طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 25 June, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
انسانی تاریخ درحقیقت ایک طویل داستانِ تصادم و تسخیر ہے۔ انسانی وجود کے آغاز سے ہی، جب بقا کا انحصار شکار اور قبائل کے درمیان دفاع پر تھا، ہتھیاروں کی ایجاد اور ترقی تہذیبوں کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ جرمنی میں دریافت ہونے والے تقریباً چار لاکھ سال پرانے لکڑی کے بھالوں سے لے کر، انسان نے ہتھیاروں کو بتدریج زیادہ مہلک، دقیق اور سیاسی اثر رکھنے والے اوزاروں میں تبدیل کیا۔
جوں جوں تاریخ کا دھارا بدلتا گیا اور انسان نے قدرتی عناصر پر قابو پانا سیکھ لیا، اسی طرح اس کے ہتھیار بھی ترقی کرتے گئے۔ لوہے کا دور، جو تقریباً 1200 قبل مسیح میں شروع ہوا، ایسے سخت دھاتوں سے بنے ہوئے تلواروں اور اوزاروں کا آغاز تھا جنہوں نے قدیم سلطنتوں کی عسکری قوت کی بنیاد رکھی۔ آشوری قوم اپنے رتھوں اور تلواروں کے لیے، جبکہ کیلٹ قوم اپنے شاندار دھاتی ہنر کے لیے مشہور تھی — یہ دونوں اس دور کی طاقت اور مہارت کی زندہ مثالیں ہیں۔ ان ہتھیاروں کے ذریعے جنگیں محض دفاع کے لیے نہیں بلکہ تسلط اور حکمرانی کے لیے بھی لڑی جانے لگیں۔
تاہم مشرق میں، نویں صدی کو چین میں، اگلا انقلاب برپا ہوا — بارود کی دریافت۔ ابتدا میں اسے آتشبازی اور مذہبی تقریبات میں استعمال کیا گیا، مگر جلد ہی اس کے جنگی استعمالات بھی دریافت ہو گئے۔ چودھویں صدی تک بارود کا علم یورپ تک پہنچ چکا تھا، جہاں اس نے بندوقوں، توپوں اور دیگر بھاری اسلحہ کے دور کا آغاز کیا۔ میدانِ جنگ یکسر بدل گیا، اور فاصلے اور تباہی کے تصورات بھی۔ جنگ اب تلواروں اور ڈھالوں کا ذاتی معاملہ نہ رہی — یہ ایک مشینی اور غیر شخصی قوت بن چکی تھی۔
اس تکنیکی سفر کی معراج بیسویں صدی میں، دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں کے دوران، سامنے آئی۔ یہی وہ وقت تھا جب سائنس، انسانی خواہش اور خوف باہم یکجا ہوئے اور انسان نے تاریخ کا سب سے ہولناک ہتھیار ایجاد کیا — ایٹم بم۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایک خفیہ منصوبے “مین ہیٹن پراجیکٹ” کے تحت 16 جولائی 1945 کو نیو میکسیکو کے صحرا میں دنیا کا پہلا جوہری تجربہ کامیابی سے کیا۔ اس تجربے کو “ٹرینیٹی” کا نام دیا گیا تھا، اور اس کے فوراً بعد ہی ہیروشیما اور ناگاساکی پر تباہ کن بم گرائے گئے۔ یہ شہر مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے، لاکھوں افراد لقمۂ اجل بنے، اور دنیا نے پہلی بار ایٹمی قوت کی ہولناک تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
دوسری عالمی جنگ تو ختم ہو گئی، لیکن ایک نیا اور نہایت خطرناک دور شروع ہوا — جسے “سرد جنگ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سوویت یونین نے، پیچھے نہ رہنے کے عزم کے تحت، 29 اگست 1949 کو قازقستان کے میدانوں میں اپنا پہلا جوہری تجربہ “آر ڈی ایس-1” کے نام سے کیا۔ یوں دو عالمی طاقتوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز ہوا، جہاں ہر ایک نے دوسرے کو صرف حریف نہیں بلکہ اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کیا۔ خوف کے اس نازک لیکن مؤثر توازن نے عالمی سیاست کی سمت کئی دہائیوں تک متعین کیے رکھی۔
دیگر اقوام نے بھی اسی روش کو اپنایا۔ برطانیہ نے 1952 میں اپنا پہلا ایٹمی ہتھیار تجرباتی طور پر استعمال کیا، لیکن یہ تجربہ اس کے اپنے ملک میں نہیں بلکہ آسٹریلیا کے دور افتادہ ساحلی علاقے میں کیا گیا۔ فرانس نے سویز بحران کے بعد اپنی خودمختاری کا اظہار کرتے ہوئے 1960 میں الجزائر میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا۔ چین، جو اس وقت سوویت یونین اور امریکہ دونوں کی طرف سے تنہائی اور دباؤ کا شکار تھا، نے 1964 میں لوپ نور کے مقام پر اپنی ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ان تمام طاقتوں نے اپنے اقدامات کو سلامتی، خودمختاری یا تزویراتی برابری کے نام پر جائز قرار دیا۔
بھارت نے 1974 میں اپنے نام نہاد “پرامن ایٹمی دھماکے” — اسمایلنگ بدھا تجربے — کے ساتھ ایٹمی طاقتوں کے کلب میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم 1998 تک اس کے کسی بھی پرامن ارادے کا پردہ چاک ہو چکا تھا، جب اس نے زیرِ زمین کئی ایٹمی تجربات کیے جو واضح طور پر مکمل ہتھیار بندی کی نشاندہی کرتے تھے۔ پاکستان، جو اس وقت شدید سفارتی دباؤ اور جغرافیائی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہا تھا، نے فوری اور فیصلہ کن ردِ عمل دیا۔ 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے چاغی کے پہاڑوں میں پاکستان نے اپنے ایٹمی تجربات کیے — اور یوں باقاعدہ ایٹمی طاقتوں کے اس مخصوص گروہ میں شمولیت اختیار کی۔
