امریکہ دیگر ممالک کا تبھی تک دوست ہے جب تک اسے فائدہ ملتا ہے، عمر عبداللہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی کا کہنا ہے کہ ہم سوچتے تھے کہ امریکی صدر ہمارے بہت خاص دوست ہیں اور وہ ہماری دوستی کا احترام کرینگے لیکن ایسا نہیں ہے، امریکہ صرف اپنے مفادات کو دیکھتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کچھ دنوں قبل پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر کے ساتھ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس میں ظہرانہ کیا تھا۔ اس معاملے میں جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے تلخ تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ دیگر ممالک کا تبھی تک دوست ہے، جب تک اسے فائدہ ملتا ہے، اور امریکہ اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے دراصل جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ سے امریکی صدر ٹرمپ اور پاکستان کے فوجی چیف عاصم منیر کے ایک ساتھ ظہرانہ کرنے سے متعلق سوال پوچھا گیا تھا۔ اس تعلق سے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ ان کے مطابق کب تک امریکہ کسی ملک کے ساتھ دوستی نبھاتا ہے۔ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر اپنی مرضی کے مالک ہیں، کیا ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ انہیں کسے ظہرانہ پر مدعو کرنا چاہیئے اور کسے نہیں، یہ ایک الگ ایشو ہے کہ ہم سوچتے تھے کہ امریکی صدر ہمارے بہت خاص دوست ہیں اور وہ ہماری دوستی کا احترام کریں گے۔
جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ امریکہ وہی کرتا ہے جس میں اس کو اپنا فائدہ نظر آتا ہے، وہ کسی دیگر ملک کی فکر نہیں کرتا۔ عمر عبداللہ اپنے والد فاروق عبداللہ کے ساتھ کشمیر میں حال ہی میں شروع ہوئی "وَندے بھارت" ٹرین سے جموں گئے تھے۔ اس ٹرین سے اترنے کے بعد وزیراعلٰی نے امریکہ سے متعلق مذکورہ بالا بیان دیا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ سے متعلق وزیراعلٰی سے جب سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ جنگ رکنی چاہیئے اور دونوں ممالک کے درمیان جو بھی تنازعہ ہے، اس کا حل بات چیت کے ذریعہ کرنا چاہیے۔ عمر عبداللہ نے یہ بھی کہا کہ یہ بمباری شروع ہونی ہی نہیں چاہیئے تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ایران پر حملے رکنے چاہیئے اور بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جموں و کشمیر کے وزیراعل عمر عبداللہ امریکی صدر انہوں نے
پڑھیں:
بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