Daily Ausaf:
2025-11-09@12:02:45 GMT

کیا اگلاہدف۔۔۔۔پاکستان؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
نتین یاہوکی یہ زہرآلوددھمکی یازبان سے پھسلے الفاظ کہ وہ’’ایران کے بعدپاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم کرے گا‘‘۔یہ محض ایک سیاسی بیان نہیں،بلکہ ایک برہنہ تہذیبی دھمکی ہے۔یہ محض پاکستان کے خلاف ایک لسانی اشتعال نہیں،بلکہ مسلم امہ کے اجتماعی وقارکوچیلنج اوراسلامی دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔نیتن یاہوجیسے درندے کایہ اشتعال انگیزبیان یقیناصرف خطہ میں ہی نہیں بلکہ دنیا کو ایک انتہائی خوفناک جنگ کی دہلیز پر لاکھڑاکیاہے جس کیلئے ابھی سے سیاسی اورسفارتی انداز میں باورکرانے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی نیتن یاہو اور مودی جیسے فاشسٹ افراد کو دنیا کو تاریک کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
یہ سوال آج ہردانشور،ہرتجزیہ نگار اور ہر عام انسان کی زبان پرہے:کیاواقعی امریکاایران پر حملہ کرے گااورایران کاجواب کیاہوگا؟تاہم اگرایسا ہواتویہ حملہ کسی ملک پرنہیں بلکہ ایک تہذیب،ایک فکراورایک نظریے پرحملہ ہوگا۔ اگرامریکانے ایران پربراہِ راست حملے کی جسارت کی تویہ ایک چنگاری نہیں بلکہ آتش فشاں ثابت ہوگا۔ایران کاردعمل صرف امریکی اڈوں تک محدودنہ ہوگا،بلکہ پورے خطے میں امریکی مفادات کولپیٹ میں لے سکتا ہے۔ عراق، شام، لبنان، اورخلیجی ریاستیںسب اس دائرہ آتش میں آئیں گی۔
ایران کاجواب شایدروایتی نہ ہوبلکہ غیر متوقع، ہمہ جہتی اورفکری سطح پربھی ہوسکتا ہے۔ ایرانی جواب دہی صرف میزائلوں سے نہ ہوگی، بلکہ اس میں وہ فکری شعوربھی شامل ہوگاجو سید الشہداکے لہوسے کشیدکیاگیاہے،اورجوزمانے کے ہریزیدکے خلاف قیام کی علامت بن چکا ہے۔ اگر ایران پرحملہ ہوتاہے توایران کاپہلاردعمل یقینا ان امریکی اڈوں پرہوسکتاہے جوقطر، بحرین، سعودی عرب،کویت اورعراق میں موجودہیں۔یہ صرف عسکری تنصیبات نہیں بلکہ مغربی تسلط کی علامتیں ہیں۔ان پرحملہ گویاامریکاکی ’’ناقابلِ تسخیر‘‘ہیبت کوخاک میں ملاناہوگا۔
چین اورروس کی خاموشی کی حکمت اور شطرنجی چالوں کوبھی نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔ روس اورچین اب تک اس سارے معاملے میں پراسرارخاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں،مگریہ خاموشی بے معنی نہیں۔ایسے عالم میں جب عالمی سیاست ایک نازک موڑپرہے،چین اور روس کی خاموشی بھی ایک گونج رکھتی ہے۔ان کی خاموشی طوفان سے پہلے کی خاموشی معلوم ہوتی ہے۔ روس،شام میں اپنے تجربے کی بنیادپرمشرقِ وسطی کی حرکیات کوبخوبی سمجھتاہے،جبکہ چین کی توانائی کی ضروریات اسے خلیجی استحکام کاناگزیرخواہاں بناتی ہیں۔چین کا بیلٹ اینڈروڈمنصوبہ اورروس کے مشرقِ وسطی میں بڑھتے ہوئے مفادات شاید انہیں اس کھیل کافریق بننے پرمجبورکریں۔چین کی اقتصادی شاہراہیں اورروس کاشام ویوکرین میں کردار،ان دونوں کواس کھیل کالازمی فریق بناتا ہے۔ممکن ہے کہ یہ دونوں طاقتیں وقت آنے پرایک بڑے اتحادکی بنیادرکھیں جومغربی اجارہ داری کے خلاف ایک نئی عالمی صف بندی کاسبب بنے۔