پاکستان کا یہ اقدام اشتعال انگیزی نہیں بلکہ مجبوری تھا۔ یہ جارحیت کا نہیں بلکہ دفاع کا پیغام تھا۔ بطور واحد اسلامی ملک جس نے باقاعدہ طور پر اپنی ایٹمی صلاحیت کا اعلان کیا اور اس کا مظاہرہ کیا، پاکستان نے یہ قدم نہایت سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اٹھایا، علاقائی طاقت کے توازن اور اپنے حقِ خود دفاع کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے۔
دیگر اقوام نے مختلف راستے اختیار کیے۔ شمالی کوریا نے، جو کہ مزاحمتی اور تنہائی کا شکار ملک ہے، 2006 میں اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا اور تب سے اپنی ایٹمی صلاحیت کو سفارتی دباؤ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا آ رہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل ایک جان بوجھ کر مبہم پالیسی پر عمل پیرا ہے، جو نہ تو ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی اس کی تردید، اگرچہ یہ وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ بیسویں صدی کے آخر سے ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے۔
تاہم جو بات واقعی باعثِ تشویش ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا ایٹمی عزائم کے حوالے سے جس انداز میں ردعمل ظاہر کرتی ہے، اُس میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ کوئی بھی ریاست جو ایک بار ایٹمی حد پار کر لے، اسے زبردستی ایٹمی ہتھیاروں سے محروم نہیں کیا گیا۔ بعض پر پابندیاں لگائی گئیں، کچھ کو سفارتی طور پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی، مگر سب نے اپنے ایٹمی ہتھیار برقرار رکھے۔ سوائے، بظاہر، ایران کے۔
اسرائیل، بھارت یا حتیٰ کہ شمالی کوریا کے برعکس، ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کرنے والا ملک ہے، اور بارہا یہ اعلان کر چکا ہے کہ اس کے جوہری عزائم محض پُرامن مقاصد کے لیے ہیں۔ اس کے باوجود، اسے برسوں سے معاشی پابندیوں، سائبر تخریب کاری، سفارتی تنہائی اور کھلی فوجی کارروائی کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی، ایران کے جوہری پروگرام کو برابری اور سفارت کاری کے اصولوں کے تحت نہیں بلکہ بدگمانی اور دشمنی کے رویے سے دیکھتے آئے ہیں۔
یہی وہ تضاد ہے جو بین الاقوامی قانون اور انصاف کے پورے ڈھانچے کو کمزور کرتا ہے۔ آخر کیوں بھارت کی ایٹمی کوششوں کو قبول کیا جاتا ہے، اور اسرائیل کے رازدارانہ رویے کو برداشت کیا جاتا ہے — مگر ایران کو سزا دینے کے لیے الگ سے نشانہ بنایا جاتا ہے؟
یہ واضح دوہرا معیار نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ یہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ایٹمی نظام کو اصول نہیں بلکہ طاقت چلاتی ہے۔ کہ اتحاد، نہ کہ معاہدوں کی پاسداری، کسی ریاست کی قانونی حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔
تاریخ شاید ایک دن صرف اُن لوگوں کا محاسبہ نہ کرے جنہوں نے ایٹم بم بنایا، بلکہ اُن کا بھی جو یہ طے کرتے رہے کہ کس کو یہ رکھنے کی اجازت ہے اور کس کو نہیں۔ جب تک دنیا اپنے معیار کو انصاف کے ساتھ لاگو نہیں کرتی، ایک منصف اور پُرامن عالمی نظام کا خواب — ایٹمی دھوئیں کے بادل کی طرح — انسانیت کے ضمیر پر ایک سایہ بنا رہے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کا دورہ چین، سکیورٹی تعاون بڑھانے پر اتفاق میزانیہ اور زائچہ مصنف فرمان علی چوہدری عجمی سوشل میڈیا کا عروج اور معاشرتی زوال جھوٹے دیو قامتوں کا زوال بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلیمی تعاون کی نئی راہیں ہرمز: جہاں ایران کی بندوق، تیل کی نالی پر رکھی جا سکتی ہےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے
ویسے تو اس وقت پوری دنیا پر ہی جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ روس یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل حماس جنگ، حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں، ہرچند کہ ان کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے اور موجودہ پاک افغان تنازعہ کہ جس میں روزانہ ہی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
اب اگر اس میں معاشی جنگ کو بھی شامل کر لیا جائے جو امریکا کی چین اور تقریباً پوری دنیا سے جاری ہے۔ اس وقت تو ان کی معاشی جنگ ان کے قریب ترین پڑوسی کینیڈا سے بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔
تقریباً ہر روز ہی اس فہرست میں کوئی نہ کوئی تبدیلی ضرور ہوتی رہتی ہے، اس صورتحال میں یہ بات یقینی طور پرکہی جاسکتی ہے کہ دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔
ہر جنگ کا آغاز اور اختتام معاشیات پر ہی ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی کہانی کیوں نہ گھڑی گئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگیں وسائل کے لوٹ کھسوٹ اور بٹوارے کے لیے ہوتی ہے تاکہ اپنے اپنے ملک کو معاشی فائدہ پہنچایا جاسکے۔
امریکا کی تو پوری معیشت کی بنیاد ہی جنگ پر ہے، بس فرق اتنا ہے جنگ دیگر ممالک میں ہوں اور داخلی طور پر راوی چین چین ہی لکھے حالانکہ امریکا چین کو بالکل پسند نہیں کرتا بلکہ اب تو وہ چین کے ساتھ معاشی جنگ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ عسکری جنگ کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کیسنجر ویسے ہی یہ بات اپنی زندگی میں کہہ چکے ہیں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ جنگ مسلمانوں کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوگی اور ان کے خیال کے مطابق اس کا آغاز ایران سے ہوگا۔
اسرائیل زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر کے مشرق وسطیٰ کے ایک وسیع و عریض رقبے پر قابض ہوجائے گا۔ ان کے کہنے کے مطابق مشرق وسطی میں تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بج چکا ہے اور جو اسے سن نہیں رہے وہ یقیناً بہرے ہیں۔
یہ خیال رہے کہ ہینری کیسنجر ایک کٹر یہودی تھا اسی لیے انھوں نے اسرائیل اور امریکا کے جنگ جیتنے کی بھی پیش گوئی کی تھی۔ ہم ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی بہت سی باتیں درست بھی ثابت ہوئی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تو طے ہوگیا تھا کہ اب اگلی عالمی جنگ یورپ میں نہیں لڑی جائے گی۔ عام خیال یہ تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطیٰ میں لڑی جائے گی لیکن عرب ممالک کی حکمت عملی اور عالمی ساہوکار کی مشرق وسطی میں سرمایہ کاری نے اس جنگ کو مشکل اور مہنگا کردیا ہے۔
اس لیے اس صورتحال میں قوی امکان ہے کہ اس کا آغاز جنوب مشرقی ایشیا سے کیا جائے، اس لیے اب ہم اپنے خطے کی جانب آتے ہیں۔ہماری حکومت نے اب باضابطہ طور پر اس بات کا اقرارکر لیا ہے کہ استنبول سے اچھی اور امید افزا خبریں نہیں آرہی ہے۔
ہرچند کے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے مگر طالبان بار بار اپنے موقف کو تبدیل کررہے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ جہاں سے ان کی ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں، وہاں سے یہی احکامات آرہے ہیں۔
طالبان حکومت دہشتگردی کے خاتمے میں سنجیدہ کوششوں سے دامن چھڑا رہی ہے اور اب یہ راستہ تصادم کی طرف جارہا ہے جو کہ خطے کے حق میں نہیں ہے۔ماضی میں بھی ان مذاکرات کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔ ہمارے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر افغانستان سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر کھلی جنگ ہوگی۔
ہندوستان کی پوری کوشش ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور وہ اس پر ہر طرح کی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور یہ بات ہمارے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے۔ ہندوستان ابھی تک اپنی شکست پر تلملا رہا ہے اور اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔
ہندوستان نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کی بڑی مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے نوٹم (NOTAM Notice to Air Missions) جاری کیا اور یہ مشقیں 30 اکتوبر سے 10 نومبر 2025 تک پاکستان کی سرحد کے قریب ہونا طے پایا۔
اس وقت یہ مشقیں جاری ہیں۔ ہندوستان کب ان مشقوں کو حقیقت میں آزمائے گا، یہ کسی کو نہیں پتہ لیکن آزمائے گا ضرور، یہ بات حتمی ہے اور ان کا وزیر اعظم اور فوجی سربراہ دونوں اس کی کھلی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک نے وسائل کی طلب اور رسد کے عدم توازن کو ٹھیک کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ توازن دنیا کی آبادی کو کم کرکے ہی بہتر کیا جاسکے گا۔ اب آبادی کہاں زیادہ ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ مغربی ممالک تو ویسے بھی آبادی کے معاملے میں منفی نمو کا شکار ہے۔ آنیوالا وقت غیر یقینی ہی نہیں بلکہ مشکل بھی ہوگا۔