مسئلہ کشمیر پر صدر ٹرمپ کی ثالثی!
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
متین فکری
جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے حالیہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حق خودارادی کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے ہٹ کر ثالثی کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ کشمیری عوام اور خود پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہوگی۔ مجلس شوریٰ کو یہ قرار داد منظور کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ کے بعد کشمیر کا مسئلہ خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اُٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ دونوں ملکوں کو سیز فائر کے بعد مذاکرات کی میز پر لائیں گے اور کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کرائیں گے۔ ان کی ثالثی کس نوعیت کیا ہوگی، ابھی واضح نہیں ہے۔ ایران اور اسرائیل کی موجودہ جنگ نے حالات کا رُخ ہی بدل دیا ہے۔ اب نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کب ہوں گے اور دونوں ملکوں کے درمیان پانی، دہشت گردی اور کشمیر سمیت دیرینہ تنازعات طے کرنے میں کیا پیش رفت ممکن ہوسکے گی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کو آج نہیں تو کل مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔
پاکستانی قیادت کے نزدیک بھارت سے تین تصفیہ طلب مسائل کا حل ناگزیر ہے، ان کے بغیر نہ خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ دونوں ملک چین سے رہ سکتے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ کشمیرکا ہے، اگرچہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کو یکطرفہ طور پر بھارتی یونین میں ضم کرکے اپنی دانست میں مسئلہ کشمیر کو مستقل طور پر حل کرلیا تھا لیکن زمینی حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے، نہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت کے یکطرفہ غیر قانونی اقدام کے مقابلے میں حق خودارادیت پر مبنی اپنی قرار دادیں واپس لی ہیں نہ کسی پہلو سے بھی بھارتی کارروائی کو جائز قرار دیا ہے۔ یعنی بھارت کی ہٹ دھرمی کے باوجود مسئلہ کشمیر پر عالمی ادارے کا موقف وہی ہے جو آج سے ستر سال پہلے تھا اور کشمیری عوام کو حق خود ارادی دے کر ہی مسئلہ کشمیر کو پائیدار بنیادوں پر حل کیا جاسکتا ہے۔ بھارت اگرچہ یکطرفہ طور پر مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کررہا ہے اس نے لاکھوں ہندوئوں کو ریاست کشمیر کو ڈومیسائل دے دیا ہے، وہ وہاں جائداد خرید سکتے ہیں اور ریاستی باشندے کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ان تمام اقدامات کے باوجود بھارت کو یقین نہیں ہے کہ اگر آج آزادانہ استصواب رائے کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ اس کے حق میں برآمد ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس طرف آتا ہی نہیں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ازخود مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرانے کی جو پیش کش کی ہے اس کے بارے میں ماہرین امور کشمیر کی رائے یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہیں وہ مسئلہ کشمیر کو بھی ایک کاروباری تنازع سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ زمین کا جھگڑا ہے، بھارت نے کشمیر کے زیادہ حصے پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے اب ثالثی کے ذریعے کشمیر کے کچھ حصے پر سے اسے اپنا قبضہ چھوڑنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے، حالانکہ تنازع کشمیر پر ناجائز قبضے کا نہیں، کشمیری عوام کے حق خود ارادی کا ہے جس سے انہیں تقسیم ہندوستان کے وقت سے محروم رکھا گیا ہے۔ ماہرین امور کشمیر کی رائے کے مطابق پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ وہ صدر ٹرمپ کی ثالثی قبول کرنے سے معذرت کرلیں کہ اس سے مسئلہ کشمیر کو فائدہ پہنچنے کے بجائے اُلٹا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ رہا بھارت تو وہ کسی قسم کی ثالثی کے حق میں ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے جارحانہ سفارتی کوششیں بروئے کار لائے اور بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کردے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مسئلہ کشمیر پر مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی ثالثی نہیں ہے
پڑھیں:
6 نومبر، کشمیریوں کی نسل کشی کا سیاہ ترین دن
ریاض احمدچودھری
قیام پاکستان کے اڑھائی ماہ بعد 29 اکتوبر 1947 کوبھارت نے کشمیر پر لشکر کشی کی اور ریاست ہائے جموں و کشمیر پر اپنا تسلط جما لیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ 6 نو مبر 1947 کو ڈوگرہ فوج اور ہندو بلوائیوں نے ایک سازش کے تحت جموں کے نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا جو ہجرت کر کے پاکستان جارہے تھے۔ اس دن مظلوم اورمجبور ریاستی مسلمانوں کا خون اس بے دردی سے بہایا گیا جس کی تاریخ انسانی میں مثال نہیں ملتی۔
