پاکستان، چین، بنگلا دیش: مشترکہ ترقی کے نئے راستے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی تناظر میں پاکستان، چین اور بنگلا دیش کے مابین سہ فریقی ورکنگ گروپ کا قیام ایک خوش آئند اور تاریخی پیش رفت ہے۔ 19 جون 2025 کو چین کے شہر کنمنگ میں ہونے والا افتتاحی سہ فریقی اجلاس جہاں علاقائی روابط کے ایک نئے باب کا آغاز ہے، وہیں یہ جنوبی ایشیا میں تعاون، ترقی اور استحکام کی امید افزا علامت بھی ہے۔ اس اجلاس کی میزبانی چین نے کی اور پاکستان و بنگلا دیش کی اعلیٰ سفارتی قیادت کی شرکت نے اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ پاکستان کی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ، بنگلا دیش کے قائم مقام سیکرٹری خارجہ روح العالم صدیقی اور چین کے نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ نے نہ صرف سیاسی تعاون بلکہ تجارت، ڈیجیٹل معیشت، زراعت، تعلیم، ثقافت، ماحولیات اور سمندری سائنس جیسے شعبوں میں باہمی روابط بڑھانے پر اتفاق کیا۔ یہ پیش رفت اس وقت اور زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے جب ہم جنوبی ایشیائی خطے کے تاریخی مسائل کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے ماضی کے تناؤ کے باوجود حالیہ برسوں میں تعلقات میں مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ کا اپریل 2025 کا ڈھاکا دورہ گزشتہ 15 برسوں میں پہلا باضابطہ سفارتی رابطہ تھا، جس نے دوطرفہ اعتماد سازی کی فضا کو جنم دیا۔ اسی طرح حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتیں، بشمول وزیر اعظم شہباز شریف اور بنگلا دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے درمیان عالمی فورموں پر ملاقاتیں اس اعتماد کی مضبوطی کا پتا دیتی ہے۔ اس سہ فریقی ورکنگ گروپ کی تشکیل درحقیقت چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کی اس اسٹرٹیجک سوچ سے جْڑی ہے، جو خطے کو معاشی اعتبار سے مربوط اور باہم منسلک دیکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان اس وژن میں گوادر پورٹ اور سی پیک کے ذریعے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ بنگلا دیش کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت اسے مشرقی ایشیا کے لیے ایک قدرتی تجارتی دروازہ بناتی ہے۔ ایسے میں اگر یہ سہ فریقی تعاون مؤثر طریقے سے آگے بڑھتا ہے تو نہ صرف یہ ممالک خطے کے اقتصادی توازن کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوں گے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک متبادل ترقیاتی ماڈل پیش کیا جا سکے گا۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ اجلاس میں مشترکہ ورکنگ گروپ کے قیام پر اتفاق ہوا ہے جو طے شدہ شعبوں میں عملی پیش رفت کو ممکن بنائے گا۔ اگر یہ سلسلہ برقرار رہا تو مستقبل میں سارک جیسی غیر مؤثر علاقائی تنظیموں کے برعکس ایک فعال، عملی اور نتیجہ خیز علاقائی اتحاد کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ اسی تناظر میں ہمیں ماضی کے کچھ کامیاب علاقائی ماڈلز سے سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ مثلاً آسیان ، جس نے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر معاشی و سیاسی ترقی کا نیا باب رقم کیا۔ پاکستان، چین اور بنگلا دیش کا یہ تعاون بھی جنوبی ایشیا میں آسیان جیسا ماڈل تشکیل دے سکتا ہے، بشرطیکہ سیاسی عزم، تسلسل اور اعتماد سازی کو برقرار رکھا جائے۔ چین، پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ سہ فریقی تعاون صرف ایک سفارتی اجلاس نہیں بلکہ علاقائی ہم آہنگی، باہمی ترقی اور مشترکہ مستقبل کی بنیاد ہے۔ حکومت ِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو بھرپور طریقے سے استعمال کرے اور اس میکانزم کو صرف دستاویزات کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے اسے عملی اشتراک اور منصوبہ بندی کا مؤثر ذریعہ بنائے۔ یہ نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہوگا بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عوامی فلاح کے نئے دروازے کھولنے کا سبب بنے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور بنگلا دیش کے جنوبی ایشیا
پڑھیں:
بنگلا دیش میں عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان؛ طلبا کا جشن
بنگلا دیش کے عبوری سربراہ محمد یونس نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں عام انتخابات فروری 2026 میں ہوں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اس بات کا اعلان سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے ایک سال مکمل ہونے کے دن پر کیا گیا ہے۔
عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے قوم سے خطاب میں کہا کہ عبوری حکومت کی جانب سے وہ چیف الیکشن کمشنر کو باضابطہ خط لکھیں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس خط میں درخواست کی جائے گی کہ انتخابات رمضان سے پہلے فروری 2026 میں کرائے جائیں جو اپریل میں ہونا تھے۔
محمد یونس نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن حتمی تاریخ کا تعین کرے گا لیکن اپنی اس تقریر کے بعد وہ "انتقال اقتدار" کے سب سے اہم مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔
عبوری سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ میں آپ سب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ ہم آزاد، شفاف اور پرامن انتخابات کروا سکیں تاکہ تمام شہری 'نئے بنگلا دیش' کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
سربراہ محمد یونس کے اس خطاب کے موقع پر بڑی سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنما بھی موجود تھے جہاں انھوں نے قومی اتحاد، جمہوری اصلاحات اور جامع حکمرانی کے لیے روڈ میپ کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل عبوری سربراہ محمد یونس نے اپریل 2026 میں انتخابات کرانے کی تجویز دی تھی، تاہم بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اور دیگر جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ الیکشن رمضان سے پہلے فروری میں ہوں۔
طلبہ تحریک کی قیادت کرنے والے گروپ نے ایک سیاسی جماعت، نیشنل سٹیزن پارٹی بنائی ہے جو ملک میں فوری انتخابات کے لیے مہم چلا رہی تھی۔
بی این پی کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا، جو حسینہ کی سخت سیاسی حریف ہیں وہ یہی مطالبہ کر رہی ہیں۔
واضح رہے کہ طویل طلبا احتجاج کے نتیجے میں گزشتہ برس 5 اگست کو وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اپنا طویل آمرانہ اقتدار چھوڑ کر بھارت فرار ہوگئی تھیں۔