Daily Sub News:
2025-06-25@11:14:14 GMT

طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟

طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 25 June, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

انسانی تاریخ درحقیقت ایک طویل داستانِ تصادم و تسخیر ہے۔ انسانی وجود کے آغاز سے ہی، جب بقا کا انحصار شکار اور قبائل کے درمیان دفاع پر تھا، ہتھیاروں کی ایجاد اور ترقی تہذیبوں کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ جرمنی میں دریافت ہونے والے تقریباً چار لاکھ سال پرانے لکڑی کے بھالوں سے لے کر، انسان نے ہتھیاروں کو بتدریج زیادہ مہلک، دقیق اور سیاسی اثر رکھنے والے اوزاروں میں تبدیل کیا۔

جوں جوں تاریخ کا دھارا بدلتا گیا اور انسان نے قدرتی عناصر پر قابو پانا سیکھ لیا، اسی طرح اس کے ہتھیار بھی ترقی کرتے گئے۔ لوہے کا دور، جو تقریباً 1200 قبل مسیح میں شروع ہوا، ایسے سخت دھاتوں سے بنے ہوئے تلواروں اور اوزاروں کا آغاز تھا جنہوں نے قدیم سلطنتوں کی عسکری قوت کی بنیاد رکھی۔ آشوری قوم اپنے رتھوں اور تلواروں کے لیے، جبکہ کیلٹ قوم اپنے شاندار دھاتی ہنر کے لیے مشہور تھی — یہ دونوں اس دور کی طاقت اور مہارت کی زندہ مثالیں ہیں۔ ان ہتھیاروں کے ذریعے جنگیں محض دفاع کے لیے نہیں بلکہ تسلط اور حکمرانی کے لیے بھی لڑی جانے لگیں۔

تاہم مشرق میں، نویں صدی کو چین میں، اگلا انقلاب برپا ہوا — بارود کی دریافت۔ ابتدا میں اسے آتشبازی اور مذہبی تقریبات میں استعمال کیا گیا، مگر جلد ہی اس کے جنگی استعمالات بھی دریافت ہو گئے۔ چودھویں صدی تک بارود کا علم یورپ تک پہنچ چکا تھا، جہاں اس نے بندوقوں، توپوں اور دیگر بھاری اسلحہ کے دور کا آغاز کیا۔ میدانِ جنگ یکسر بدل گیا، اور فاصلے اور تباہی کے تصورات بھی۔ جنگ اب تلواروں اور ڈھالوں کا ذاتی معاملہ نہ رہی — یہ ایک مشینی اور غیر شخصی قوت بن چکی تھی۔

اس تکنیکی سفر کی معراج بیسویں صدی میں، دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں کے دوران، سامنے آئی۔ یہی وہ وقت تھا جب سائنس، انسانی خواہش اور خوف باہم یکجا ہوئے اور انسان نے تاریخ کا سب سے ہولناک ہتھیار ایجاد کیا — ایٹم بم۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایک خفیہ منصوبے “مین ہیٹن پراجیکٹ” کے تحت 16 جولائی 1945 کو نیو میکسیکو کے صحرا میں دنیا کا پہلا جوہری تجربہ کامیابی سے کیا۔ اس تجربے کو “ٹرینیٹی” کا نام دیا گیا تھا، اور اس کے فوراً بعد ہی ہیروشیما اور ناگاساکی پر تباہ کن بم گرائے گئے۔ یہ شہر مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے، لاکھوں افراد لقمۂ اجل بنے، اور دنیا نے پہلی بار ایٹمی قوت کی ہولناک تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

دوسری عالمی جنگ تو ختم ہو گئی، لیکن ایک نیا اور نہایت خطرناک دور شروع ہوا — جسے “سرد جنگ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سوویت یونین نے، پیچھے نہ رہنے کے عزم کے تحت، 29 اگست 1949 کو قازقستان کے میدانوں میں اپنا پہلا جوہری تجربہ “آر ڈی ایس-1” کے نام سے کیا۔ یوں دو عالمی طاقتوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز ہوا، جہاں ہر ایک نے دوسرے کو صرف حریف نہیں بلکہ اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کیا۔ خوف کے اس نازک لیکن مؤثر توازن نے عالمی سیاست کی سمت کئی دہائیوں تک متعین کیے رکھی۔

