بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں بیرونی حملوں کے باوجود مضبوط اور محفوظ ہیں، ہم پرزور طریقے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایران کی مقامی اور پُرامن جوہری ٹیکنالوجی کو کسی بھی حملے سے تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے کہا ہے کہ خطے میں امریکی فوجی اڈوں کی وسیع موجودگی طاقت کی علامت نہیں، بلکہ کمزوری کا پہلو ہے، ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ خطے میں امریکی فوجی اڈوں کی تعداد، پھیلاؤ اور وسعت کوئی طاقت نہیں بلکہ ان کی کمزوری کو دوگنا کر چکی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں بیرونی حملوں کے باوجود مضبوط اور محفوظ ہیں، ہم پرزور طریقے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایران کی مقامی اور پُرامن جوہری ٹیکنالوجی کو کسی بھی حملے سے تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ قبل ازیں پریس ٹی وی کے مطابق پاسداران انقلاب اسلامی کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل علی محمد نائینی نے ایک بیان میں کہا کہ ہفتہ کے روز آپریشن وعدہ صادق 3  کے اٹھارویں مرحلے کو گزشتہ ہفتے کے سب سے کامیاب مراحل میں شمار کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس مرحلے میں میزائلوں کے انتخاب، اہداف کے تعین، اور میزائل و ڈرونز کے رہنمائی راستوں میں نئی جدتیں متعارف کرائی گئیں، جس کے نتیجے میں حیفہ اور تل ابیب میں 14 اسٹریٹجک فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ حیفہ کے مرکزی علاقے میں واقع سیل ٹاور (جہاں مصنوعی ذہانت کی کمپنی اے آئی 12 لیبز اور جنگی صنعتوں سے وابستہ دیگر سافٹ ویئر ادارے موجود ہیں) کو ایک طویل فاصلے تک مار کرنے والے قدر-ایف میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ بریگیڈیئر جنرل علی محمد نائینی نے مزید کہاکہ حدیرا پاور پلانٹ، حیفہ آئل ریفائنری، اووڈا ایئربیس (سائبر کمانڈ)، کریات گیٹ کے سیمی کنڈکٹر صنعتی زون، اور حیفہ کے رافیل مرکز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے صہیونی حکومت کو خبردار کیا کہ آپریشن کے انیسویں مرحلے کا تسلسل برقرار رہے گا اور یہ ان کے توازن کو درہم برہم کر دے گا۔ ایرانی مسلح افواج (جن کی قیادت پاسداران انقلاب ایرو اسپیس ڈویژن کر رہی ہے) نے اب تک 13 جون سے 19 مراحل مکمل کیے ہیں، جب صہیونی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران پر بلا اشتعال جارحیت کا آغاز کیا تھا۔
   

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پاسداران انقلاب کہ ایران کی

پڑھیں:

سلامتی کونسل: کیا ایران پر آج دوبارہ پابندی لگا دی جائے گی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایران کے جوہری پروگرام پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کی طرف ایک اور قدم اٹھا سکتی ہے۔ اس حوالے سے جمعہ کے روز نیویارک میں ووٹنگ شیڈول ہے۔ کونسل میں یہ ووٹنگ مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے ہو گی۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسودہ قرارداد کو موجودہ صورتِ حال برقرار رکھنے کے لیے درکار نو ووٹ نہیں ملیں گے، جس کے تحت پابندیاں معطل رہتیں، اور اس طرح ایران پر دوبارہ سزائیں (پابندیاں) عائد کر دی جائیں گی۔

روس اور چین، جو پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی مخالفت کرتے ہیں، کو 15 رکنی کونسل میں نو ووٹ درکار ہوں گے، جو سفارتی ذرائع کے مطابق تقریباً ناممکن ہے۔

(جاری ہے)

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے جمعرات کو ایک اسرائیلی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ انہیں توقع ہے کہ رواں ماہ کے آخر تک ایران پر بین الاقوامی پابندیاں بحال ہو جائیں گی۔

انہوں نے کہا، ’’ایران کی طرف سے ملنے والی تازہ ترین معلومات سنجیدہ نہیں ہیں۔‘‘ پابندیاں کیوں بحال کی جارہی ہیں؟