6 نومبر یوم شہداء جموں تحریک آزادی کشمیر کا سنگ میل ہے ۔لاکھوں کشمیریوں نے پاکستان کی محبت ، بھارت سے وطن کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔4نومبر کو بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل ، بھارتی فوجی سربراہ سردار بلدیو سنگھ اور پٹیالیہ کے مہاراجہ کے ہمراہ جموں پہنچے تھے اور انہوںنے 5 نومبر کواعلان کیا تھا کہ پاکستان جانے کیلئے مسلمان پولیس لائنز میں اکٹھے ہو جائیں ۔ اگلے دن 6 نومبر کو خواتین اور بچوں سمیت مسلمانوں کو ٹرکوں میں بھر کر پاکستان کیلئے روانہ کیا گیا۔ تاہم منزل پر پہنچے سے قبل ہی بھارتی اور ڈوگرہ فوج اور ہندو بلوائیوں نے ان کا قتل عام کر دیا۔ 6 نومبر 1947 کو جموں کے مسلمانوں پر جو قہر ڈھایا گیا اس کی یادیں آج بھی کشمیریوں کے ذہنوںمیں تازہ ہیں۔ پاکستان لانے کے بہانے لاکھوں مسلمانوں کو بلاامتیاز جس سفاکی سے قتل کیا گیا اس سے انسانی روح کانپ اٹھتی ہے ۔دنیا کے 56 مسلمان ممالک مقبوضہ ریاست میں مظلوم مسلمانوں پر بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش ہیں۔
جموں کے مسلمانوں کاہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوںقتل عام محض ایک اتفاق نہ تھا بلکہ یہ ایک گہری سازش کا شاخسانہ تھا جس کا تعلق بھی قیام پاکستان کے مقصد کو ناممکن بنانا تھا۔ یوم شہدائے جموں دراصل اس عزم کی تجدید کے لیے منایا جاتا ہے کہ جموں کے مسلمانوں نے1947ء کو نومبر کے پہلے ہفتے میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ جس مقصد کے حصول کے لیے پیش کیا تھا اس مقصد کو نہ تو فراموش کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے حصول میں آئندہ کسی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ کیا جائے گا۔
بھارت نے قیام پاکستان کے بعد سے ہی ہر ممکن طریقہ سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے اور کچلنے کی کوشش کی ہے مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھارتی فوج نے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا ۔ہزاروں کشمیری مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی۔ بچوں و بوڑھوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ہزاروں کشمیری نوجوان ابھی تک بھارتی جیلوں میں پڑ ے ہیں۔کشمیر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو یا وہ کسی اور انداز میں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کا نشانہ نہ بنا ہو لیکن اس کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ بھارت طاقت و قوت کے بل بوتے پرکشمیری مسلمانوں کو غلام بناکر رکھنا چاہتا ہے تاریخ گواہ کے کشمیری قوم برسوں سے عزم و استقلال کا پہاڑ بن کر بھارت کے ظلم و تشدد کو برداشت کر رہی ہے مگر ان کی بھارت سے نفرت کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے، کوئی کمی نہیں آئی۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کی آٹھ لاکھ فوج خود بھارت کے لئے بہت بڑا بوجھ بنتی جا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور کٹھ پتلی انتظامیہ آزادی اور حریت کا نعرہ بلند کرنے والوںکی آواز کو دبانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ مقبوضہ علاقے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے اورتناسب آبادی کو تبدیل کرنیکی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔کھانے پینے کے سامان کی قلت ہے ۔کاروبا ر بند ہیں۔ معمولات زندگی معطل ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں کراس کر لی ہیں۔ تحریک آزادی کشمیربرہان مظفروانی کی شہادت کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے ۔ اس سے آزادی کی منزل اور قریب آگئی ہے۔ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جب ساری ریاست آزادہو کر پاکستان کا حصہ بنے گی۔
بھارت طاقت و قوت کے بل بوتے پر کشمیریوں کو زیادہ دیر تک غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کرفیو،ظلم و ستم ،شہادتوں پر اقوام متحدہ کی خاموشی سے اس کا دوہرا کردار ایک بار پھر کھل کر دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔ حقوق انسانی کے وہ عالمی ادارے جنھوں نے جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی بھی تنظیمیں بنا رکھی ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی پر ان کی مجرمانہ خاموشی افسوسناک ہے۔ انہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سختی سے نوٹس لینا چا ہیے تھا مگر کسی نے نہیں لیا۔ پاکستانی حکمران ہی کشمیریوں کے نعروں اور پاکستان کے ساتھ ملنے کی آرزو لئے اپنی جانیں قربان کرنے والوں کے خون کی لاج رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خاتمہ کے لئے عملی اقدامات کریں۔ جب تک بھارت کشمیر پر سے قبضہ ختم نہیں کرتا حکومت پاکستان کو کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھنی چاہیے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس شہ رگ کو دشمن کے قبضہ سے چھڑانا انتہائی ضروری ہے۔اگرحکمران ان کشمیریوں کی اخلاقی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں توپھر یہ کوئی اخلاق نہیں ہے کہ آپ کشمیری مسلمانوں کے حق میں دو چار بیانات دے کر خاموش ہو جائیں اور انہیں بھارت کے چنگل میں پھنسا ہوا چھوڑ دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