دیگر اقوام نے بھی اسی روش کو اپنایا۔ برطانیہ نے 1952 میں اپنا پہلا ایٹمی ہتھیار تجرباتی طور پر استعمال کیا، لیکن یہ تجربہ اس کے اپنے ملک میں نہیں بلکہ آسٹریلیا کے دور افتادہ ساحلی علاقے میں کیا گیا۔ فرانس نے سویز بحران کے بعد اپنی خودمختاری کا اظہار کرتے ہوئے 1960 میں الجزائر میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا۔ چین، جو اس وقت سوویت یونین اور امریکہ دونوں کی طرف سے تنہائی اور دباؤ کا شکار تھا، نے 1964 میں لوپ نور کے مقام پر اپنی ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ان تمام طاقتوں نے اپنے اقدامات کو سلامتی، خودمختاری یا تزویراتی برابری کے نام پر جائز قرار دیا۔

بھارت نے 1974 میں اپنے نام نہاد “پرامن ایٹمی دھماکے” — اسمایلنگ بدھا تجربے — کے ساتھ ایٹمی طاقتوں کے کلب میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم 1998 تک اس کے کسی بھی پرامن ارادے کا پردہ چاک ہو چکا تھا، جب اس نے زیرِ زمین کئی ایٹمی تجربات کیے جو واضح طور پر مکمل ہتھیار بندی کی نشاندہی کرتے تھے۔ پاکستان، جو اس وقت شدید سفارتی دباؤ اور جغرافیائی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہا تھا، نے فوری اور فیصلہ کن ردِ عمل دیا۔ 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے چاغی کے پہاڑوں میں پاکستان نے اپنے ایٹمی تجربات کیے — اور یوں باقاعدہ ایٹمی طاقتوں کے اس مخصوص گروہ میں شمولیت اختیار کی۔

پاکستان کا یہ اقدام اشتعال انگیزی نہیں بلکہ مجبوری تھا۔ یہ جارحیت کا نہیں بلکہ دفاع کا پیغام تھا۔ بطور واحد اسلامی ملک جس نے باقاعدہ طور پر اپنی ایٹمی صلاحیت کا اعلان کیا اور اس کا مظاہرہ کیا، پاکستان نے یہ قدم نہایت سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اٹھایا، علاقائی طاقت کے توازن اور اپنے حقِ خود دفاع کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے۔

دیگر اقوام نے مختلف راستے اختیار کیے۔ شمالی کوریا نے، جو کہ مزاحمتی اور تنہائی کا شکار ملک ہے، 2006 میں اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا اور تب سے اپنی ایٹمی صلاحیت کو سفارتی دباؤ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا آ رہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل ایک جان بوجھ کر مبہم پالیسی پر عمل پیرا ہے، جو نہ تو ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی اس کی تردید، اگرچہ یہ وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ بیسویں صدی کے آخر سے ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے۔

تاہم جو بات واقعی باعثِ تشویش ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا ایٹمی عزائم کے حوالے سے جس انداز میں ردعمل ظاہر کرتی ہے، اُس میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ کوئی بھی ریاست جو ایک بار ایٹمی حد پار کر لے، اسے زبردستی ایٹمی ہتھیاروں سے محروم نہیں کیا گیا۔ بعض پر پابندیاں لگائی گئیں، کچھ کو سفارتی طور پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی، مگر سب نے اپنے ایٹمی ہتھیار برقرار رکھے۔ سوائے، بظاہر، ایران کے۔

اسرائیل، بھارت یا حتیٰ کہ شمالی کوریا کے برعکس، ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کرنے والا ملک ہے، اور بارہا یہ اعلان کر چکا ہے کہ اس کے جوہری عزائم محض پُرامن مقاصد کے لیے ہیں۔ اس کے باوجود، اسے برسوں سے معاشی پابندیوں، سائبر تخریب کاری، سفارتی تنہائی اور کھلی فوجی کارروائی کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی، ایران کے جوہری پروگرام کو برابری اور سفارت کاری کے اصولوں کے تحت نہیں بلکہ بدگمانی اور دشمنی کے رویے سے دیکھتے آئے ہیں۔