سوال یہ ہے کہ کیاامت مسلمہ واقعی بے حس ہوچکی ہے؟کیاامت مسلمہ واقعی خوابِ غفلت سے جاگے گی؟یاپھرحسبِ سابق قراردادوں، مذمتوں اور بیان بازیوں تک محدودرہے گی،یاوقت آنے پرتاریخ کوحیران کردینے والی کوئی پیش رفت کرے گی؟کیایہ ممکن ہے کہ ترکی، ملائشیا، ایران، پاکستان اوردیگرممالک کسی نئے اسلامی اتحاد کاپیش خیمہ بنیں، جہاں نہ صرف عسکری بلکہ سفارتی وفکری محاذ پربھی مشترکہ جدوجہدکی بنیاد رکھی جائے؟ پاکستان ،ترکی،ملائشیاجیسے ممالک کی جانب سے ممکنہ اسلامی عسکری یاسفارتی بلاک نہ صرف ایک سیاسی حکمت بلکہ امت کی فکری وحدت کی آزمائش ہوگی۔ایک فکری اضطراب اس امت کے سوتے ہوئے ضمیرکو جھنجھوڑ رہا ہے، اورشایدوقت آپہنچاہے کہ تہذیبی بیداری کی کوئی شمع روشن کی جائے۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان،ترکی، ملائشیااوردیگرمسلم ممالک مشترکہ سفارتی،اقتصادی اورعسکری محاذکی تیاری کریںیہ فقط ایک سیاسی اتحاد نہیں بلکہ تہذیبی اعادہ اورتاریخی بیداری کاعملی اظہارہوگا۔
اب دیکھناہوگا کہ مودی کی ٹرمپ سے حالیہ فون کال،ایک چال ہے یاچالاکی؟مودی نے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کوسختی سے رد کر دیا ہے۔یہ گویاامریکاکوکشمیرکے مسئلے سے دور رکھنے کی ایک کوشش ہے۔فون کال میں اس بات پراصرارکہ وہ کسی تیسرے فریق کوپاک بھارت تنازعے میں شامل نہیں ہونے دیں گے،اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت امریکا کی ثالثی کو قبول نہیں کرناچاہتا۔یہ انکارٹرمپ کی سفارتی اہمیت کوزک پہنچاتاہے۔کیاٹرمپ کی خاموشی اس امرکی مظہرہے کہ وہ خودکو اب عالمی ثالث کے کردارسے پیچھے ہٹ جائیں اوردنیابھرمیں بار بار پاک بھارت جنگ میں سیزفائرکاکریڈٹ کے بیانئے کی سبکی قبول کرلیں گے؟کیاٹرمپ اس نظر اندازی کوبرداشت کریں گے؟یاپھراس کاکوئی بدلہ جنوبی ایشیائی سیاست میں تلاش کریں گے؟
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی امریکامیں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں،اورٹرمپ کے ساتھ خصوصی ظہرانہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔امریکی اعلیٰ حکام سے ملاقات اور پھرٹرمپ کے ساتھ خصوصی ظہرانہ،بظاہرتوسفارتی کارروائی لگتی ہے، مگراس کے بین السطورکچھ اورکہانی لکھی جارہی ہے۔ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے کردارکی تعریف،اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکی یہ اہم ملاقات کوئی ایسا خاموش معاہدہ ہے جہاں امریکاکو اب خطے میں خصوصاً افغانستان، چین،ایران اور بھارت کے تناظرمیں پاکستان کی ضرورت ہے اور اس بات کابھی اشارہ ہے کہ امریکاپاکستان کوخطے میں متوازن حکمتِ عملی میں اہم سمجھ رہاہے۔