہلا قدم بھی ہو سکتا ہے۔ یہ فیصلہ آئندہ علاقائی صورتحال اور عالمی ردعمل پر منحصر ہوگا۔

امریکہ کی جانب سے دیگر خطّوں میں لڑی گئی سابق جنگوں کے تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ بات مشہور ہے کہ وہ جنگ کو تو پھیلا سکتا ہے، مگر اسے سمیٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور جب وہ جنگ کو پھیلاتا ہے، تو بالآخر اُسے وہاں سے کوچ کرنا پڑتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب امریکہ کو اس خطے سے نکلنا ہی پڑے گا۔" امریکہ نے ایران پر حملہ کر کے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے اس خطے سے نکلنا ہی پڑے گا۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بین الاقوامی امریکہ نے وہ جنگ کو کے مطابق ایران کے یہ فیصلہ ایران پر نے ایران تباہ کر اس حملے کیے گئے کر لیا

پڑھیں:

ایران کا اقوام متحدہ کے ایٹمی نگران ادارے سے تعاون معطل کرنے کا اعلان

ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر یورپی طاقتوں کی جانب سے جامع ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام میں دوبارہ سخت عالمی پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ اقوام متحدہ کے ایٹمی نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کر دے گا۔

 یورپی اقدامات پر سخت ردعمل

ایران کی قومی سلامتی کونسل (SNSC)، جس کی سربراہی صدر مسعود پزشکیان کر رہے ہیں، نے ہفتے کو کہا کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ (E3) کے اقدامات ’غیر دانشمندانہ‘ ہیں اور اس سے ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان مہینوں کی سفارتی کوششیں متاثر ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں:ایرانی تنصیبات پر حملے سے نیوکلیئر آفت پھوٹ سکتی ہے، روس کا انتباہ

کونسل کے بیان میں کہا گیا کہ یورپی اقدامات کی وجہ سے ایجنسی کے ساتھ تعاون کا راستہ مؤثر طور پر معطل ہو جائے گا۔

 سلامتی کونسل میں قرارداد مسترد

یہ اعلان ایک روز بعد سامنے آیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران پر پابندیاں مستقل طور پر اٹھانے کی قرارداد منظور کرنے میں ناکامی ظاہر کی۔

اس کے بعد ’اسنیپ بیک‘ میکانزم کے تحت آئندہ اتوار سے فوجی اور اقتصادی پابندیوں کی بحالی کا امکان ہے۔

 پابندیوں میں کیا شامل ہوگا؟

ممکنہ پابندیوں میں اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی، یورینیم افزودگی پر مکمل پابندی، بیلسٹک میزائل سرگرمیوں پر روک، اثاثوں کے منجمد کیے جانے اور ایرانی شخصیات پر سفری پابندیاں شامل ہوں گی۔

 ایران کا دوٹوک مؤقف

صدر مسعود پزشکیان نے ایک ٹی وی خطاب میں کہا کہ ایران رکاوٹوں پر قابو پا لے گا اور دشمن ملک ایران کی ترقی کو نہیں روک سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی اور نہ کبھی بھی ناجائز دباؤ کے سامنے سر جھکایا ہے، نہ جھکائیں گے۔ ہمارے پاس آگے بڑھنے کی قوت اور صلاحیت موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نیوکلیئر ڈیل میں سب سے بڑی رکاوٹ کون تھا؟ ایرانی نائب صدر جواد ظریف نے بتا دیا

پزشکیان نے مزید کہا کہ امریکی و اسرائیلی حملوں کے باوجود ایران کے جوہری مراکز کو ملکی سائنسدان دوبارہ تعمیر کریں گے۔

یاد رہے کہ2015 کے ایٹمی معاہدے (JCPOA) کے تحت ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن 2018 میں امریکہ نے معاہدہ توڑ کر یکطرفہ پابندیاں عائد کر دیں۔

آئی اے ای اے کے مطابق ایران کے پاس اس وقت 60 فیصد تک افزودہ 400 کلوگرام سے زائد یورینیم موجود ہے، جو ہتھیار بنانے کی سطح سے ذرا کم ہے۔

 ایران کی خارجہ پالیسی کا لائحہ عمل

قومی سلامتی کونسل نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئی اے ای اے سے بات چیت جاری رکھے، تاہم واضح کر دیا کہ موجودہ حالات میں ایران کی پالیسی علاقائی امن و استحکام کے قیام پر تعاون پر مبنی ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی اے ای اے اقوام متحدہ ایران مسعود پزشکیان نیوکلیئر پلانٹ

متعلقہ مضامین

  • ایران کی چا بہار بندرگاہ پر امریکی پابندیاں بھارت کیلئے ایک اور بڑا دھچکا ہے; سردار مسعود خان
  • ٹرمپ نے ایک اور ملک پر حملے کی تیاری کرلی، اب تک کی سب سے بڑی بحری افواج کی تعیناتی
  • ایران کا اقوام متحدہ کے ایٹمی نگران ادارے سے تعاون معطل کرنے کا اعلان
  • پابندیوں پر ردعمل: ایران کا عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی سے تعاون ختم کرنے کا فیصلہ
  • دوحہ حملہ، گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنیکی طرف ایک اور قدم
  • گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران
  • بھارت اکتوبر میں پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے، اعزاز چوہدری
  • تصادم کی فضا پیدا کرنے سے امریکہ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا، بگرام ائیربیس ایشو پر چین کا ردعمل
  • فتنہ الہندوستان کا دہشتگرد اور جعفر ایکسپریس حملے کا ماسٹر مائنڈ افغانستان میں ہلاک
  • ’’ٹک ٹاک نے مجھے صدر بننے میں مدد دی‘‘، ٹرمپ کا اعتراف