یہی وہ تضاد ہے جو بین الاقوامی قانون اور انصاف کے پورے ڈھانچے کو کمزور کرتا ہے۔ آخر کیوں بھارت کی ایٹمی کوششوں کو قبول کیا جاتا ہے، اور اسرائیل کے رازدارانہ رویے کو برداشت کیا جاتا ہے — مگر ایران کو سزا دینے کے لیے الگ سے نشانہ بنایا جاتا ہے؟

یہ واضح دوہرا معیار نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ یہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ایٹمی نظام کو اصول نہیں بلکہ طاقت چلاتی ہے۔ کہ اتحاد، نہ کہ معاہدوں کی پاسداری، کسی ریاست کی قانونی حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔

تاریخ شاید ایک دن صرف اُن لوگوں کا محاسبہ نہ کرے جنہوں نے ایٹم بم بنایا، بلکہ اُن کا بھی جو یہ طے کرتے رہے کہ کس کو یہ رکھنے کی اجازت ہے اور کس کو نہیں۔ جب تک دنیا اپنے معیار کو انصاف کے ساتھ لاگو نہیں کرتی، ایک منصف اور پُرامن عالمی نظام کا خواب — ایٹمی دھوئیں کے بادل کی طرح — انسانیت کے ضمیر پر ایک سایہ بنا رہے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کا دورہ چین، سکیورٹی تعاون بڑھانے پر اتفاق میزانیہ اور زائچہ مصنف فرمان علی چوہدری عجمی سوشل میڈیا کا عروج اور معاشرتی زوال جھوٹے دیو قامتوں کا زوال بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلیمی تعاون کی نئی راہیں ہرمز: جہاں ایران کی بندوق، تیل کی نالی پر رکھی جا سکتی ہے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ

اسلام ٹائمز: ایرانی ماوں نے ایسے جرنیل جنم ہی نہیں دیئے کہ جو کسی ظالم کی خوشامد کرکے کوئی مقام و منصب پانا چاہیں۔ نہ ہی تو ایران کے رہبرِ اعلیٰ کو شہید کیا جا سکا، نہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہوا، نہ حکومت کا تختہ اُلٹا جا سکا، نہ کوئی عوامی بغاوت ہوئی، نہ ایران کی اعلیٰ انقلابی قیادت سرنگوں ہوئی، نہ ایران نے کسی حملے کا جواب قضا کیا، نہ ایران نے سیز فائر کی بھیک مانگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران نے میدان جنگ میں بھی اعلیٰ اخلاقی، سفارتی اور اسلامی اصولوں کی پاسداری کرکے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریت کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا۔ بات صرف یہ نہیں کہ ایران نے ایک نام نہاد سُپر طاقت اور اس کے حلیفوں کو شکستِ فاش دی ہے بلکہ بات تو یہ ہے کہ ایران نے عملاً ایک مرتبہ پھر ساری دنیا سے یہ تسلیم کروا لیا ہے کہ "سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الّا اللہ۔" تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ایک پروفیسر صاحب کو پہلی مرتبہ کسی گاوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں انہوں نے ایک باغ کو دیکھا اور اُس کے مالک سے ملے۔ انہوں نے باغ کے مالک سے پوچھا کہ کہیں گاوں کے لوگ آپ کے پھل وغیرہ تو چوری کرکے نہیں لے جاتے۔؟ مالک نے کہا کہ نہیں ہرگز نہیں، یہاں کے لوگ تو بہت ایماندار اور نیک ہیں۔ اس پر محترم پروفیسر صاحب نے تعجب سے مالک کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ پھر تم نے اپنے کاندھوں پر بندوق کیوں اٹھائی ہوئی ہے۔؟ باغ کے مالک نے برجستہ جواب دیا کہ یہ بندوق گاوں والوں کو ایماندار اور نیک رکھنے کیلئے ہی ہے۔ ایران کے میزائل اور ڈرونز بھی امریکہ و اسرائیل جیسوں کو صلح پسند اور امن پسند رکھنے کیلئے ہی ہیں۔ یقین مانیں کہ اگر اسرائیل کی مانند امریکہ کو بھی ایران کا فوری اور مساوی جواب نہ ملتا تو یہ جنگ بندی ممکن ہی نہ تھی۔