ٹرمپ کی تعریف سے ظاہرہے کہ پاکستان اپنی عسکری طاقت کے ساتھ سفارتی قدکوبھی اجاگر کرنے کی افسائش میں ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی کردارکی ستائش، ایک نئی صبح کی نویدبھی ہوسکتی ہے، بشرطیکہ پاکستان اس موقع کوسفارتی،عسکری اور اقتصادی سطح پردانشمندی سے بروئے کارلائے۔ یاد رہے کہ امریکاکی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ یہ وقت آنے پراپنے مفادات کے حصول کیلئے پاؤں پڑنے میں بھی اتنی ہی عجلت دکھاتے ہیں جتنایہ اپنے مفادات کے حصول کے بعد اپنے اسی اتحادی کو ایک لمحے میں قربان کردینے میں تاخیرنہیں کرتے۔پاکستان کواس کابارہاتلخ تجربہ ہے تاہم پاکستان کواس اہم نکتے کوضرورذہن نشین رکھنا ہوگا۔ تاہم بھارتی مودی کی امریکاکوثالثی سے روکنے کی حالیہ کوشش،ایک جانب ٹرمپ کی تضحیک بھی کرتی ہے اوردوسری جانب علاقائی بالادستی کاعندیہ بھی،وہی پرجوابی طورپرجنرل عاصم منیرکی واشنگٹن میں اعلی امریکی حکام اور ٹرمپ سے ملاقات اوربعد ازاں ظہرانہ میں شرکت، پاکستان کے کردارکوعالمی سیاست میں پھرسے اجاگرکررہی ہے۔
آج کی دنیاکسی عالمی جنگ کے دہانے پر نہیں بلکہ تہذیبوں کے تصادم کے مقام پرکھڑی ہے۔مغرب کے پاس بارودہے،مگرمشرق کے پاس بصیرت۔مغرب کے پاس فوجیں ہیں ، مگرمشرق کے پاس فلسفہ،اورتاریخ نے ہمیشہ فلسفے کو دوام بخشاہے،نہ کہ اسلحے کو۔ٹرمپ، نیتن یاہو، مودی جیسے کرداروقت کے نمائندے نہیں بلکہ وقت کے ردعمل ہیں۔اصل جنگ ان کے اور ہمارے درمیان نہیں،بلکہ انسان کی آزادی، وقار اور خودی کے بقاکی جنگ ہے۔اگرامت مسلمہ آج بیدارہوجائے،تویہ صدی اس کی ہوسکتی ہے ورنہ یہ تاریخ کے قبرستان میں ایک اور المناک صدمے کی شکل میں دفن کردی جائے گی۔
یہ دنیااب پرانی سیاسی حرکیات پرنہیں چل سکتی۔اب بیانیہ وہ جیتے گاجس کے پاس تاریخ کا شعور،تہذیب کاوقاراورفکرکی جولانی ہو۔ مغرب کی طاقتیں شایدہتھیاروں سے جیتنا چاہتی ہیں، مگر مشرق کے پاس ابھی بھی ایک چیزباقی ہے ، ایمان، جسے نہ دبایاجاسکتاہے،نہ خریداجاسکتاہے،اورنہ دھمکیوں سے جھکایاجاسکتاہے۔یہ دنیااب صرف بارود اور اعلانات کی بنیادپرآگے نہیں بڑھے گی۔ اس کامحوروہ تہذیبی ، دینی اورفکری قوت ہے جو صدیوں سے کمزور نہیں ہوتی ۔ ٹرمپ، مودی، نیتن یاہوجیسے فریق وقتی محورہیں، مگراصل جنگ اس فکری دنیاکی بقاکی ہے ۔ اگرامت مسلمہ آج اپناشعورجگا لے،اپنی وحدت میں استقامت سمولے اوراپنے تہذیبی وقارکی حفاظت کرے،تویہ صدی اس کی ہوسکتی ہے ورنہ یہ صدائے تاریخ کے اک ستم زدہ آرشیوکاحصہ بن کررہ جائے گی۔
یہ محض ٹرمپ اورخامنہ ای کااختلاف نہیں، بلکہ تہذیبوں،مفادات،عقائداورنظریات کی وہ کشمکش ہے جس کادائرہ کاراقوامِ متحدہ سے لے کرعرب صحرا،غزہ فلسطین اورکشمیرکی وادیوں تک پھیلاہواہے۔تہذیبوں کی اس جنگ میں مستقبل کے فیصلہ کیلئے اگرامتِ مسلمہ اس نازک موقع پر عصرِ نو کے تقاضوں کو سمجھ کر متحد ہو جائے، تو یہ صدی شاید اس کی بیداری کا دور بن جائے۔ ورنہ تاریخ اپنی گرد میں سب کچھ دفن کر دیتی ہے، جو خود کو پہچاننے سے قاصر ہو۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ کی خاموشی ٹرمپ کی ہے اور کے پاس اس بات

