ایران پر امریکی حملہ، مختلف ذرائع کی روشنی میں تحقیق و تجزیہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امریکہ کی جانب سے دیگر خطّوں میں لڑی گئی سابق جنگوں کے تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ بات مشہور ہے کہ وہ جنگ کو تو پھیلا سکتا ہے، مگر اسے سمیٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور جب وہ جنگ کو پھیلاتا ہے، تو بالآخر اُسے وہاں سے کوچ کرنا پڑتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب امریکہ کو اس خطے سے نکلنا ہی پڑے گا۔" امریکہ نے ایران پر حملہ کر کے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے اس خطے سے نکلنا ہی پڑے گا۔ تحریر: ایس این سبزواری
امریکہ کا موقف اور دعویٰ شدہ نقصان
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اس نے ایران کے تین ایٹمی مقامات(فرڈو، نطنز اور اصفہان) پر فضائی حملے کیے، اور "کلیدی ایٹمی مقامات مکمل طور پر ختم" کر دیے گئے ہیں۔ اس آپریشن میں B‑2 بمباری جیٹ طیاروں سے 30,000‑پاؤنڈ کے “bunker-buster” (GBU‑57 MOP) بم استعمال کیے گئے، نیز Tomahawk میزائل بھی فائر کیے گئے۔ نقصان کی قطعی تفصیل قومی سکیورٹی ذرائع تک محدود ہے لیکن وائٹ ہاؤس کا دعوی ہے کہ میزائل لگ بھگ 30 عدد، جبکہ Bunker-Buster Bombs (زیرزمین بنکروں کو تباہ کرنے والے بم) مکمل ڈراپ کئے گئے)۔
ایران کا موقف اور دعویٰ شدہ نقصان
ایران نے حملوں کی تصدیق کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ تابکاری کے اخراج یا کسی شہری متاثر نہیں ہوئے۔ تمام اثاثے محفوظ ہیں۔ ایرانی اٹامک انرجی آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ حملوں سے ان کے ایٹمی پروگرام میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ اس پر کام جاری ہے۔ اپنے ایک بیان میں کہا عظیم ایرانی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ دشمنوں کی ناپاک سازشوں کے باوجود، وہ ایٹمی شہداء کے خون سے پیدا ہونے والی اس قومی صنعت کی پرامن ترقی کو پٹڑی سے اترنے نہیں دے گی۔ AEOI کے مطابق، بین الاقوامی میکانزم کے ذریعے معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ میں قم شہر کی نمائندگی کرنے والے قانون ساز منان رئیسی نے تسنیم نیوز کو بتایا کہ حملے سے فردو میں صرف سطحی نقصان ہوا ہے۔ امریکہ کے دھوکے باز صدر کے جھوٹ کے باوجود، اہم انفراسٹرکچر برقرار ہے۔ جو کچھ متاثر ہوا وہ زیادہ تر زمین پر تھا اور مکمل طور پر بحال کر لیا جائے گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کسی تابکار رساو کی اطلاع نہیں ملی، اور سائٹ کو پہلے سے محفوظ کر لیا گیا تھا۔ فورڈو کو تباہ کرنے کے بارے میں ٹرمپ کی دھوکہ دہی ہنسنے والی ہے۔ رئیسی نے مزید کہا ہم اس حملے کو جنگ میں براہ راست امریکی داخلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایران نے اب فیصلہ کرنا ہے کہ کس طرح اور کب جوابی کارروائی کرنی ہے۔
لنک
https://www.
1۔ نیویارک ٹائمز (New York Times)
The strike on Isfahan did not hit a uranium enrichment facility, as some initial U.S. statements implied, but rather a workshop used for assembling centrifuge components. Intelligence officials clarified that no active nuclear material was present at the site.