بارہ دن تک ایران پر براہِ راست بم برسائے گئے، لیکن رجیم چینج نہیں ہوئی جبکہ ہمارے ہاں ایک سائفر کا تعویز اپنا کام دکھا گیا تھا۔ ایران پر امریکہ کا حملہ، یہ درحقیقت ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ اس کے ردِّعمل کو دیکھ کر ہی ٹر ٹر نے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ اسلامی فورس کی طرف سے امریکہ کو طاقت کی زبان میں جواب دینے اور اس کے فوراً بعد ٹر ٹر کے صلح کے دعووں نے ساری دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ امن کے ساتھ جینے کیلئے طاقتور ہونا ضروری ہے۔ کہیں پر بھی امن نرم دل، روتی ہوئی آنکھوں اور آہ و بکا کے بجائے طاقتور بازووں کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ اگر آپ کے بازووں میں طاقت نہیں تو آپ کو آزادی، مساوات اور انصاف کی قربانی دے کر امن حاصل کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ملت ایران نے آزادی، مساوات اور انصاف کو  قربان کرنے کے بجائے اپنے طاقتور بازووں سے کام لیا اور خوب ڈٹ کر یہ کام لیا۔

ٹرٹر، جو ابھی چند دن پہلے ایران پر حملے کا حکم دے چکا تھا، اب خود کو ثالث کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اسے امریکی و مغربی سماج کے اخلاقی دیوالیہ پن اور اخلاقی تضاد کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جب کسی ریاست کا سربراہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہے تو ایسے میں صلح و امن کا نام لے کر فراڈ کرنا ہی طاقتور کے بیانیے کی بنیاد ہوتا ہے۔ ٹرٹر کی "جنگ بندی" کا اعلان دراصل ایک جنگی چال ہے، جس کا مقصد ایران کو حملہ آور دکھانا اور خود کو صلح جو، منصف اور غیر جانبدار ثابت کرنا ہے۔ ایرانی قوم کو آٹھ سالہ جنگ کا تجربہ ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جارحیّت سے زیادہ خطرناک وہ صلح ہے، جو جارح کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کا ہر باشعور شخص ٹرٹر سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جب تم خود حملہ آور ہو تو پھر تم ثالث اور منصف کہاں سے بن بیٹھے۔؟

ایران نے جس انداز میں عراق و قطر میں امریکی اڈوں پر جوابی کارروائی کی، وہ محض عسکری جواب نہیں تھا بلکہ دنیا کے سوچنے کے انداز کو اُلٹ کر رکھ دینے کی ایک فکری کاوش تھی۔ بڑے بڑے دانشور بوکھلا کر کہہ رہے تھے کہ اب تو ایران کیلئے کئی محاذ کھل جائیں گے، اب تو ایران کو بڑی سخت سزا ملے گی، وغیرہ وغیرہ، لیکن ایرانیوں نے امریکہ کو جواب دے کر یہ منوا لیا کہ تاریخ وہ بازار ہے کہ جہاں قومیں اپنی عزّت و آزادی کے تحفظ کے لیے ہر قیمت ادا کرتی ہیں۔ ایران نے دشمن کے مقابلے میں اپنی قومی عزت و وقار کا تحفظ عمل سے کیا، نہ کہ الفاظ سے۔ ٹرٹر صلح اور امن کے بھاشن دے کر  چاہتا یہ ہے کہ کسی طرح اپنی شرمندگی کو چھپائے۔ گویا بدترین شکست کے بعد  فتح کا جھنڈا بھی وہی لہرائے۔