پڑھیں:

امن چاہتے ہیں لیکن کسی کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے، ایرانی صدر

تہران:

ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ تہران امن چاہتا ہے لیکن جوہری اور میزائل پروگرام ترک کرنے کے لیے زبردستی مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم انٹرنیشنل فریم ورک کے تحت مذاکرات کرنے کے خواہاں ہیں مگر اس شرط پر نہیں کہ وہ کہہ دیں کہ آپ کو جوہری سائنس رکھنے یا میزائلوں کے ذریعے خود کا دفاع کرنے کا حق نہیں ہے ورنہ ہم آپ پر بمباری کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دنیا میں امن اور استحکام چاہتے ہیں لیکن مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور  یہ بات قبول نہیں ہے کہ وہ جو چاہیں ہم پر مسلط کریں اور ہم اس پر عمل کریں۔

مسعود پزشکیان نے کہا کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں جبکہ ہمیں کہتے ہیں دفاع کے لیے میزائل نہیں رکھیں پھر وہ جب چاہیں ہمارے اوپر بم باری کرتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ایران پوچھ رہا تھا کہ کیا امریکی پابندیاں ختم کی جاسکتی ہیں۔

یاد رہے کہ ایران نے دفاعی صلاحیت بشمول میزائل پروگرام اور یورینیم کی افزودگی روکنے کے منصوبے پر مذاکرات ممکن نہیں ہے۔

ایران اور واشنگٹن رواں برس جون میں 12 روزہ ایران اور اسرائیل جنگ کے بعد جوہری مذاکرات کے 5 دور منعقد کیے حالانکہ امریکا اور اسرائیلی فورسز نے ایرانی جوہری تنصیبات پر بم باری کی تھی۔

اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ایران کا جوہری نظام اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے لیکن ایران کہتا ہے کہ اس کا جوہری میزائل امریکا، اسرائیل اور دیگر ممکنہ خطرات کے خلاف اہم دفاعی قوت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ
  • ایران میکسیکو میں اسرائیل کے سفیر کو قتل کرنے کی سازش کر رہا تھا، امریکا کا الزام
  • امن کے خواہاں ہیں، خودمختاری اور جوہری پروگرام پر سمجھوتا نہیں  ہوگا، ایرانی صدر
  • میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
  • کتنے شیریں ہیں ترے لب
  • امن چاہتے ہیں لیکن کسی کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے، ایرانی صدر
  • صاحبزادہ حامد رضا کی گرفتاری اور سزا ریاستی فسطائیت کی واضح مثال ہے، سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
  • ایران کیخلاف پابندیوں کے بارے ٹرمپ کا نیا دعوی
  • ایران پر اسرائیلی حملے کی "ذمہ داری" میرے پاس تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کی شیخی
  • اسرائیل مذاکرات کی نہیں بلکہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، حزب اللہ لبنان