ایران میں نظام کی تبدیلی نہیں چاہتا، یہ افراتفری کا باعث بنے گی، صدر ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابینہ کے اجلاس کے فوراً بعد اور نیٹو سمٹ کے لیے روانگی پر جہاز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ ایران میں نظام کی تبدیلی کے خواہش مند نہیں ہیں کیونکہ اس سے ’افراتفری‘ پیدا ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی تحریک مسترد، 128 ڈیموکریٹس ریپبلکنز کے ساتھ مل گئے
صدر ٹرمپ نے کہا کہ نہیں، میں ایسا نہیں چاہتا۔ میں چاہوں گا کہ سب جلدی سے پرسکون ہو جائے۔ نظام کی تبدیلی افراتفری لاتی ہے، اور بہتر ہوتا ہے کہ اتنی افراتفری نہ ہو۔ ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔
یہ بیان انہوں نے امریکی حملوں کے فوری بعد دیا، جن میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا، اور ٹرمپ نے دونوں ممالک ایران اور اسرائیل سے جنگ بندی پر زور دیا ۔
اس سے پہلے انہوں نے سماجی میڈیا پر ’ Make Iran Great Again ‘ کے نعرے کے ساتھ نظام کی تبدیلی کا حوالہ دیا تھا، لیکن اب انہوں نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ وہ نظام کی تبدیلی نہیں چاہتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ایران ٹرمپ نیٹو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ایران نیٹو نظام کی تبدیلی
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی حملے کی "ذمہ داری" میرے پاس تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کی شیخی
انتخابی مہم کے دوران خود کو "امن کا امیدوار" کے طور پر متعارف کروانے اور نئی جنگیں شروع کرنے سے گریز کا وعدہ دینے والے انتہاء پسند امریکی صدر نے شیخیاں بگھارتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ایران کیخلاف اسرائیلی ہوائی حملوں کی کمان "مَیں" نے کی! اسلام ٹائمز۔ انتہاء پسند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں شیخیاں بگھارتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ "مَیں" نے 12 روزہ جنگ میں ایران پر اسرائیلی حملے میں "بنیادی کردار" ادا کیا تھا۔ انتہاء پسند امریکی صدر نے دعوی کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل نے پہلے حملہ کیا تھا.. یہ حملہ بہت، بہت طاقتور تھا.. اور اس کی ذمہ داری "میرے پاس" تھی!
واضح رہے کہ ایران کے خلاف اسرائیل و امریکہ کی 12 روزہ جنگ کا آغاز 13 جون 2025ء کے روز اسرائیلی حملوں سے ہوا تھا جن میں متعدد ایرانی جوہری سائنسدانوں اور اعلی عسکری قیادت کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے چند گھنٹوں بعد ہی ایران نے تل ابیب، حیفا اور اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر 400 سے زائد بیلسٹک میزائل اور ڈرون طیارے فائر کرتے ہوئے بھرپور جواب دیا تھا۔ امریکہ نے جنگ کے پہلے روز سے ہی ایرانی میزائلوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے اسرائیل کا دفاع شروع کیا تاہم، جنگ کے 9ویں روز ہی "جنگ بندی" کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکہ و اسرائیل نے 3 ایرانی جوہری تنصیبات پر براہ راست بمباری بھی کی۔ بعد ازاں اس دعوے کے ساتھ کہ اس کے حملوں کے نتیجے میں ایرانی جوہری تنصیبات "مکمل طور پر تباہ" ہو گئی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا "یکطرفہ اعلان" کیا جسے ایران نے بھی قبول کر لیا۔
عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی میزائل حملوں میں قابض اسرائیلی رژہم کے وسیع جانی و مالی نقصانات اور اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے اسرائیلی دفاعی میزائلوں خصوصا امریکی تھاڈ (THAAD) میزائلوں کے ذخیرے کا خاتمہ بھی، نیتن یاہو اور ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے "اہم محرکات" میں سے ایک تھا۔