برطانیہ، فرانس اور جرمنی، جو جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن کے فریق ہیں جس کا مقصد تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا تھا، کا الزام ہے کہ ایران نے 2015 کے اس معاہدے کے تحت کیے گئے وعدے توڑ دیے ہیں۔

’یورپی تین‘ یا ’ای تھری‘ کے نام سے معروف برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اگست کے وسط میں اقوام متحدہ کو ارسال کردہ ایک خط میں الزام لگایا کہ ایران نے جوہری معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کی ہے، جن میں یورینیم کا ذخیرہ مقررہ سطح سے 40 گنا زیادہ بڑھانا بھی شامل ہے۔

اس معاملے پر یورپی طاقتوں اور ایران کے درمیان سفارتی بات چیت کے باوجود مغربی اتحاد کا اصرار ہے کہ کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار رچرڈ گوان کے مطابق، ’’الجزائر اور پاکستان ممکنہ طور پر روس اور چین کی حمایت کریں گے، لیکن میرا خیال ہے کہ دیگر اراکین مخالفت یا غیر حاضری اختیار کریں گے، لہٰذا یورپی ممالک اور امریکہ کو ویٹو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’اگر ایران اور یورپی ممالک آخری وقت پر کوئی سمجھوتہ کر لیں تو کونسل کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ ایک اور قرارداد منظور کرے جس کے ذریعے پابندیوں کی معطلی میں توسیع ہو سکتی ہے۔

‘‘

دریں اثنا ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعرات کو کہا کہ انہوں نے ’’ایک معقول اور عملی منصوبہ‘‘ یورپی تین اور یورپی یونین کے ہم منصبوں کے سامنے رکھا ہے تاکہ ’’آنے والے دنوں میں غیر ضروری اور قابلِ اجتناب بحران‘‘ سے بچا جا سکے۔

عراقچی نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ یہ تجویز ’’حقیقی خدشات کو دور کرتی ہے‘‘ اور اسے باہمی طور پر فائدہ مند قرار دیا، تاہم اس کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

آخری لمحے کی کوشش؟

سن دو ہزار پندرہ کا مشکل سے طے پایا جوہری معاہدہ اس وقت سے غیر مؤثر ہو چکا ہے جب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اسے یک طرفہ طور پر خیرباد کہہ کر ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔

مغربی طاقتیں اور اسرائیل طویل عرصے سے ایران پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ایران اس کی تردید کرتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے معاہدے سے الگ ہونے کے بعد ایران نے بتدریج اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کیا اور جوہری سرگرمیاں تیز کر دیں، جبکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جون میں 12 روزہ لڑائی کے بعد کشیدگی مزید بڑھ گئی۔

اس لڑائی نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کو بھی پٹڑی سے اتار دیا اور ایران نے عالمی جوہری ادارے، آئی اے ای اے، کے ساتھ تعاون معطل کر دیا۔ ویانا میں قائم اقوام متحدہ کے اس ادارے کے معائنہ کار جنگ کے بعد ایران سے واپس لوٹ آئے۔

اس دورن ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر پابندیوں کا خودکار نظام (اسنیپ بیک) فعال ہوا تو وہ جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے سے دستبردار ہو جائے گا۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • ایران کا یورپی ممالک کو سخت انتباہ، جوہری ایجنسی سے تعاون معطل کرنے کی دھمکی
  • سیناء میں فوجوں کی موجودگی امن معاہدے کے خلاف نہیں، مصر
  • حالات بدلنے کی طاقت ہے، حد سے بڑھے مطالبات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، ایرانی صدر
  • 12 روزہ جنگ عظیم ایرانی قوم کی طاقت اور یکجہتی کا مظہر تھی، عزیز ناصر زادہ
  • 12 روزہ جنگ عظیم ایرانی قوم کی طاقت اور یکجہتی کا مظہر تھی،
  • بلوچستان کے نوجوانوں کو فوجی آپریشن نہیں تعلیم کی ضرورت: حافظ نعیم
  • اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہوسکی
  • اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہو سکی
  • افغان عوام نے کبھی غیر ملکی فوجی موجودگی قبول نہیں کی، افغان وزارت خارجہ
  • سلامتی کونسل: کیا ایران پر آج دوبارہ پابندی لگا دی جائے گی؟