ریاض:  سعودی عرب نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔

وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ سعودی عرب خطے میں کشیدگی ختم کرکے فریقین کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا خیر مقدم کرتا ہے۔

وزارت خارجہ نے خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہا ہے۔

وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب کو امید ہے کہ آنے والے دنوں میں تمام فریق تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی سے گریز کریں گے اور یہ معاہدہ خطے میں امن و استحکام کی بحالی میں مددگار ثابت ہوگا تاکہ مسلسل کشیدگی کے خطرات سے بچا جا سکے۔

بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب ایک بار پھر اپنے اس پختہ مؤقف کا اعادہ کرتا ہے کہ علاقائی تنازعات اور اختلافات کے حل کے لیے مکالمہ اور سفارتی ذرائع اپنانے چاہییں تاکہ ریاستوں کی خودمختاری کا احترام کیا جا سکے اور خطے و دنیا میں امن، استحکام، خوشحالی و ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششوں میں سعودی عرب پیش پیش کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) سعودی اقدامات کے معترف اسے ''سفارتکاری میں ماسٹر کلاس‘‘ قرار دے رہے ہیں، جو مشرق وسطی میں امن کے لیے ایک حقیقی موقع ثابت ہو سکتا ہے، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ دراصل اپنے مفادات پر مبنی اقدام ہے، ایک ''پبلسٹی اسٹنٹ‘‘ جس کا مقصد کسی ملک کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر بین الاقوامی امیج خراب کرنے میں مدد کرنا ہے۔

سعودی عرب کی حالیہ مہم کا آغاز ستمبر 2024ء میں ناروے کے ساتھ مل کر ''دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد‘‘ کے آغاز کے ساتھ ہوا تھا، اور اس کے لیے دو اولین ملاقاتیں بھی ریاض میں ہی منعقد ہوئی تھیں

دسمبر میں اقوام متحدہ میں ایک ووٹنگ میں دو ریاستی حل کے لیے عالمی حمایت کا اعادہ کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

سعودی عرب اور فرانس کی زیر صدارت حال ہی میں نیویارک میں ہونے والی کانفرنس میں فرانس، کینیڈا، مالٹا، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔

عرب لیگ کے ارکان، یورپی یونین اور دیگر ممالک کی جانب سے دستخط کردہ ''نیویارک اعلامیہ‘‘ امن کی جانب اقدامات کی نشاندہی کرتا ہے۔

اعلامیے میں دو ریاستی حل کی جانب مرحلہ وار بڑھنے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلح ہو، باقی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے اور غزہ کی حکمرانی چھوڑ دے۔

دستخط کنندگان نے کہا، ''ہم غزہ میں شہریوں اور شہری انفراسٹرکچر پر اسرائیل کے حملوں، محاصرے اور بھوک کی بھی مذمت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ‍المناک انسانی تباہی ہوئی ہے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ عرب لیگ کے تمام 22 ارکان نے اعلامیے پر دستخط کیے تھے جسے ایک سفارتی پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب بہت سے لوگوں نے حماس کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا اور فرانس کے ساتھ مل کر سعودی عرب کو یہ سب کچھ کرنے میں مدد دینے کا سہرا دیا جاتا ہے۔

رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹیٹیوٹ فار پبلک پالیسی میں مشرق وسطیٰ کے فیلو کرسٹیان کوٹس اُلرشسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ''عرب اور اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی حیثیت اور مکہ اور مدینہ کے مقدس مذہبی مقامات کی دیکھ بھال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب جو کچھ بھی کرتا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے۔‘‘

سعودی اب ایسا کیوں کر رہے ہیں؟

اکتوبر 2023 میں حماس کے حملوں سے قبل سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر غور کر رہا تھا۔

اس پر اسے فلسطینی ریاست کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے موجودہ دباؤ محض اس کے امیج کی بحالی کی کوششوں کا حصہ ہے۔

تاہم سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ گلف انٹرنیشنل فورم کے عزیز الغشیان کے مطابق، ''اس موضوع پر اہم غلط فہمیوں میں سے ایک یہ خیال بھی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی سعودی خواہش کچھ نئی ہے، جبکہ حقیقت میں یہ خواہش 1960 کی دہائی کے آخر سے ہے۔