اصفہان پر حملے میں کسی یورینیم افزودگی (uranium enrichment) تنصیب کو نشانہ نہیں بنایا گیا، جیسا کہ کچھ ابتدائی امریکی بیانات میں دعویٰ کیا گیا تھا، بلکہ یہ ایک ایسی ورکشاپ تھی جہاں سنٹری فیوج کے پرزے تیار کیے جاتے تھے۔ انٹیلی جنس حکام نے واضح کیا کہ وہاں کسی قسم کا فعال ایٹمی مواد موجود نہیں تھا۔
2۔ رائٹرز (Reuters)
The facility in Isfahan struck by U.S. airstrikes was not an active enrichment plant, according to nuclear watchdogs. It had been previously identified as a workshop. Claims of 'obliteration' by U.S. sources appear to be overstated.
اصفہان میں امریکی فضائی حملے سے جو جگہ متاثر ہوئی، وہ کوئی فعال یورینیم افزودگی تنصیب نہیں تھی، جیسا کہ ایٹمی نگران اداروں نے بتایا۔ یہ پہلے سے ایک ورکشاپ کے طور پر شناخت شدہ مقام تھا۔ امریکی ذرائع کی طرف سے 'مکمل تباہی' کا دعویٰ مبالغہ آمیز لگتا ہے۔
ان دونوں اخبارات اور دیگر غیر ملکی جرائد اور ماہرین نے کہا ہے کہ اٹامک پلانٹ Fordow اور Natanz کو جزوی نقصان پہنچا ہے جو جلد ریکور کر لیا جائے گا۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA)
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں سے کسی قسم کا تابکاری کا اخراج نہیں ہوا۔ جو بھی نقصان ہوا ہے وہ ظاہری عمارتوں کو اور اٹامک انرجی کو چلانے والی مشینری کو ہوا ہے۔
تجزیاتی خلاصہ
کل رات امریکہ نے اپنے B-2 اسٹریٹیجک بمبار طیاروں کے ذریعے ایران کے تین ایٹمی تنصیبات (نطنز، فردو اور اصفہان) پر حملہ کیا۔ ان حملوں میں زیر زمین اہداف کو نشانہ بنانے والے بنکر بسٹر بم استعمال کیے گئے، جو 300 فٹ سے زیادہ گہرائی میں جا کر دھماکہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر بین الاقوامی اداروں، نیوکلیر واچ ڈاگز، اور معتبر صحافتی ذرائع کی رپورٹس کو دیکھا جائے تو امریکہ کا یہ دعویٰ کہ اس نے ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
امریکی دعویٰ حقیت سے زیادہ سیاسی اور نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے کیونکہ ابھی تک کوئی ناقابلِ تلافی نقصان ثابت نہیں ہو سکا۔ ایران کی جوہری تنصیبات کو جو نقصان پہنچا ہے وہ جزوی اور قابلِ مرمت ہے۔ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق نہ تو کسی قسم کی تابکاری کا اخراج ہوا اور نہ ہی ایران کے جوہری اثاثے مکمل طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت ایران کا جوہری پروگرام بدستور جاری ہے۔ اس حملے کے بعد کچھ اہم سوالات جنم لے رہے ہیں۔
1۔ امریکہ نے ایران پر براہِ راست حملہ کر کے خود کو اس جنگ میں فریق بنا لیا ہے، اس بنیاد پر ایران کو جوابی حملے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔
2۔ امریکہ کی طرف سے استعمال کیے گئے مہنگے اور تباہ کن ہتھیار، جیسے B-2 طیارے اور bunker-buster بم اگر اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے، تو خود امریکی دفاعی صلاحیتوں پر سوالات اٹھنا فطری ہیں۔
3۔ امریکہ نے یہ قدم اسرائیل کی پشت پناہی میں اٹھایا لیکن یہ فیصلہ شاید خود اس کے لیے بین الاقوامی دباؤ کا باعث بنے گا۔ آنے والے وقتوں میں اس کے خطرناک نتائج برامد ہوں گے۔
● ایران نے اس حملے کے ردعمل میں اسرائیل پر شدید میزائل حملے کیے، جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ایران دفاعی اور جارحانہ دونوں پہلوؤں سے تیار ہے۔
● امریکہ کا دعویٰ کہ ایران کے جوہری اثاثے مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے ہیں، بظاہر غیر مصدقہ ہے۔ IAEA اور دیگر عالمی اداروں کے مطابق، ایران کے زیادہ تر حساس جوہری ڈھانچے محفوظ ہیں۔
● یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ایران اس حملے کو جواز بنا کر اپنے جوہری پروگرام کو مزید تیز کرے اور حمایتی دوست ممالک بھی تائید کریں گے اور بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ ایٹمی دھماکہ کی جانب پہلا قدم بھی ہو سکتا ہے۔ یہ فیصلہ آئندہ علاقائی صورتحال اور عالمی ردعمل پر منحصر ہوگا۔