ایسے بے حیا کرداروں کے نزدیک انسانیت، انسانوں کی آزادی و خود مختاری اور انسانی اقدار نام کی کوئی شئے نہیں۔ انہیں صرف اس سے غرض ہے کہ اب اگر ایران جنگ بندی کی  اس "پیشکش" کو مسترد کر دے تو اسے مزید جارحیت کا جواز بنایا جائے۔ امریکہ کے پاس ایران کیلئے تو بہت سارے ایٹم بم ہیں، لیکن فلسطین و غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے کوئی علاج نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوا کے بغیر طبیب علاج کی بات کرے، تو وہ علاج نہیں کر رہا ہوتا بلکہ مرض کو لاعلاج بنا رہا ہوتا ہے۔ ٹرٹر دراصل اسرائیل کے پھوڑے کو ایک لا علاج ناسور میں تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ یہ بھی امریکہ، اسرائیل اور فرانس وغیرہ کی بڑی ناکامی ہے کہ وہ  تجزیہ نگاروں، میڈیا ہاوسز، سوشل نیٹ ورکس، مختلف تھنک ٹینکس پر اربوں روپیہ خرچ کرکے بھی ایرانی قوم کی داخلی وحدت کو نقصان نہیں پہچا سکے۔

اس جنگ نے داخلی اور خارجی دونوں لحاظ سے ایران کو جتنا مضبوط کیا ہے، ایران اس سے پہلے کبھی اتنا مضبوط نہیں تھا۔ ایرن نے اپنی صفوں میں چھپے ہوئے منافقین اور غدّاروں کے کئی نیٹ ورکس پکڑے ہیں، جو کہ ایران کیلئے خدا کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ایران نے صرف میزائلوں اور ڈرونز کی جنگ میں ٹرٹر اور کفرائیل کو مات نہیں دی، بلکہ بیانیے، شعور اور اندرونی و بیرونی رائے عامہ کے میدان میں بھی اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کر دئیے ہیں۔ ایرانی جرنیلوں نے اپنی تدابیر اور فہم و فراست سے ساری دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا کردار خود تراشتے اور طے کرتے ہیں، نہ کہ بڑی طاقتوں کے لکھے ہوئے کسی اسکرپٹ میں وہ کسی فنکار کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔

ٹرٹر کی صلح کے اعلان میں امن کی روح نہیں، بلکہ طاقت کے جبر کی چالاکی ہے۔ یہ ایسا امن ہے کہ جس کے نیچے طاقت کی تلوار چھپی ہوئی ہے، جبکہ دوسری طرف ایسے جبر و مکر کے مقابلے میں ایران کی مقاومت و مزاحمت ہے، جو آزادی اور برابری کے اصولوں پر کھڑی ہے۔ ایرانی ماوں نے ایسے جرنیل جنم ہی نہیں دیئے کہ جو کسی ظالم کی خوشامد کرکے کوئی مقام و منصب پانا چاہیں۔ نہ ہی تو ایران کے رہبرِ اعلیٰ کو شہید کیا جا سکا، نہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہوا، نہ حکومت کا تختہ اُلٹا جا سکا، نہ کوئی عوامی بغاوت ہوئی، نہ ایران کی اعلیٰ انقلابی قیادت سرنگوں ہوئی، نہ ایران نے کسی حملے کا جواب قضا کیا، نہ ایران نے سیز فائر کی بھیک مانگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران نے میدان جنگ میں بھی اعلیٰ اخلاقی، سفارتی اور اسلامی اصولوں کی پاسداری کرکے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریت کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیا۔ بات صرف یہ نہیں کہ ایران نے ایک نام نہاد سُپر طاقت اور اس کے حلیفوں کو شکستِ فاش دی ہے بلکہ بات تو یہ ہے کہ ایران نے عملاً ایک مرتبہ پھر ساری دنیا سے یہ تسلیم کروا لیا ہے کہ "سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الّا اللہ۔"

متعلقہ مضامین

  • نقشے کی ایک لکیر نے دنیا کا راستہ موڑ دیا
  • ایران، اسرائیل تنازع: سچائی کے خلاف جھوٹ کی یلغار
  • سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ
  • جنگ بندی، مسلط کردہ امن نہیں بلکہ طاقت کے بدلتے توازن کی علامت
  • کیا اگلاہدف۔۔۔۔پاکستان؟
  • رجیم چینج کے سائے: پاکستان کی مغربی سرحد پر بڑھتا ہوا خطرہ
  • جھوٹے دیو قامتوں کا زوال
  • آپریشن مڈنائٹ ہیمر کا ہدف ایٹمی اثاثے تھے، ایران نےحملہ کیا تو بھرپور طاقت سے جواب دیں گے، امریکا
  • ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کردیا،،تہران نے حملہ کیا تو بھرپور طاقت سے جواب دینگے، امریکا