پارٹی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے قائد مسلم لیگ نون کے ساتھ ایران پر امریکی حملے کے بعد کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا، قائد مسلم لیگ نون سے مشاورت کے بعد انہوں نے ایرانی صدر کو فون کیا اور ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کی مذمت کی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم شہباز شریف کا ایران پر امریکی حملے کے بعد پارٹی قائد میاں نواز شریف سے ہنگامی رابطہ کیا ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے نواز شریف کے ساتھ ایران پر امریکی حملے کے بعد کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا، نواز شریف سے مشاورت کے بعد انہوں نے ایرانی صدر کو فون کیا اور ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور وزیراعظم کے درمیان قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے پر بھی تبادلہ خیال ہوا، اس حوالے سے نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران کی بلا مشروط سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔

قائد مسلم لیگ نون کا کہنا تھا کہ پاکستان جنگ نہیں امن چاہتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا خاتمے ہونا چاہیے، پاکستان خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے اقوام عالم سے رابطے میں ہے۔ علاوہ ازیں شہباز شریف نے پارٹی قائد کو بریفنگ دیتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، پاکستان کا ملکی دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پر امریکی حملے نواز شریف کے بعد

پڑھیں:

شہباز شریف کی ایرانی صدر سے گفتگو، امریکی حملوں کی مذمت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2025ء) پاکستانی سربراہ حکومت نے ایرانی جوہری تنصیبات پر ان امریکی حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور زور دیا کہ موجودہ بحران کا حل صرف مذاکرات اور سفارت کاری ہی میں ہے۔

اسی دوران پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی ایک باضابطہ بیان میں خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف کی جانے والی جارحیت بین الاقوامی قوانین، خاص طور پر اقوام متحدہ کے منشور کی صریح خلاف ورزی ہے۔

ایران-اسرائیل تنازعہ: مذاکرات بحال ہونا چاہییں، یورپی یونین

اسلام آباد میں ملکی دفتر خارجہ کے مطابق ایران کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے، اور تنازعے کے تمام فریقوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر کشیدگی کو ختم کرنے اور تنازعے کے پرامن حل کے لیے بین الاقوامی قوانین اور مکالمت کے راستے کو اپنائیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں شدید رد عمل

ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں کے حوالے سے پاکستان میں شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

عام پاکستانی شہریوں میں زیر بحث ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ مسلح تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا، تو پاکستان کو کن سفارتی، اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایک درجن سے زائد پاکستانی شہریوں نے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافے اور ممکنہ طور پر ایندھن کے بحران پر تشویش کا اظہار کیا۔

کئی رائے دہندگان نے پاکستانی جوہری تنصیبات کی سکیورٹی کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا، جبکہ کچھ کو خدشہ تھا کہ خطے میں موجودہ کشیدگی پھیل کر ایک علاقائی جنگ کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے۔

ایران- اسرائیل تنازعہ: پاکستان کے لیے بڑھتے خطرات اور چیلنجز

ان حالات میں کئی پاکستانی شہریوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ اب ایران پر حملہ کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ کے لیے پاکستان کی جانب سے نوبل انعام کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

ایسے پاکستانیوں نے اس تجویز کو ناقابل فہم اور شرمناک قرار دیا، ''جسے واپس لیا جانا چاہیے۔‘‘ ’صورت حال مزید تشویش ناک‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ کار امتیاز عالم نے اسے ’’بڑی بدقسمتی کی بات‘‘ قرار دیا کہ ''امریکی ایرانی بات چیت کے دوران اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا اور اب یورپی ایرانی بات چیت کے دوران امریکہ نے بھی ایران پر فضائی حملے کر کے صورت حال کو مزید تشویشناک‘‘ بنا دیا ہے۔

امتیاز عالم کے الفاظ میں، ''اصل معاملہ ایران کا نہیں بلکہ نئے مشرق وسطیٰ کا ہے۔ یہ حملے امریکہ نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیے ہیں۔ ان حالات میں امریکی صدر کو نوبل انعام دیے جانے کی سفارش کرنے والوں کو شرم آنا چاہیے اور یہ سفارش فی الفور واپس لی جانا چاہیے۔‘‘

پاکستان کی تقریباﹰ سبھی چھوٹی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی ایران پر امریکی حملوں کی مذمت کی ہے جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی عام شہری ایران پر امریکی فضائی حملوں پر غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

’پاکستانی جوہری تنصیبات کو کوئی خطرہ نہیں‘

معروف سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کے بعد خطے کی صورتحال نازک تر ہو گئی ہے اور اگلے چند روز بہت اہم ہوں گے۔

ان کے بقول اگر ایران نے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کو نشانہ بنایا، تو تنازعہ پھیل کر باقاعدہ جنگ بھی بن سکتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی ایٹمی تنصیبات کو کوئی فوری خطرہ نہیں، تاہم آئندہ مہینوں اور برسوں میں علاقائی سیاست میں تغیرات کا بغور جائزہ مسلسل ناگزیر رہے گا۔

ایران میں عدم استحکام سے پاکستانی سرحد پر عسکریت پسندی میں اضافے کا خدشہ

دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سفارت کاری کو موقع نہ دینا انتہائی افسوسناک ہے۔

ان کے مطابق اگر اقوام متحدہ، بین الاقوامی قانون، اور این پی ٹی جیسے عالمی معاہدوں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا، تو یہ صورتحال پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

آبنائے ہرمز عالمی تیل کی سپلائی کے لیے اہم کیوں؟

اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے کہا کہ اسرائیل کے پاس ایرانی ایٹمی تنصیبات کو اکیلے نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں تھی، اس لیے اس نے امریکہ کی مدد حاصل کی۔

ان کے مطابق ایران پر امریکی فضائی حملے دراصل پہلے سے جاری جنگ کا تسلسل ہیں۔

''اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ ایران جواباﹰ امریکہ کو نشانہ بناتا ہے یا صرف اسرائیل کو۔ دوسری طرف چین، روس اور دیگر عالمی طاقتوں کو بھی اس تنازعے کو وسیع تر جنگ بننے سے روکنے کی ہر ممکن کوششیں کرنا چاہییں۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کا ایران کے معاملے پر نوازشریف سے ہنگامی رابطہ، ایران پر امریکی حملے کے بعد کی صورت حال پر تبادلہ خیال
  • وزیراعظم کانوازشریف سے ہنگامی رابطہ، ایران پرامریکی حملے کے بعدکی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • شہباز شریف کی ایرانی صدر سے گفتگو، امریکی حملوں کی مذمت
  • وزیراعظم شہباز شریف کا ایرانی صدر سے رابطہ، امریکی حملوں کی مذمت
  • شہباز شریف کا مسعود پیزشکیان سے ٹیلی فونک رابطہ، اسرائیلی، امریکی حملے قابل مذمت قرار
  • وزیر اعظم شہباز شریف کا ایران کے صدر سے ٹیلی فونک رابطہ ، پاکستان کی غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ
  • وزیراعظم شہباز شریف آج ایرانی صدر سے رابطہ کریں گے
  • شہباز شریف اور امریکی وزیر خارجہ کا رابطہ، ایران اسرائیل کشیدگی پر تبادلہ خیال
  • وزیراعظم شہباز شریف اور امریکی وزیر خارجہ کا ٹیلیفونک رابطہ، ایران اسرائیل بحران کے پرامن حل کی ضرورت پر زور