قطر نےآئی سی سی پراسیکیوٹر کیخلاف الزامات کو جھوٹا قرار دے کر مداخلتی مہم کی تردید کر دی
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دوحہ: قطر نے جمعے کو ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا کہ اس نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (ICC) کے پراسیکیوٹر کریم خان کے خلاف جنسی بدسلوکی کا الزام لگانے والی خاتون کو بدنام کرنے کی کوشش کی، یہ دعوے “قطر کی غزہ میں ثالثی کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے پھیلائے جا رہے ہیں۔
قطر کے بین الاقوامی میڈیا آفس نے کہا کہ یہ الزامات کچھ عناصر کی جانب سے منظم مہم کا حصہ ہیں، جو اپنی قابل مذمت کارروائیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے غلط معلومات پھیلا رہے ہیں، کئی میڈیا اداروں نے ان دعوؤں کی تصدیق نہ ہونے پر انہیں شائع کرنے سے انکار کر دیا۔
قطر نے واضح کیا کہ یہ الزامات اس کے ثالثی کردار، انسانی جانیں بچانے اور یرغمالیوں کی رہائی میں مدد، بین الاقوامی اداروں کی حمایت اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے خلاف جاری اثر و رسوخ کی مہم کا حصہ ہیں، حال ہی میں امریکا میں قطر چیریٹی کے خلاف دائر بے بنیاد مقدمات بھی مسترد کیے جا چکے ہیں کیونکہ عدالتوں نے ثبوت جعلی قرار دیے۔
اس سے قبل، گارڈین نے رپورٹ کی تھی کہ ICC کے ایک ملازم نے کریم خان پر جنسی حملے کا الزام لگایا، اور دعویٰ کیا کہ اس ملازم کو نقصان پہنچانے کے لیے نجی انٹیلی جنس فرموں نے قطر کی جانب سے خفیہ آپریشن کیا۔
کریم خان نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزامات اس پر دباؤ ڈالنے کی مہم کا حصہ ہیں کیونکہ اس نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گالانٹ کے خلاف غزہ میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
قطر، مصر، ترکی اور امریکا کی قیادت میں ثالثی کوششوں کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پایا، جو 10 اکتوبر سے نافذ العمل ہوا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے خلاف
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ کی خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کیخلاف توہین عدالت درخواست خارج
اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کے خلاف توہین عدالت درخواست خارج کردی۔
جسٹس خادم حسین سومرو نے کلثوم خالق ایڈووکیٹ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرنے کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا، عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔ عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون وکیل پر بھاری جرمانہ عائد کرنے سے گریز کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جج کے خلاف کارروائی کا درست فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے، جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے صرف آبزرویشنز دیں، کوئی حکم جاری نہیں کیا جس پر عملدرآمد ہوتا۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ پٹیشنر نے توہین عدالت کی درخواست میں بہت سے ایسے افراد کو فریق بنایا جو آئینی عہدوں پر بیٹھے ہیں، آئینی عہدے پر فائز شخص یا شخصیات کو فریق نہیں بنایا جا سکتا جب تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج اسی عدالت کے کسی دوسرے حاضر سروس جج کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا مجاز نہیں، کسی حاضر سروس جج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی قابل سماعت نہیں۔
پٹیشنر کی جانب سے کی گئی استدعا غلط فہمی پر مبنی، قابل اعتبار مواد سے غیر مستند اور آئینی دائرہ اختیار سے باہر ہیں، عدالت نے پٹیشنر کی جانب سے آفس اعتراضات پر مطمئن نا کرنے کے باعث کیس داخل دفتر کرنے کا حکم دے دیا۔