‘‘

اُلرشسن نے 2002 کے عرب پیس انیشی ایٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل کے سعودی منصوبے دہائیوں پرانے ہیں: ''لیکن کئی سالوں تک، عرب امن اقدام پہلے سے طے شدہ سعودی موقف تھا۔ اب غزہ کی ہنگامی صورتحال اور مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد کا مطلب یہ ہے کہ سعودیوں نے اندازہ لگا لیا ہے کہ وہ اس طرح کی تباہی اور انسانی مصائب کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتے۔

‘‘

اُلرشسن نے ''نیو یارک اعلامیہ‘‘ کو 2002ء کے اقدام کا دوبارہ آغاز قرار دیا۔

امن پر زور سعودی عرب کے اپنے مفاد میں

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض دیگر وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے فلسطینی ریاست کی جانب پیش قدمی سے سعودی عرب کو فائدہ ہوتا ہے۔

ان میں سے ایک واضح علاقائی استحکام ہے، جو سعودی عرب کے لیے ضروری ہے کہ وہ تیل سے ہٹ کر اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے بڑے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے۔

سعودی سفارتکاری خارجہ پالیسی کے دیگر مقاصد کو بھی آگے بڑھاتی ہے۔ عرب زبان کے اخبار 'رسیف 22‘ نے گزشتہ ہفتے ایک مضمون میں لکھا کہ ریاض کی کوششیں سعودی عرب کی سوچی سمجھی تبدیلی کا حصہ ہیں: ''سعودی عرب نے عرب امن اقدام کو بین الاقوامی اہمیت کے ساتھ ایک سیاسی عمل میں تبدیل کر دیا ہے، ایک عرب-اسلامی ووٹنگ بلاک تشکیل دیا ہے، اسے مغرب کے ساتھ توانائی اور سمندری سلامتی کے مذاکرات میں اثر و رسوخ (کے طور پر استعمال کیا ہے) اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ کے بعد کی صورتحال میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔

‘‘ کیا سعودی فرانسیسی اقدام کامیاب ہو سکے گا؟

یہ کہنا قبل از وقت ہو گا، لیکن علامات امید افزا ہیں۔ اُلرشسن نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ اور کینیڈا دونوں نے فلسطین کو آئندہ مشروط طور پر تسلیم کرنے کے بیانات جاری کیے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی اور فرانسیسی نقطہ نظر اپنا اثر دکھا رہا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اقوام متحدہ کے مزید ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ ستمبر میں ہونے والی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل اس اعلامیے کی حمایت کریں۔

عرب نیوز کے ایڈیٹر ان چیف فیصل جے عباس نے لکھا، ''واشنگٹن کے لیے سعودی فرانسیسی سفارتی اقدام امریکی تزویراتی مفادات کے عین مطابق ہے اور یہ دائمی تنازعات سے نکلنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ اس سے خطے میں استحکام لانے میں مدد مل سکتی ہے اور امریکی فوجی مداخلت کی ضرورت کم ہو سکتی ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ''یہ اسرائیل کو طویل المدتی سکیورٹی گارنٹیاں بھی فراہم کرتا ہے، اگر وہ اپنے انتہائی دائیں بازو کے دباؤ پر ویسٹ بینک کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے مطالبات سے پیچھے ہٹتا ہے تو۔

‘‘

تاہم اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ کی طرف سے سعودی فرانسیسی سفارتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے ان کوششوں کو ''حقیقت سے منقطع‘‘ جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے اسے 'پبلسٹی اسٹنٹ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

ادارت: شکور رحیم، مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تاریخی امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں : وزیر اعظم
  • پاکستان کا آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تاریخی امن معاہدے کا خیر مقدم
  • آذربائیجان اور آرمینیاکے درمیان تاریخی امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں،وزیر اعظم
  • سعودی وزیر خارجہ کی غزہ کی صورتحال پر عالمی ہم منصبوں سے رابطے، اسرائیلی منصوبے کی مذمت
  • یوکرائنی صدر کا بیان مسترد، اسرائیلی توسیع پسندانہ اقدامات خطے کیلئے کشیدگی کا باعث: پاکستان
  • اسرائیل خطرناک اقدامات فوری طور پر بند کرے، چینی وزارت خارجہ
  • اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات خطے کو کشیدگی کی طرف لے جائیں گے: دفتر خارجہ
  • فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششوں میں سعودی عرب پیش پیش کیوں؟
  • سعودی وزارتِ حج و عمرہ کا انقلابی قدم، نسک ایپ انٹرنیٹ کے بغیر بھی قابلِ استعمال
  • امریکا بھارت کشیدگی: نریندر مودی کا 7 برس بعد چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