امریکہ کی جانب سے دیگر خطّوں میں لڑی گئی سابق جنگوں کے تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ بات مشہور ہے کہ وہ جنگ کو تو پھیلا سکتا ہے، مگر اسے سمیٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور جب وہ جنگ کو پھیلاتا ہے، تو بالآخر اُسے وہاں سے کوچ کرنا پڑتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب امریکہ کو اس خطے سے نکلنا ہی پڑے گا۔" امریکہ نے ایران پر حملہ کر کے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے اس خطے سے نکلنا ہی پڑے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی امریکہ نے وہ جنگ کو کے مطابق ایران کے یہ فیصلہ ایران پر نے ایران تباہ کر اس حملے کیے گئے کر لیا
پڑھیں:
چین نے امریکی صدر کے ایٹمی تجربات کے دعوے کو بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دے دیا
چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین جوہری تجربات کر رہا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ نِنگ نے کہاکہ یہ دعویٰ بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ چین جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور تخفیفِ اسلحہ کے عمل کی بھرپور حمایت کرتا رہے گا۔
مزید پڑھیں: روس اور چین بھی ایٹمی تجربات کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں، امریکی صدر ٹرمپ کا انکشاف
انہوں نے کہاکہ چین گزشتہ کئی دہائیوں سے جوہری تجربات پر عائد غیر رسمی پابندیوں کی مکمل پاسداری کر رہا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ چین ایک ذمہ دار ایٹمی ملک کے طور پر جوہری تجربات معطل کرنے کے اپنے وعدے پر عمل پیرا ہے۔
ماؤ نِنگ نے مزید کہاکہ چین پُرامن ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور ایٹم بم کے استعمال کو پہلی ترجیح نہ دینے کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین عالمی امن اور استحکام کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کرتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ امریکا کو بھی جوہری تجربات پر عائد عالمی پابندی کو برقرار رکھنا چاہیے۔
چینی ترجمان نے یہ بھی کہاکہ امریکا کو ان اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو عالمی امن اور توازن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں الزام عائد کیا تھا کہ چین، روس، شمالی کوریا اور پاکستان خفیہ طور پر زیرِ زمین جوہری تجربات کر رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہاکہ امریکا کو مزید خاموش نہیں رہنا چاہیے اور اپنے جوہری تجربات دوبارہ شروع کردینے چاہییں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چین اور روس دونوں جوہری تجربات کر رہے ہیں، مگر اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔
انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اگر امریکا نے تجربات نہ کیے تو وہ ایٹمی ہتھیاروں میں چین سے پیچھے رہ جائے گا۔
امریکا نے 1992 سے اب تک کوئی جوہری تجربہ نہیں کیا، جبکہ روس نے 1990 اور چین نے 1996 کے بعد سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: ’حالیہ ہتھیاروں کے تجربات ایٹمی نہیں‘ ٹرمپ کے ایٹمی تجربات کے اعلان پر روس کا رد عمل
ان تینوں ممالک کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف نظامی یا غیر جوہری تجربات کرتے ہیں جن میں اصل جوہری دھماکا شامل نہیں ہوتا۔
حال ہی میں روس نے ایک نئی جوہری طاقت سے چلنے والی کروز میزائل ’بوریوسٹِنِک‘ اور جوہری صلاحیت رکھنے والے زیرِ آب ڈرون کا تجربہ کیا تھا۔ اس کے بعد امریکی صدر نے اپنی وزارتِ دفاع کو نئے ایٹمی تجربات کرنے کی ہدایت دی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی صدر ایٹمی تجربات چین دعویٰ بے بنیاد قرار ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز