پاکستان اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک امریکا اور بھارت کے ممکنہ تجارتی معاہدے کی تیاریوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ یہ معاہدہ خطے میں تجارتی تعلقات کو کس طرح متاثر کرے گا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سفارتی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک امریکا اور بھارت کے تجارتی معاہدے پر غور کر رہے ہیں، جو اب اپنے آخری مراحل میں ہے، وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ معاہدہ امریکا کے اس خطے کے ساتھ تجارتی تعلقات کو کس طرح متاثر کرے گا۔

امریکی اور بھارتی حکام نے بتایا ہے کہ توقع ہے یہ معاہدہ نومبر کے آخر تک مکمل ہو جائے گا، جس سے 2030 تک دونوں ملکوں کے باہمی تجارتی حجم کو 500 ارب ڈالر تک بڑھانے میں مدد ملے گی۔

ایک سفارتی ذرائع نے کہا کہ پاکستان اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک امید کر رہے ہیں کہ یہ معاہدہ امریکا کو خطے کے باقی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی ترغیب دے گا اور وہ چاہتے ہیں کہ سب کے ساتھ برابر سلوک ہو۔

ذرائع کے مطابق یہ خطے کے معاملات وہ وجہ ہیں جس کی وجہ سے امریکی اور پاکستانی مشترکہ تجارتی بیان کے اعلان میں تاخیر ہو رہی ہے۔

سفارتی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر کے درمیان بات چیت جاری ہے، تاکہ مختلف نکات کو حتمی شکل دی جا سکے۔

پاکستانی حکام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اس معاہدے سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جیسے کہ امریکا سے آنے والے خام مال سے بنی مصنوعات، جیسے امریکی کپاس سے تیار شدہ کپڑے پر ٹیکس کم ہونا۔

ایک ذرائع نے کہا کہ اب پاکستانی فوری اعلان کے لیے دباؤ نہیں ڈال رہے، بلکہ وہ امریکا-بھارت معاہدے کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

جب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اکتوبر میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی سالانہ ملاقاتوں میں شرکت کے لیے واشنگٹن گئے، تو پاکستانی حکام نے رپورٹرز کو بتایا کہ یہ بیان اگر دنوں میں جاری نہیں کیا گیا تو ہفتوں میں ضرور جاری کر دیا جائے گا۔

امریکا-پاکستان تجارتی معاہدہ، جو اصولی طور پر جولائی 2025 میں طے پایا، 7 اگست کو نافذ ہوا، اس معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان محصولات کم کیے گئے ہیں، جس سے پاکستانی برآمدات جیسے ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، سرجیکل آلات اور زرعی مصنوعات کو خاص فائدہ ملے گا، اس کے ساتھ ہی پاکستان نے اپنی ڈیجیٹل سروسز ٹیکس واپس لے لی۔

اس سے پہلے، یکم اگست کو پاکستان نے اعلان کیا کہ امریکا نے اس کی برآمدات پر 19 فیصد محصول عائد کیا ہے، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اپریل میں اعلان کردہ 29 فیصد شرح سے کم ہے۔

اسلام آباد نے اس نئی شرح کو متوازن اور مستقبل بینی پر مبنی اقدام قرار دیا، جس کا مقصد امریکی مارکیٹ میں پاکستان کی مسابقت کو بڑھانا ہے۔

اس کے برعکس بھارت کو ابتدائی طور پر 9 اپریل کو 26 فیصد باہمی محصول کا سامنا کرنا پڑا، جو بعد میں 6 اگست کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 50 فیصد تک بڑھا دیا گیا، جو 27 اگست سے بھارت کی روسی تیل کی خریداریوں کو بنیاد بنا کر مؤثر ہوا۔

واشنگٹن میں پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی اکنامکس (پی آئی آئی ای) خبردار کرتا ہے کہ 2025 کے باہمی محصولات امریکا اور دنیا کی معیشت کی ترقی کو سست کر سکتے ہیں اور متاثرہ ممالک میں مہنگائی بڑھا سکتے ہیں، یہ محصولات ان ممالک کو زیادہ متاثر کرتے ہیں جو عالمی پیداوار اور تجارتی زنجیروں پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ محصولات خام برآمدی قیمت پر لگائے جاتے ہیں، جس میں درآمد شدہ اجزا بھی شامل ہیں۔

