پاکستان اور یو اے ای کا معاہدہ، مخصوص پاسپورٹ پر ویزہ کی شرط ختم
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 جون 2025ء ) پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مخصوص پاسپورٹ پر ویزہ کی شرط ختم کردی گئی اس حوالے سے معاہدہ طے پاگیا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان اور امارات مشترکہ وزارتی کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا جس میں سرکاری و سفارتی پاسپورٹ پر ویزا کی شرط ختم کرنے سمیت دیگر اہم فیصلے کیے گئے، اس حوالے سے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 12 سال کے طویل وقفے کے بعد ابوظہبی میں مشترکہ وزارتی کمیشن (جے ایم سی) کا 12واں اجلاس منعقد ہوا، وزیر خارجہ و نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور ان کے ہم منصب شیخ عبداللہ بن زاید کی قیادت میں ہونے والے اجلاس کو دونوں برادر ممالک کے درمیان سٹریٹیجک، اقتصادی اور ترقیاتی تعاون کو ایک نئی بلندی تک پہنچانے کی اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
اس بارے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ اجلاس میں تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، انفرا اسٹرکچر اور آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، اس موقع پر 3 اہم مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے جن میں ایک بڑا اقدام دونوں ممالک کے سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے ویزہ سے استثنیٰ کا معاہدہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شیخ عبداللہ بن زاید کے ساتھ ویزہ سے استثنیٰ کے معاہدے پر دستخط دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد، برادرانہ تعلقات اور ادارہ جاتی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کا عکاس ہیں، یہ پیشرفت پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان گہرے سفارتی، تجارتی اور اقتصادی روابط کی مظہر ہے، اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت (AI) و ڈیجیٹل معیشت میں تعاون اور مشترکہ سرمایہ کاری کے فروغ پر بھی باقاعدہ اتفاق ہوا جو مستقبل میں دونوں ممالک کے معاشی مفادات کو مزید وسعت دے گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اور کے درمیان ممالک کے
پڑھیں:
اسرائیل، بھارت اور افغان طالبان کا شیطانی گٹھ جوڑ
خطے میں ایک خطرناک اور مبینہ سازش آشکار ہوئی ہے جس میں بعض حلقے اسرائیل، بھارت اور افغان طالبان کی باغی قیادت (TTA) کو ایک محوری کردار میں جوڑنے کی بات کررہے ہیں، اور یہ الزام تب زور پکڑا جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ طے پایا جس نے پاکستان کو «محافظِ حرمینِ شریفین» کا مرتبہ دیا۔
اس منظرنامے کے حامی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا 17 ستمبر کو طے پانے والا معاہدہ محض اتفاقی تبدیلیاں لا رہا تھا، یا اس نے اُن قوتوں کو متحرک کر دیا جو اس اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ اُن کے مطابق مندرجہ ذیل خام نکات قابلِ غور ہیں:
مبینہ سفارتی رابطے اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کا تسلسل مشکوک معلوم ہوتا ہے — جن میں بھارتی وزیراعظم اور اسرائیلی رہنماؤں کے رابطے، افغان طالبان قیادت کے دورے، اور پھر بعض سرحدی واقعات شامل ہیں۔
بیان کے مطابق بعض ملاقاتیں محض سفارتی گفتگو نہیں بلکہ دفاعی و انٹیلی جنس تعاون کی سمت میں پیش رفت تھیں، جسے مبصرین ایک عسکری محور سمجھتے ہیں۔
الزام ہے کہ تینوں فریقوں کے درمیان کرداروں کی تقسیم ہے: اسرائیل حکمتِ عملی اور خفیہ معلومات فراہم کرتا ہے، بھارت سیاسی و مالی معاونت کرتا ہے، اور مقررہ باغی عناصر سرحدی حملے یا پراکسی کارروائیاں انجام دیتے ہیں۔
مقصد کے طور پر اُن کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ سب پاکستان کے نئے کردار — خاص طور پر «محافظِ حرمینِ شریفین» کا عہدہ — کو کمزور کرنا اور مسلم اُمہ میں اتحاد کو ٹھیس پہنچانا ہے۔
اس طرح کے بیانات اس لیے خطرناک ہو سکتے ہیں کہ وہ تیزی سے تنازعہ انگیز روایات کو فروغ دیں اور بغیر تصدیق کے عوامی رائے تشکیل پائیں۔ اِس لیے ضروری ہے کہ:
جو بھی سنجیدہ دعوے کیے جائیں، اُن کے شواہد، ثبوت اور حوالہ جات ساتھ پیش کیے جائیں؛
معاملے کی تحقیقات مناسب اداروں کے ذریعے شفاف انداز میں کی جائیں؛
عوامی گفتگو میں ذمہ دارانہ انداز اپنایا جائے تاکہ کشیدگی اور اشتعال سے بچا جا سکے۔
آخر میں، چاہے کن سازشی نظریات کا نتیجہ کچھ بھی ہو، مؤقف رکھنے والوں کا ایمان ہے کہ پاکستان متحد، پراعتماد اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم، امن، استحکام اور خطے میں باہمی اعتماد کے فروغ کے لیے شواہد پر مبنی مباحثہ، سفارتی رابطے اور مل کر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہی مفید راستہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں