ماضی کا سامنا: جنوبی ایشیا جرمنی سے کیا سیکھے
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جون 2025ء) میں بون کی ایک نمائش گاہ میں نازی جرمنی کے سیاہ دور کی جھلک دیکھ رہی تھی۔ ’ناخ ہٹلر‘ یعنی 'ہٹلر کے بعد‘ نامی اس نمائش میں دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیاں، ہولوکاسٹ کی سنگین یادیں اور نازی آمریت کی تاریک کہانیاں پیش کی گئی تھیں۔ اس نمائش نے مجھے نہ صرف جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ ساتھ ہی ایک گہرے اور کڑوے سچ کا سامنا بھی کرا دیا۔
وہ سچ یہ تھا کہ جرمن قوم اپنی دردناک تاریخ سے نظریں نہیں چراتی بلکہ وہ اسے یاد رکھتے ہوئے نئی نسل تک بھی پہنچا رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج جرمن اسکولوں کی درسی کتابوں میں ہولوکاسٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔ یہاں ہولوکاسٹ سے انکار، ہٹلر یا نازی سیلوٹ اور نازی پرچم کے استعمال پر بھی قانوناً پابندی ہے۔
(جاری ہے)
جرمن معاشرہ چاہتا ہے کہ اس کا ماضی آنے والے کل کے لیے ایک ناقابل فراموش تنبیہ بنا رہے۔
اسی لیے اس مغربی یورپی ملک میں دوسری عالمی جنگ کے دور کی کئی باقیات اور نشانات کو ختم نہیں کیا گیا۔ اس سوچ کے تحت کہ آئندہ نسلیں یہ جانیں کہ نازیوں کے غرور اور نفرت نے انسانیت کو کس نہج پر لا کھڑا کیا تھا۔وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے 2019 میں نہایت جرأت سے کہا تھا، ’’یہ جنگ (دوسری عالمی جنگ) جرمن قوم کا جرم تھی۔
‘‘ یہ الفاظ اس قوم کے اجتماعی ضمیر کی گواہی دیتے ہیں، جو اپنی غلطیوں کا نہ صرف اعتراف کرتی ہے، بلکہ ان سے سبق بھی سیکھتی ہے۔حال ہی میں جرمنی میں کئی تاریخی مقامات کے مشاہدے نے مجھے برصغیر کے ماضی کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیا۔ ہمارا رویہ تاریخ کے ساتھ بالکل مختلف ہے۔ جنوبی ایشیا میں تاریخ کا سامنا کرنے کے بجائے اسے مصلحت، ضرورت اور سیاسی بیانیے کے مطابق مسخ کر دیا جاتا ہے۔
نصابی کتابیں سچ بولنے سے قاصر رہتی ہیں، بلکہ اکثر جھوٹ کا سہارا لے کر طرح طرح کے جواز پیش کیے جاتے ہیں۔کیا آپ کبھی تصور کر سکتے ہیں کہ موجودہ بھارت کے اسکولوں میں محمد علی جناح کا ذکر کسی ایسے رہنما کے طور پر ہو، جو تحریک آزادی کا حصہ تھے؟ کیا کہیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ جناح نے 1929 کی سینٹرل اسمبلی میں بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا دینے کی مخالفت کی تھی؟ اسی طرح کیا پاکستان کی درسی کتابیں کبھی جواہر لال نہرو کے سوشلسٹ وژن اور جمہوری فکر کی کھل کر داد دے سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔
ہماری کتابیں یا تو ایسے واقعات پر خاموش رہتی ہیں یا پھر جانبدارانہ بیانیہ اپناتی ہیں۔ برصغیر کی تاریخ کے پاکستانی ورژن کے مطابق کانگریس نے اثاثے چھینے، نہرو نے انگریزوں سے خفیہ ساز باز کی اور بھارت نے مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ادھر بھارت میں محمد علی جناح کو غدار اور ’’تقسیم کا ماسٹر مائنڈ‘‘ قرار دے کر ان کی تصویر علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
یہ جانے بغیر کہ جناح کو ''قائداعظم‘‘ کا لقب خود مہاتما گاندھی نے دیا تھا۔کیا آج کے بھارت میں یہ ممکن ہے کہ وزیر اعظم منی پور کے متاثرین سے معافی مانگیں؟ یا پاکستان میں کبھی کوئی فوجی حکمران اس بات کا اعتراف کرے کہ عوام سے جمہوریت کے وعدے کرنے کے بعد بھی انہیں جمہوریت سے محروم رکھا گیا؟ شاید نہیں۔
آج بھارت میں حکمران جماعت بی جے پی کی فکری بنیادیں ایک ایسے نظریے پر استوار ہیں، جو ماضی کے جرمن فاشزم کی ایک شاخ محسوس ہوتی ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے بانی گولوالکر نے اپنی کتاب ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ میں ہٹلر کی قوم پرستی کو مثالی قرار دیا ہے۔ ساورکر، جو آر ایس ایس کے ایک فکری رہنما تھے، مسلمانوں کو ’’ناپاک‘‘ قرار دیتے تھے۔ صرف اس لیے کہ ان کا مذہب برصغیر سے باہر سے آیا تھا۔آج بھارت میں مسلمان ایک خطرناک بیانیے کا شکار ہیں۔
انہیں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جا رہا ہے، انہیں شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور ان کا وجود سیاسی مفادات کی نذر کیا جا رہا ہے۔اس کے برعکس آج کا جرمنی اپنے ماضی کو فراموش کرنے کے بجائے ہر اس مقام کی عملی حفاظت کرتا ہے، جہاں ماضی میں کبھی ظلم ہوا تھا۔ اس لیے کہ یہ ظلم دوبارہ نہ کیا جا سکے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت میں حکومت اپنے ہی ملک کی تاریخ مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔
ایک نیا بیانیہ گھڑا جا رہا ہے، جس میں ساورکر کو نہرو کا متبادل اور گاندھی کا ہم پلہ بنایا جا رہا ہے۔ یاد یہ رکھا جانا چاہیے کہ اگرچہ ساورکر پر گاندھی کے قتل کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے تھے، تاہم گاندھی کا قاتل ناتھورام گوڈسے ساورکر کا مداح اور نظریاتی پیروکار تھا۔جب تک ہم تاریخ کا سچ بولنے کا حوصلہ پیدا نہیں کرتے، اس کا اعتراف نہیں کرتے ، تب تک ہماری اجتماعی یادداشت ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے سبق نہیں بنے گی، بلکہ ایک خطرناک خاموشی کا شکار رہے گی۔
وفاقی جمہوریہ جرمنی ہمیں سکھاتا ہے کہ ماضی کو دفن کرنے سے نہیں، بلکہ اسے تسلیم کرنے سے ہی قومیں آگے بڑھتی ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت میں جا رہا ہے جاتا ہے
پڑھیں:
یمن کی نصف آبادی بدترین بھوک کا سامنا، قحط کا خدشہ
یمن میں حکومت کے زیرانتظام جنوبی علاقوں میں غذائی تحفظ کی صورتحال سنگین صورت اختیار کر گئی ہے جہاں تقریباً نصف آبادی کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے اور بیشتر لوگوں کو یہ پریشانی لاحق رہتی ہے کہ انہیں اگلا کھانا کہاں سے اور کیسے ملے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کن علاقوں کے افراد کو بھوک کا عفریت نگلنے والا ہے؟
اقوام متحدہ کی سرپرستی میں غذائی تحفظ کے مراحل کی مربوط درجہ بندی (آئی پی سی) کے مطابق ملک میں 49 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بحرانی یا بدترین (3+) درجے کی بھوک کا سامنا ہے جبکہ 15 لاکھ لوگ ہنگامی درجے (4) کے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
یہ تعداد نومبر 2024 سے فروری 2025 کے درمیان سنگین درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے لوگوں کے مقابلے میں 3 لاکھ 70 ہزار زیادہ ہے۔
آئی پی سی کے تحت غذائی تحفظ کی درجہ بندی کے لیے 1 تا 5 مراحل کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے جس میں آخری درجے کا مطلب قحط ہے۔
غذائی عدم تحفظ کے اسباباقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ صورتحال مزید بگڑنے کا خطرہ ہے اور 420،000 لوگ بحرانی یا اس سے اگلے درجے کے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ملک کے جنوبی علاقوں میں شدید غذائی قلت کا سامنا کرنے والی آبادی تقریباً 54 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
مزید پڑھیے: غزہ دنیا کا ’سب سے بھوکا علاقہ‘ قرار، اقوام متحدہ کا انتباہ
متواتر معاشی انحطاط، کرنسی کی قدر میں کمی، مسلح تنازع اور شدید موسمی حالات ملک میں غذائی عدم تحفظ میں اضافے کے بڑے اسباب ہیں۔
خوراک تک غیریقینی رسائیڈبلیو ایف پی کے علاوہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) ایسے علاقوں میں امدادی سرگرمیوں پر خاص توجہ دے رہے ہیں جنہیں غذائی عدم تحفظ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان جگہوں پر غذائی تحفظ، غذائیت، صحت و صفائی، طبی مدد اور تحفظ کی خدمات مہیا کی جا رہی ہیں۔
یمن میں ‘ڈبلیو ایف پی’ کے نائب ڈائریکٹر سائمون ہولیما نے کہا ہے کہ ملک میں روزانہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن کی خوراک تک رسائی غیریقینی ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امدادی سرگرمیوں کے لیے فراہم کیے جانے والے وسائل میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔
فوری مدد کی ضرورتاقوام متحدہ کے تینوں اداروں نے ملک کے لیے پائیدار اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی اور لوگوں کو روزگار کے حصول میں مدد دینے کو کہا ہے تاکہ غذائی عدم تحفظ کی شدت میں کمی لائی جا سکے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل نے بھوک کو جنگی ہتھیار بناکر غزہ کے مزید 29 بچے اور بوڑھے قتل کردیے
موجودہ حالات اندرون ملک بے گھر لوگوں، کم آمدنی والے دیہی گھرانوں اور کمزور بچوں پر بری طرح اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ملک میں 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 24 لاکھ بچے اور 15 لاکھ حاملہ اور دودھ پلانے والی مائیں غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہیں۔
یمن میں ایف اے او کے نمائندے ڈاکٹر حسین غدین نےکہا ہے کہ حالات خراب ہیں لیکن فوری مدد کی فراہمی اور اس کا مؤثر استعمال یقینی بنا کر مقامی سطح پر خوراک کی پیداوار کو بحال کیا جا سکتا ہے، روزگار کو تحفظ دینا ممکن ہے اور بحران کو استحکام میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
یمن یمن بھوک یمن خوراک کی کمی یمن قحط یمن کی مخدوش صورتحال