ایک اور واشنگٹن تھنک ٹینک، سی ایس آئی ایس، بتاتا ہے کہ باہمی کا لیبل درست نہیں ہے، یہ شرحیں ہر ملک کے ساتھ امریکا کے تجارتی خسارے کی بنیاد پر حساب کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات یہ شرحیں 50 فیصد تک پہنچ جاتی ہیں، جو عام تلافی کے اقدامات سے کہیں زیادہ ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان اور امریکا اور اور بھارت یہ معاہدہ کے ساتھ ہیں کہ

پڑھیں:

مودی کی ایک اور سبکی؛ ٹرمپ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے؛ روسی پیٹرول خریدنا بند

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس سے سستے داموں پیٹرول خرید کر اس کی معیشت کو مضبوط کرنے پر بھارت کو متعدد بار متنبہ کیا تھا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھاری ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

جس پر بھارت نے ابتدا میں روس سے پیٹرول خریدنے کو اپنی قومی سلامتی کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی کے کہنے پر ایسا کرنا بند نہیں کریں گے۔

الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق مودی سرکار نے امریکا کو یہ تک کہہ دیا تھا کہ روس سے فائدہ اُٹھانے والوں میں خود امریکا بھی شامل ہے۔

خود ستائشی کے مرض میں مبتلا نریندر مودی نے بھی بڑھک ماری تھی کہ روس سے پیٹرول خریدنے کے معاہدے برقرار رہیں گے۔

باتوں کے شیر اس وقت گیدڑ ثابت ہوئے جب یکے بعد دیگرے بھارتی کمپنیاں اور ادارے روس سے پیٹرول خریدنے سے دور ہوتے گئے۔

یہاں تک کہ ایک موقع پر خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ شاید بھارت میں پیٹرول کی شدید قلت پیدا نہ ہوجائے۔ جس کے بعد مودی سرکار کے کس بل ڈھیلے ہوگئے۔

دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک، اور مودی کے قریبی دوست مکیش امبانی کی کمپنی ریلائنس نے بھی اپنی ضروریات کے لیے روس سے پیٹرول لینا بند کردیا۔

حالانکہ اپنے اس فیصلے سے ریلائنس کمپنی کو اب مہنگے داموں پیٹرول مشرق وسطیٰ یا امریکا سے خریدنا پڑے گا۔ جس سے ان کی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی۔

مکیش امبانی نے یہ فیصلہ اپنے دوست مودی پر سے امریکی دباؤ کو کم کرنے کے لیے لیا ہے کیونکہ مودی جی ان دنوں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

امریکی میڈیا نے بھی اپنی رپورٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ روس سے دس سال تک بھارتی کمپنیوں کا تیل معاہدہ اب بے معنی ہوکر رہ گیا۔

ان رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ بھارت نے روسی تیل خرید کر برسوں تک مہنگے داموں بیچا اور اربوں ڈالر کمائے۔

 

متعلقہ مضامین

  • جی 20 کا اجلاس جوہانسبرگ میں اختتام کو پہنچا، امریکا اور جنوبی افریقہ تعلقات کشیدہ
  • جی20 ممالک کے اجلاس میں روس یوکرین امن منصوبے پر غور، امریکا نے بائیکاٹ کیوں کیا؟
  • ڈیلی میل کے مالک کا حریف اخبار ’ٹیلیگراف‘ خریدنے کیلئے 65 کروڑ ڈالر کا معاہدہ
  • ٹیرف اور سرمایہ کاری سے دوسرے ممالک سے کھربوں ڈالر لے رہے ہیں: ڈونلڈ ٹرمپ
  • روسی تیل ، بھارت نے امریکی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے
  • مودی کی ایک اور سبکی؛ ٹرمپ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے؛ روسی پیٹرول خریدنا بند
  • بھارت نے امریکی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، روس سے تیل کی درآمد بند
  • بھارتی میڈیا نے تیجس حادثہ کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہرا دیا
  • بھارت کیخلاف ہماری فتح کی سرٹیفکیشن امریکا دے رہا ہے، خواجہ آصف